پرولیا کےمختلف حلقوں میں عدم اطمینان کی لہر کے باوجود ممتا بنرجی کی مقبولیت بنی ہوئی ہیں، لیکن ٹی ایم سی کی مقامی قیادت کے خلاف ناراضگی کا پارٹی کو شدید نقصان اٹھاناپڑ سکتا ہے۔
پرولیا: ‘تورا جے کے دیبی دے، امی تو ٹی ایم سی کیے ووٹ دیبو۔’(تم سب چاہے جسے دو، میں تو ٹی ایم سی کو ہی ووٹ دوں گا۔)
بنگال کے سب سے مغربی ضلع پرولیا کے باگھمنڈی میں 20-22 سال کے نوجوانوں کے ایک گروپ کی بات چیت یہاں کے سیاسی موڈ کو کا مظاہرہ کررہی ہے۔ یہ بات کہنے والے روپم مہتو ہیں، جو دہلی کی ایک فیکٹری میں کام کیا کرتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد سے بےروزگار ہیں۔
ان کی بات پر سب ہنستے ہیں اور ششر مہتو کہتے ہیں،‘ای بارے کنتو پوری بورتن آٹکٹے پاربے نہ کیؤ، تئی جا کورار کورے نے (لیکن اس بار تبدیلی آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، تمہیں جو کرنا ہے کرو۔)
گروپ کے ایک اورممبر راجیش مہتو کہتے ہیں،‘کاولا چھاپ جودی نہ ہوتو، کو نو کنفیوزن ای تھاکتو نہ۔ کنتو لاسٹ اے ای جیتبے اوئی۔’(اگر یہ کیلے کے نشان والا نہیں ہوتاتو کوئی کنفیوزن ہی نہیں تھا، لیکن آخرمیں وہی جیتےگا۔)
جس کیلے کے نشان کا راجیش ذکر کر رہے ہیں وہ جھارکھنڈ کے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین کے سدیش مہتو کاانتخابی نشان ہے۔ یونین صوبے کی صرف اس سیٹ پر بی جے پی کے اتحادی کے طور پرمیدان میں ہے۔رنبیر کو چھوڑکر اس گروپ کے سارے ممبر اس بار ریاست میں ‘پوری بورتن’ کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ زیادہ تر کا کہنا ہے کہ صرف بی جے پی ہی ٹی ایم سی کی‘بےلگام ’حکمرانی کو اکھاڑ کر پھینک سکتی ہے۔
اجودھیا ہل کے لیے مشہور باگھمنڈی میں یوں ہی غیررسمی سروے میں بی جے پی کے لیے خاصی حمایت نظر آتی ہے، جبکہ موجودہ کانگریسی ایم ایل اے نیپال مہتو کو لےکر کوئی اینٹی ان کمبینسی نہیں دکھتی۔ 2011 میں باگھمنڈی کے اسمبلی سیٹ بننے کے بعد سے نیپال مہتو دو بار جیت چکے ہیں، اس سے پہلے یہ جھالدہ سیٹ تھی، وہاں سے بھی مہتو دو بار جیتے تھے۔
ریاست کے سب سے سینئر کانگریسی رہنماؤں میں سے ایک مہتو عام آدمی کے دوست کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو اپنےاسمبلی حلقہ میں بنا کسی سکیورٹی کے گھومتے ہیں۔ حالانکہ 2021 کے اسمبلی انتخاب سے پہلے ان کی امیدواری کو لےکر لوگوں میں کوئی خاص جوش نہیں ہے۔
وہیں دوسری طرف د ی وائر نے جن سے بات کی، ان لوگوں میں سے اکثر بی جے پی کو لےکر اپنی ترجیحات چھپا نہیں سکے، حالانکہ وہ ان کی ریاست میں کوئی موجودگی نہ رکھنے والی جھارکھنڈ کی آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین کے لیے سیٹ چھوڑنے سے بے حد مایوس تھے۔
