تجزیہ : گزشتہ دنوں سامنے آئی وزرا کےگروپ کی رپورٹ میں مودی سرکار کو جوابدہ ٹھہرانے والے میڈیا کو چپ کرانے اور سرکار کی منفی امیج کو ٹھیک کرنے کی حکمت عملی کی بات کی گئی ہے۔اس میں تین بار د ی وائر کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ عوام کے بیچ حکومت کی امیج پرمنفی اثر ڈال رہا ہے۔
نئی دہلی: دسمبر 2020 کے اواخر میں وزارت اطلاعات ونشریات نے 97صفحے کا ایک دستاویز مودی سرکار کے مختلف وزارت کو بھیجا تھا، جس کا نام ہے ‘سرکاری کمیونی کیشن پر وزرا کےگروپ کی رپورٹ’۔
اس رپورٹ میں مرکز کے نو اہم وزرا کے ذریعے تیار کیے گئے ان سفارشات کا ذکر تھا، جو میڈیا میں مودی سرکار کی امیج چمکانے اور ہندوستان کےتمام لوگوں تک سرکار کی پہنچ بنانے کے لیے دی گئی تھیں۔
ان وزرا نے مودی سے ہی‘سیکھ’ لی ہے، جنہوں نے ‘وزرا کے گروپ (جی او ایم)کو اپنے علم سے گائیڈ کیا اوراہم نکات بتائے تھے۔’
ویسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر سرکار کی پالیسیاں اتنی ہی منافع بخش ہیں تو اس کی اتنی تشہیر کی کیا ضرورت ہے۔
اس کے بعد گروپ نے ‘نامور’ لوگوں کی رائے لی، جس میں سنگھ پریوار کے قریبی لوگوں کے ساتھ ‘مین اسٹریم ’کے اخباروں اور ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے صحافی شامل ہیں۔ممکنہ طور پران کے ساتھ بات چیت کے بعد ہی وزرا نے نتیجہ نکالا کہ‘پازیٹو اسٹوری’ کرانے کے لیے‘میڈیا کی مدد’ کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریباً پانچ مہینےغوروخوض کرنے کے بعد وزرا کے گروپ نے میڈیا مینجمنٹ کے لیے ایکشن پلان تیار کیا گیا۔
اس رپورٹ میں کہیں بھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا ہے کہ اگر سرکار کی‘حصولیابیوں’ پرعوام کی خاطر خواہ توجہ نہیں جا رہی ہے، تو ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ‘حصولیابیاں ’ عوام کی نظر میں مؤثر نہیں ہیں۔
اس کی جگہ پر اس گروپ نے پورا زور میڈیا میں بنی‘منفی امیج’ کو ٹھیک کرنے میں لگا دیا۔
سرکار کا ماننا ہے کہ یہ صورتحال‘کچھ منتخب صحافیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو سرکار کی لائن سے الگ اپنی رائےکا اظہار کرتے ہیں۔’اس لیےاس رپورٹ میں اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے کہ کس طرح ان صحافیوں کو چپ کرایا جائے۔
رپورٹ میں ڈیجیٹل نیوز میڈیا کمپنیوں کے لیے نئے ایف ڈی آئی ضابطوں کی تفصیلات دی گئی ہیں، جو یہ واضح کرتی ہیں کہ یہ نئےضابطے‘سب کو برابر کا موقع دینے’ کے بجائے ایسے پورٹل کو ‘ٹھیک’ کرنے کے لیے لایا گیا ہے، جو سرکار کو جوابدہ ٹھہرانے والی رپورٹ کرتے آئے ہیں۔
یہ رپورٹ مودی سرکار کے میڈیامینجمنٹ کا ‘ٹول کٹ’ہے، جس میں ایسے کئی مشورے اور ایکشن پوائنٹ دیے گئے ہیں جو آزاد میڈیا کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
جی او ایم رپورٹ میں د ی وائر کا ذکر تین بار ایسےمثال کے طور پرکیا گیا ہے، جو سرکار کو لےکرمنفی امیج بنا رہا ہے۔
ویسے تو اس رپورٹ کو عوامی کرنے کا کوئی مقصد نہیں تھا، لیکن پہلی بار دسمبر 2020 میں ہندوستان ٹائمس نے اس رپورٹ کا انکشاف کیا تھا۔
جی او ایم کے دو مشورے کو لےکر کافی تشویش کا اظہار کیاگیا ہے، جس میں سے ایک منفی اورمثبت لوگوں (صحافیوں، میڈیا)کی پہچان کرنا اور ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنے پالے میں لانا، جن کی حال ہی میں نوکری گئی ہے۔
پچھلے ہفتے کارواں میں اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ شا ئع کی گئی اور اسی بیچ یہ دستاویز انٹرنیٹ پر عوامی کر دیا گیا۔
اس دستاویز کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کااندرونی دستاویز جیسا معلوم ہوتا ہے۔ اس میں رائٹ ونگ کے لوگوں کو بڑھاوا دینے کی بات کی گئی ہے۔
جی او ایم رپورٹ میں کئی صحافیوں کے رائے دینے کی بات کی گئی ہے۔ ویسے کئی لوگوں نے اس پرردعمل دیتے ہوئے اس سے دوری بنائی ہے اور ایسی کوئی بھی بات رکھنے سے انکار کیا ہے۔
حالانکہ ابھی تک کسی نے بھی سرکار کے خلاف شکایت نہیں کی ہے۔
اس رپورٹ کےتشویش ناک مواد اور کئی ناموں کےعوامی ہونے کے بعد وزرا کے سامنے کئی پریشانیاں کھڑی ہو گئی ہیں۔ہر ایک نے صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس رپورٹ کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔
حالانکہ سرکار نے ابھی تک اس کے مواد سے انکار نہیں کیا ہے۔خصوصی طور پربی جے پی حمایتی لوگوں کے مشورےکافی دلچسپ ہیں۔
ویسے تو د ی وائر نے جی او ایم رپورٹ پر تفصیل سے خبریں لکھی ہیں، لیکن قارئین کی سہولیت کے لیے ہم یہاں اس کا ثبوت اور رپورٹ کے بنیادی نکات کو ترجیح کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
جی او ایم رپورٹ میں صحافی نتن گوکھلے کا نام ہے، لیکن گوکھلے نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ انہوں نے صحافیو ں کو ‘خانے میں تقسیم کرنے’کی بات کی تھی۔
حالانکہ ابھی تک یہ صاف نہیں ہو پایا ہے کہ گوکھلے نے اسے لےکر سرکار سے اعتراض کیا ہے یا نہیں۔
جی او ایم رپورٹ کے اہم نکات کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے اسے پی ڈی ایف فارمیٹ میں یہاں منسلک کیاجارہا ہے۔ قارئین اس کے باقی پیج کے اسکرین شاٹ کو پڑھ سکتے ہیں۔
An Annotated Reading Guide … by The Wire
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر