خصوصی رپورٹ : وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویز کے ذریعے پرائیویسی سےمتعلق خدشات اورمختلف عہدیداروں کے اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کے کئی کروڑ شہریوں کے گاڑیوں کے رجسٹریشن سے متعلق ڈیٹا آٹو ٹیک سالیوشنز کمپنی فاسٹ لین کو بےحد کم قیمت پر فروخت کیاگیا، جس کی بنیاد پر کمپنی نے خوب منافع کمایا۔
نئی دہلی: وزارت ٹرانسپورٹ کے ذریعے بلک موٹر وہیکل ڈیٹا شیئرنگ پالیسی کااعلان کرنے اور پھر اس کوپرائیویسی اور غلط استعمال سےمتعلق خدشات کی وجہ سے واپس لینے سے تقریباً چھ سال پہلے مرکزی حکومت کے ذریعے ملک کے مکمل وہیکل رجسٹریشن ڈیٹابیس کی کاپی ایک نجی ہندوستانی کمپنی کو فروخت کی گئی تھی۔
یہ سودا پوری طرح سے عوامی طورپر ہوا تھا۔ سرکار نے وزارت کے عہدیداروں کی طرف سے‘پرائس ڈسکوری’ کے بحران کو لےکرتشویش کا اظہار کرنے باوجود اس سودے کو طول دیا۔ پرائس ڈسکوری کسی بھی اثاثے کو فروخت کرنے سے پہلے اس کی قیمت کو لےکرکیا جانے والا تخمینہ ہوتا ہے، اس معاملے میں جس کو لےکر نوکرشاہوں کی جانب سے ڈیٹا کو ارزاں قیمت میں فروخت کرنے کے لیے متنبہ کیا گیا۔
حکام کےذریعے اخذکیا گیا نتیجہ یہ تھا کہ یہ معاہدہ کسٹمر کے‘بہت زیادہ’حق میں ہے۔
آر ٹی آئی کے ذریعےحاصل کیے گئے سرکاری دستاویزوں کے مطابق، ستمبر 2014 میں ہوئے اس سودے، جہاں فاسٹ لین آٹوموٹو(ایف ایل اے) نام کی ایک آٹو ٹیک سالیوشنز کمپنی کو وہیکل رجسٹریشن ڈیٹا فروخت کیاگیا؛کو لےکر سرکاری عہدیداروں کی جانب سے اعتراضات درج کروائے گئے تھے۔
اس کے باوجود اس سودے کو ختم کرنے میں وزارت کو دو سال کاعرصہ لگا۔ آج کی تاریخ میں بھی ایف ایل اے کے پاس اس مشتبہ سودے کے تحت فروخت کیے گئے ڈیٹا کی کمرشیل ایکسیس(تجارتی رسائی )ہے، یعنی وہ اس کا تجارتی استعمال کر سکتے ہیں۔
مختصراًیہ ڈیٹا ملک میں مختلف ریاستوں کےمحکمہ ٹرانسپورٹ میں رجسٹرڈ موٹر وہیکلز کی فہرست ہے،جس میں ہو سکتا ہے کہ وہیکل مالک کےذاتی معلومات نہ شامل ہوں، لیکن سرکار کے داخلی دستاویز دکھاتے ہیں کہ اس معاہدہ پر دستخط ہونے سے مہینوں پہلے نیشنل انفارمیٹکس سینٹر (این آئی سی)نے نجی خریداروں کے ساتھ بلک یعنی تھوک میں ڈیٹا شیئر کرنے سے متعلق تحفظ اور پرائیویسی کے پہلو کو لےکرمتنبہ کیا تھا۔
سال 2014 کا یہ سودا، جس کے بارے میں اب سے پہلے کبھی بات نہیں ہوئی،ایف ایل اے کے لیے بےحد اہم ثابت ہوا۔ کمپنی نے ایک سال کے اندر اور اس کے بعد کئی کروڑ روپے کمائے، ساتھ ہی بعد میں وزارت کی طرف سے اس کو رد کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ڈیٹا تک ملی یہ ایکسیس(رسائی )ان کے فرم کے بزنس کی ضروریات کی‘بنیاد’ہے۔
اس وہیکل اور لائسنس ڈیٹابیس کی اہمیت ملک کے تیزی سے بڑھتے ہوئے آٹو سیکٹر تک گہری پہنچ رکھنے کے پیش نظر بڑھ جاتی ہے۔ شہریوں کے بارے میں موجود کچھ اور ڈیٹابیس اور اطلاعات کے ساتھ مل کر یہ ڈیٹا بینکروں، فنانس کمپنیوں، آٹوموبائل مینوفیکچررز، انشورنس کمپنیوں، مارکیٹنگ کمپنیوں جیسے کئی کو بزنس کا ایک بڑا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔
کسی اور دعویدار کا نہ ہونا
سال 2014 کا یہ معاہدہ، جس کے تحت ایف ایل اے کو ڈیٹا کی کاپی ملی، وہ اس لیے بھی عجیب ہے کہ وزارت کے ملازمین کے مسلسل یہ کہنے کے باوجود کہ وہ کسی اورکمپنی کے ساتھ فاسٹ لین جتنی قیمت پر ڈیٹا شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں، کوئی اور نجی دعویداریہاں نظر نہیں آتا۔
سال 2016 کی ایک سرکاری فائل دکھاتی ہے کہ ایک جوائنٹ سکریٹری نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ سرکار کو بلک ڈیٹا شیئرنگ کے لیے ایک اور درخواست موصول ہوئی تھی، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس درخواست کو آگے بڑھانے سے پہلے پرائس ڈسکوری کو لےکروزارت کی فنانس اکائی سے صلاح لی جانی چاہیے۔
فاسٹ لین نے اس ڈیٹا کے ساتھ کئی اضافی ڈیٹا سیٹ سے حاصل اطلاعات کو جوڑکر ہندوستان کے وہیکل رجسٹریشن ڈیٹا پر مبنی تکنیکی حل(ٹکنالوجیکل سالیوشنز)کےعالمی بازار میں خود کو ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر پیش کیا۔
حالانکہ معاہدہ میں اس طرح کی اجازت تھی، پھر بھی ڈیٹابیس کے اس طرح اکٹھا کیے جانے کو لےکر وزارت کے ملازمین نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے میں کئی سال لگا دیے، تب تک فاسٹ لین نے سستے میں ہوئے اس سودے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
یہ سودا کسی سرکاری ٹینڈریا بولی کے عمل کے تحت نہیں ہوا تھا بلکہ فاسٹ لین کی طرف سے بھیجی گئی ایک تجویز کی بنیاد پر اس کی شروعات ہوئی تھی۔ حالانکہ اس بارے میں اجازت دینے والے سرکاری دستاویز کہتے ہیں کہ اگر کوئی اور پرائیویٹ پارٹی اس میں دلچسپی لیتی ہے تو اس کے لیے بھی شرطیں یہی رہیں گی۔
ایف ایل اے نے ہندوستانی شہریوں کے اس ڈیٹا تک اپنی خصوصی رسائی کی بنیاد پر ٹکنالوجیکل سالیوشنز دینے والا ایک بزنس ماڈل اپنے کلائنٹس کے سامنے پیش کیا اور یہ بزنس چل نکلا۔
اس نے یہ جانکاری گھریلو خریداروں کے علاوہ غیرملکی خریدداروں کے ساتھ بھی شیئر کی۔ اس ڈیٹا کے ملنے کے ایک سال کے اندر کمپنی کا ٹرن اوور 163 گنا بڑھ گیا۔ (مالی سال2014-15 کے 2.25 لاکھ روپے سے یہ مالی سال 2015-16 میں 3.70 کروڑ روپے پر پہنچا۔)
پچھلے پانچ سال کے فنانشیل رٹرن کی چھان بین بتاتی ہے کہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر کمپنی کا ریونیو آج بھی بڑھ رہا ہے۔ حقیقت میں یہ اس پوری جانچی گئی مدت کے دوران 333 گنا ہو چکا ہے۔
آزاد ڈیٹامحقق شری نواس کوڈلی اور اس رپورٹر کے ذریعےآر ٹی آئی سے حاصل کیے گئے دستاویز دکھاتے ہیں کہ وزارت نے اس کمپنی کی ایک بار پھرطرفداری کی، جب اس کے ذریعےاین آئی سی اور وزارت کے اپنے عہدیداروں کے شدیداعتراضات کو درکنار کرتے ہوئے کمپنی کو بنا کسی قیمت کے ایک‘گریس پیریڈ’ یعنی اضافی مدت میں ڈیٹا کو ایکسیس کرنے کی اجازت دی گئی۔
یہ معاہدہ2019 میں حکومت کے ذریعے سرکاری بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی، جس نے خریداروں کے لیے بلک ڈیٹا پانے کا راستہ کھولا تھا؛کو لائے جانے سے پانچ سال پہلے ہوا تھا۔ 2019 میں لائی گئی یہ پالیسی زیادہ دن نہیں چلی اور 2020 کےوسط میں اس کو‘پرائیویسی سے متعلق خدشات’ کی وجہ سے واپس لے لیا گیا، حالانکہ فاسٹ لین کے پاس پھر بھی وہ ڈیٹا رہا، جو اسے دیا جا چکا تھا۔
سرکار نے ایف ایل اے سے یہ ڈیٹا ڈی لٹ (حذف)کرنے کے لیے نہیں کہا اور کمپنی، جو بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کے اپنا صارف ہونے کا دعویٰ کرتی ہے؛ کے پاس آج بھی یہ ڈیٹا سیٹ ہے۔ اس کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ ستمبر 2014 سے اس کے پاس ملک بھر کے اندراج(رجسٹرشن)کا ڈیٹا ہے۔
بتادیں کہ 11 فروری 2021 کو وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ سرکار نے نجی فرموں سے شیئرکیا ہوا ڈیٹا ڈی لٹ کروانے کے بارے میں غور نہیں کیا ہے۔
دی وائرکے ذریعےایف ایل اے کے سی ای او نرمل سنگھ سرنا سے فون پر رابطہ کیا گیا، ساتھ ہی تحریری سوالنامہ بھی بھیجا گیا۔ ان سوالوں کے مفصل جواب میں سرنا نے کمپنی کی جانب سے کوئی بھی غلط کام کیے جانے سے انکار کیا اور کہا، ‘کسی بھی وقت یا کسی پیمانے پر کوئی نامناسب کام نہیں کیا گیا۔’
سرناکی جانب سے اس رپورٹر سے ‘ایف ایل اے اور اس کے عہدیداروں کا نامناسب طریقے سے ہراساں کرنے سے باز آنے’ کو بھی کہا گیا۔ انہوں نے لکھا، ‘اگر اس جواب کے باوجود آپ ایف ایل اے کے خلاف تعصب سے کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ایف ایل اے ہتک عزت اور توہین کرنے کے سلسلے میں، جب ضرورت ہوگی، مناسب قانونی کارروائیوں کا سہارا لےگا۔’
دی وائر کے ذریعے اس سودے کے بارے میں اس رپورٹ اور اس کے اگلے حصےمیں کی گئی پڑتال کسی غیرقانونی امر کی جانب اشارہ نہیں کرتے ہیں۔ اس کے بجائے یہ ایک چھوٹی کمپنی کے ہاتھ لگے ایک فائدےمند سودے کی پرتیں کھولتی ہے، جس کے بارے میں اب تک کوئی بات ہی نہیں ہوئی اور جو تکنیکی پالیسیوں کو بنانے کے انتہائی پیچیدہ عمل کو دکھاتا ہے، جس میں ہندوستان کے شہریوں اور سرکار دونوں کے ہی لیے شدید خطرہ ہے۔
دی وائرکی جانب سےوزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کے دفتر،سکریٹری اور دیگرعہدیداروں کو بھی مفصل سوالنامہ بھیجا گیا ہے، گرچہ کئی بار یاد دہانی کے باوجود وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
کہانی کہاں سے شروع ہوئی
بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی کے ڈھنگ سے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جانے کی کہانی ہمیں مودی سرکار کے اس پہلے سودے کی طرف لے چلتی ہے، جہاں اس نے کسی کمپنی کو بلک ڈیٹا تک رسائی(ایکسیس) کی اجازت دی۔