پرولیا کے نو اسمبلی حلقوں ؛ بلرام پور، باگھمنڈی، پرولیا، جوائے پور، مان بازار (ایس ٹی)، کاشی پور، پارہ (ایس سی)، بندوان اور رگھوناتھ پور میں 27 مارچ کو ووٹنگ ہو رہی ہے۔ بی جے پی ان تمام جگہوں پر زیادہ تر لوگوں کی پسند بن کر ابھری ہے، جہاں کچھ لوگ اس کوکھلےطورپرظاہر کر رہے ہیں، وہیں کچھ اس بات کو چھپا بھی رہے ہیں۔
دادا، دیدی اور بی جے پی
‘میں دادا کو ووٹ دوں گا، وہ وکاس لائےگا،’ جوائےپور کے باجھری گاؤں کے بیڑی مزدور راما ماجھی کہتے ہیں۔‘بی جے پی کے پاس بڑھت ہے،’ بلرام پور کے پھٹک ہیمبروم کا کہنا ہے۔‘دیدی نے اپنے بھتیجہ کو سب کنٹرول دےکرغلطی کی ہے،’ایسا کہنا ہے باگھمنڈی سیٹ کے سرکاباد میں چائے کی دکان چلانے والے پرکاش پرامانک کا۔
پرولیا کے ایک کاروباری سوپن جھالدار کہتے ہیں،‘دیدی صحیح ہیں لیکن ان کا لوگ اصل پریشانی ہے۔’عام لوگوں کی نظر میں ٹی ایم سی کے بارے میں اس طرح کی رائے اس کی کوئی اچھی امیج نہیں بناتی۔ پرولیا میں بی جے پی کی مہم انہیں مدعوں کے ارد گرد بنی ہوئی ہے۔ اپنے ‘جئے شری رام’کے نعرے کے باوجود پارٹی نے یہاں بہ مشکل ہی اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے پر کام کیا ہے۔ ضلع میں مسلمانوں کی بکھری ہوئی آبادی کی وجہ سےیہاں مذہبی بنیاد پر ووٹ کے لیے پولرائزیشن کرنے کے کوئی خاص معنی نہیں ہوں گے۔
پرولیا کے اکثر رائے دہندگان او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی سے ہیں۔ زیادہ تر اسمبلی سیٹوں پر سب سے زیادہ آبادی کرمی، جو او بی سی میں آتے ہیں، کی ہے۔ یہ زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں، جو بی جے پی کے حمایتی ہیں۔
حلقہ کے دلت، جو یا تو چھوٹے کسان ہیں یا مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں، کا بھی سوچنا ہے کہ بی جے پی مقتدرہ ٹی ایم سی سے بہتر متبادل ہے۔ آدی واسیوں کی سب سے بڑی کمیونٹی سنتھال بھی ‘پوری بورتن’ کا اشارہ دیتی ہیں، حالانکہ ان کی بڑی تعداد ایسے رہنماؤں کے ساتھ ہے جو بی جے پی میں نہیں ہیں۔ غور کرنے والی بات ہے کہ ان کی حمایت پارٹی سے زیادہ رہنما کے لیے ہے۔
مثلاً، باگھمنڈی کے بانٹ ٹڈو کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کانگریسی رہنما نیپال مہتو کے ساتھ ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ ان کی مدد کی ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دیگر پارٹیوں کے مقابلے وہ بی جے پی کوترجیح دیں گے۔
گاؤں کی ایک بڑی آبادی کے نمائندہ کے طور پر بات کرتے ہوئے تاش کھیلتے رمیش کہتے ہیں،‘اس بار بدلاؤ نظر آ رہا ہے، لیکن ہمارے رہنما نیپال مہتو ہی ہیں۔’
دراصل بی جے پی کی مہم غریبوں اور کمزور طبقوں کے بیچ سب سے زیادہ مؤثردکھتی ہے، جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے اور جو ٹی ایم سی کے مقامی رہنماؤں اور نمائندوں کو لےکر کڑواہٹ سے بھرے ہوئے ہیں۔
ٹی ایم سی کے فلاحی منصوبے
