حامد انصاری صاحب پریشان ہیں کہ ملک اپنے آئین اور سیکولر قدروں سے کس طرح دور ہوتا جا رہا ہے اور وہ اس بات کو کھل کر کئی بار کہہ چکے ہیں ، جس پر ایک خاص مکتبہ فکر اور گودی میڈیا نے واویلا بھی مچایا ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ وقتاً فوقتاً ان پر اوچھے حملے کرتا ہے لیکن ایک شریف اور وضع دار انسان ہونے کے ناطے وہ اس پر خاموش رہتے ہیں۔
حامد انصاری صاحب کے بارے میں آجکل جتنے منھ اتنی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں تبصرہ نگاروں میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو انصاری صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتے۔ کچھ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انصاری صاحب کو قوم و ملت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ محض ایک”سرکاری مسلمان“ ہیں۔
اس سیاق میں ایک یونیورسٹی کےسابق وائس چانسلر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ان کی یونیورسٹی کے چانسلر ہوتے ہوئے بھی انصاری صاحب ان کی یونیورسٹی میں کبھی نہیں آئے۔
میں خود کو انصاری صاحب کا دوست یا قریبی تو نہیں کہہ سکتا ہوں، لیکن میری ان سے اچھی ملاقات ضرور ہے اور بار ہا ان سے ملاقات اور طویل گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہے۔ جب بھی ملاقات ہوئی ہے تو انہوں نے ملک اور ملت دونوں کے بارے میں تفصیل سے میری رائے جاننے کی کوشش کی۔ اکثر اپنی رائے بھی بتائی اور کبھی خاموش بھی رہے۔
ان سے میری پہلی ملاقات تقریباً پندرہ سولہ سال قبل مسلم مجلس مشاورت کے دفتر میں ہوئی۔ وہ سفارت کاری سے ریٹائر ہوکر واپس دہلی آئے تھے پھر تین سال کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ وہاں سے فراغت کے بعد دہلی میں مقیم تھے۔ اس عرصے میں فارن سروس میں ان کے سینئر ساتھی سید شہاب الدین صاحب نے ان کو مشاورت کا ممبر بنایا تھا۔
اس زمانے میں ا نصاری صاحب مشاورت کی میٹنگ میں چندایک بار شریک ہوئے۔ ایک بار وہ آئے تو کہنے لگے کہ رنگ روڈ پر مسلم قبرستان کو ملینیم پارک میں تبدیل کیا جا رہاہے، آپ لوگ اس سلسلے میں کچھ کیجیے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ان کو ملت کے معاملات سے دلچسپی تھی۔
سن2006 میں وہ نیشنل مائناریٹز کمیشن کے صدر بنائے گئے۔ اس زمانے میں ایک دن ان کا فون آیا کے کہ آئیے کچھ بات کریں گے۔ میں گیا اور انہوں نے دیر تک مجھ سے ملت کے مسائل کے بارے میں بات کی، جس سے اندازہ ہوا کہ وہ مسائل کو جاننا چاہتے ہیں۔
یہ غالباً اس لیے بھی ضروری تھا کہ سفارتی ذمہ داریوں کے تحت وہ برسوں ملک سے باہر رہے تھے، اس لیےیہاں کےاندرونی حالات سے پوری طرح باخبر نہیں تھے۔ یہی حال میرا اپنا تھا کہ 1966 سے لےکر1984تک میں ملک سے باہر تھا، اس لئے دلچسپی کے باوجود ملک اور بالخصوص مسلمانوں کے حالات اور ان کی قیادت اور مختلف مسلم تنظیموں کے پیچ و خم سے واقف نہیں تھا۔ واپس آنے کے بعد مجھے حالات سمجھنے میں کئی سال لگے۔
سن 2007 میں انصاری صاحب ملک کے نائب صدر جمہوریہ بنائے گئے۔ اس کے بعد سے عہدے کے تقاضے کے لحاظ سے انصاری صاحب کا تعلق عوام الناس سے کم ہو گیا جو ایسے عہدوں پر فائز لوگوں کے لئے عام بات ہے نیز ایسے لوگوں کی مصروفیات بھی بہت بڑھ جاتی ہیں ۔ صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس وغیرہ ایسے عہدے ہیں جن پر حامل افراد کا عوام سے براہ راست کم رابطہ ہوتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں سیکورٹی کی ضروریات کی وجہ سے۔
ان حالات کے باوجود جب بھی میں نے ان سے ملنے کی درخواست کی ، چند دنوں کے اندر مجھے یہ شرف حاصل ہو گیا۔ کہیں کسی تقریب وغیرہ میں مل گئے تو مخاطب ہو کر کہا؛ ’’گھر آئیے گا، ساتھ چائے پیئیں گے‘‘۔ ایک بار ان سے ملنے گیا اور کسی وجہ سے چائے سے انکار کیا تو کہنے لگے ؛’’ہم تو منتظر تھے کہ آپ آئیں گے تو ساتھ چائےپیئیں گے‘‘۔