وہیں دوسری طرف، ٹی ایم سی کی مہم کے مرکز میں ممتا بنرجی کے لائےگئے فلاحی منصوبے ہیں۔ ٹی ایم سی کے کارکن ریاستی حکومت کی روپ شری، کنیاشری، سبجھ ساتھی جیسےکئی منصوبوں پر بات کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پارٹی کی انتخابی مہم مرکزکی نریندر مودی سرکار کے ‘جھوٹے’وعدوں اور ناکامیوں کی بھی بات کرتی ہے۔ بی جے پی کے راج میں سب سے زیادہ بےروزگاری در اور مودی سرکار کا سرکاری اثاثوں کی نجکاری ٹی ایم سی کے انتخابی مدعوں میں سب سے اوپر ہے۔
ان حلقوں میں جیت کے لیے پارٹی مختلف سیٹوں پر اپنے مقامی قیادت کےسیاسی تحفظ والے نیٹ ورک، سیٹ کےلحاظ سےبننے بگڑنے والے فارمولہ پر منحصرہے۔ جن ٹی ایم سی کارکنوں سے د ی وائر نے بات کی، انہیں امید ہے کہ لیفٹ کانگریس انڈین سیکولر فرنٹ کا اتحاد ٹی ایم سی مخالف ووٹوں کو بی جے پی کی طرف جانے سے روکےگا۔
حالانکہ ٹی ایم سی حکومت کے خلاف اس حلقہ میں مؤثر اقتدار مخالف اور بی جے پی کو پسند کرنے والوں کی بڑھتی تعداد کے سامنے یہ سب پھیکا پڑ جاتا ہے۔ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے ذریعےجیتی گئی 18 سیٹوں میں سے پرولیا ایک ہے۔ نو میں سے آٹھ اسمبلی حلقوں میں بی جے پی نے ٹی ایم سی پر بڑھت بنائی تھی۔ اب دو سال بعد بی جے پی کو ملی یہ حمایت اور گہری نظر آتی ہے۔
گاؤں اور قصبوں میں کی سیاسی بحثوں میں لگاتار ‘بھائی پو’(بھتیجہ)، سنتراس (جبر)، چری (بدعنوانی)، ‘کٹ کا پیسہ’ (فلاحی منصوبوں کافائدہ اٹھانے کے لیے دیا جانے والا کمیشن) جیسےلفظ سنائی دیتے ہیں۔
بلرام پور کے باؤری(دلت)طبقے سے آنے والے روپیش داس کہتے ہیں، ‘ہم اپنا دھان 1200 روپے میں بیچتے ہیں کیونکہ ہمیں فوراً پیسہ چاہیے ہوتا ہے لیکن ٹی ایم سی کا لوگ اسی کو اےپی ایم سی میں لے جاکر 1900 روپے میں بیچتا ہے۔’
پرولیا میں ایک نجی اسکول میں پڑھانے والے سدیپ منڈل بھی ایسا ہی کہتے ہیں،‘گوشٹی ادھار کورچھے ٹی ایم سی ایر نیتا را۔ کو نو اسکیم بھالو بھابے پائی نی امرا۔’ (ٹی ایم سی کے رہنما صرف اپنے پریوار اور ساتھ والوں کا ہی بھلا کر رہے ہیں، اسکیموں کافائدہ لوگوں کو نہیں مل رہا ہے۔)
ان سب کی وجہ سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے جہاں لوگ ‘دیدی’ کی غلطی نہیں مانتے ہیں، (وہ یہاں اب بھی مقبول ہیں)لیکن ان کا ماننا ہے کہ مقامی رہنماؤں کی بدعنوانی اور بے لگامی کے چکر سے نکلنے کاواحد راستہ ٹی ایم سی سرکار کو ہٹا دینا ہے۔
اسی کی وجہ سے یہاں مقابلہ صرف بی جے پی ٹی ایم سی کے بیچ رہ گیا ہے، زمین پر لیفٹ کانگریس اتحاد اس لڑائی میں کہیں نظر نہیں آتی۔سال 2016 کے اسمبلی انتخاب میں ٹی ایم سی نے حلقہ کی نو سیٹوں میں سے سات جیتی تھیں۔ بی جے پی اس وقت میدان میں نہیں تھی۔ حالانکہ اس بار اس کے ٹھیک الٹ ہونے کا امکان ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, خبریں