نائب صدر رہتے ہوئے انصاری صاحب نے تین بار میری درخواست پر ایسی مناسبتوں یا کانفرنسوں میں شرکت کی جو خالص’’ملی‘‘یا اسلامی تھیں۔ سب سے پہلے انہوں نے فروری2010 میں میری درخواست پر بین الاقوامی بین المذاہب کانفرنس کا جامعہ ملیہ کے انصاری ا ٓڈیٹوریم میں افتتاح کیا جس کا انتظام وانصرام میں نے کیا تھا اور میں نے ہی ان کی سرکاری قیام گاہ پر جاکر ان کو دعوت دی تھی۔
دوسری بار میری درخواست پر انہوں نے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی صد سالہ تقریبات کا افتتاح کیا جو اعظم گڑھ کے شبلی کالج کے وسیع میدان میں نومبر2014 میں منعقد ہوا۔ تیسری بار انہوں نے مسلم مجلس مشاورت کی پچاسویں سالگرہ پر اگست 2015 میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا میری درخواست پر افتتاح کیا جو دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ہوئی ۔ ان سب مواقع پر انہوں نے پر مغز تقاریر کیں اور بہت عمدہ مشورے دیے جو ملت سے ان کے لگاؤ اور ہمدردی کی دلیل ہیں۔ یہ سب تقاریر ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور چھپ چکی ہیں۔
تونس کے اسلامی لیڈر راشد غنوشی جب اپریل 2015 میں ہندوستان سرکاری دورے پر آئے تو حیدر آباد ہاؤس میں ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں حامد انصاری صاحب نے مجھے بھی مدعو کیا اور کھانے کی میز پر جب مختلف مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی تو ایک بات پر مجھ سے مخاطب ہوکر کہا؛’’خان صاحب! اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘۔
پچھلے چند مہینو ں میں مجھ پر جو افتاد پڑی ہے، اس کے دوران انصاری صاحب نے متعدد بار فون کرکے میرے حالات اور خیریت دریافت کی جب کہ اس افتادکے بعد سےمیرے بہت سے قریبی لوگ بھی مجھ سے ملنے یا مجھے فون کرنے سے کترانے لگے ہیں حالانکہ توقع تھی کی ایسے لوگ بر ملا کہتے کہ ہم اس شخص کو بیس ،تیس سال سے جانتے ہیں اور اس پر لگائی گئی تہمت پر یقین نہیں کرتے ہیں۔
ایسے میں یہ کہنا کہ انصاری صاحب کو ملت کی پرواہ نہیں ہے یا وہ سرکاری مسلمان ہیں ، کسی طرح جائز نہیں ہے۔ انصاری صاحب ایک ذمہ دار اور خوددار انسان ہیں۔ کئی عشرے تک ڈپلومیٹ رہ چکے ہیں اور ملک کے دوسرےسب سے بڑے عہدے پر پورا عشرہ گزار چکے ہیں۔
اس لیے ان سے یہ توقع کرنا غلط ہے کہ وہ عام قائدین کی طرح ہر معاملے میں بولیں گے اور بیان بازی کریں گے۔ ان کو ملک اور ملت دونوں کی پرواہ ہے۔ وہ پریشان ہیں کہ ملک اپنے آئین اور سیکولر قدروں سے کس طرح دور ہوتا جا رہا ہے اور وہ اس بات کو کھل کر کئی بار کہہ چکےہیں ، جس پر ایک خاص فکر رکھنے والے اور گودی میڈیا نے واویلا بھی مچایا ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ وقتاً فوقتاً ان پر اوچھے حملے کرتا ہے لیکن ایک شریف اور وضع دار انسان ہونے کے ناطے وہ اس پر خاموش رہتے ہیں۔
کیا ہم میں اتنی سمجھ نہیں اور ہماری اتنی ذمہ داری بھی نہیں بنتی ہے کہ اگر ہم ان کی قدر کرنے کا مادہ نہیں رکھتے تو کم از کم ان پر تیر اندازی تو نہ کریں۔ لیکن اس امت کا المیہ ہے کہ اپنے خیر خواہوں اور حقیقی قائدین کو وہ بہت زمانے کے بعد پہچانتی ہے۔ وہ بھی اس وقت جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور یہ حقیقی خیر خواہ اپنے چھلنی زدہ دلوں کو لے کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتےہیں۔
اس ناسمجھی سے ان لوگوں کے دل بھی ٹوٹتے ہیں جو خلوص کے ساتھ کچھ نہ کچھ ملت کے لیے اپنے طریقےسے کچھ کر رہے ہیں لیکن ان کو اپنوں سے ہی پتھر اور اینٹوں کا تحفہ ملتا ہے۔
Categories: فکر و نظر