قابل ذکر ہے کہ 25 اپریل 2014 کو منموہن سنگھ کی سربراہی والی یو پی اے سرکار کے آخری دنوں میں وزارت نے قانون لاگو کرنے والی ایجنسیوں اور انشورنس کمپنیوں کے ساتھ قومی رجسٹر کے ڈیٹا کو شیئرکرنے کے ایک منصوبہ کو منظوری دی۔
یہیں سے فاسٹ لین آٹومیٹو تصویر میں آئی، جو یونائیٹڈ کنگ ڈم(یو کے)واقع پیرنٹ کمپنی کی ہندستانی فرم ہے اور مالی سال2020 کی فائلنگ کے مطابق اس وقت جس کی 46 فیصدی غیر ملکی حصہ داری ہے۔ اس نے سرکار کے سامنے ایک پیش کش رکھی، جس میں اس نے ملک بھر کے وہیکل کا ڈیٹا خریدنے کی بات کہی۔
اس کے پس پردہ ایک ایسامعاہدہ تھا جو کمپنی نے یو کے کی سرکار کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اس میں دی گئی قیمتیں بھی برطانیہ حکومت کے ذریعےلی گئی فیس کی بنیاد پر ہی طے کی گئی تھیں۔
ہمارےبھیجے گئے سوالوں کے جواب میں اس طرح کے ڈیٹا کی اہمیت کو سمجھاتے ہوئے سرنا نے بتایا،‘آٹوموٹو سیکٹر کے سبھی بڑے اسٹیک ہولڈرس کو ان کے پروڈکشن، ڈیلر مینجمنٹ، ڈسٹری بیوشن اور سپلائی چین سے متعلق اچھی جانکاری والے، سائنسی اور ڈیٹا حامی فیصلوں،کاروباری منصوبوں اور حکمت عملی کے معیارات کے لیے اس طرح کے ‘گمنام’وہیکل سے متعلق ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے۔’
اس پر بحث کا مہینہ بھر ہی گزرا تھا کہ ملک میں سرکار بدل گئی اور بی جے پی اقتدار میں آئی۔ نئی انتظامیہ بھی تیزی سے آگے بڑھی۔ 20 جون 2014 کو سرکار نے خریداروں کے سامنے ایک کروڑ روپے سالانہ کی قیمت پر وہیکل اور سارتھی، ڈیٹابیس بیچنے کی تجویز رکھی۔
وہیکل ڈیٹا میں گاڑی کے رجسٹریشن سے متعلق جانکاری ہوتی ہے، جبکہ سارتھی ڈیٹا میں ڈرائیونگ لائسنس سے متعلق جانکاریاں ہوتی ہیں۔ سرکار کے ذریعے تب دی گئی یہ قیمت بعد میں لائی گئی بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی میں دی گئی قیمت تین کروڑ روپے کےمقابلے بےحد کم تھی۔
این آئی سی کو کیا نظرانداز
سال 2014 میں ہی وزارت ٹرانسپورٹ نے قانون اوروزارت انصاف سے اس کے، ایف ایل اے اور این آئی سی کے بیچ ایک سہ فریقی معاہدہ کیے جانے کی تجویز رکھی۔این آئی سی کارول یہاں ڈیٹا ٹرانسفر کرنے اور اس کے غیرمجازی استعمال کو روکنے کویقینی بنانے کا تھا۔ حالانکہ ریکارڈس دکھاتے ہیں کہ اس معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے وزارت کے ذریعے این آئی سی کو درکنار کر دیا گیا۔
وزارت اور محکمہ قانونی امورکے مابین ہوئی خط وکتابت دکھاتی ہے کہ اس طرح کا کوئی معاہدہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ 7 اگست 2014 تک معاہدہ کی تشخیص اور اس میں تبدیلیاں کرتے ہوئے منظوری بھی دے دی گئی۔
واضح ہوکہ 8 اگست 2014 کو ٹرانسپورٹ ونگ کے اس وقت کےجوائنٹ سکریٹری کے ذریعے لکھی فائل نوٹ کہتی ہے، ‘گمنام بلک ڈیٹا شیئر کرنے کے لیےدرخواست لینا، معاہدہ کرنا اور اجازت دینا شروع کیا جائے۔’اسی دن وزارت کو ایف ایل اے کی جانب سےمعاہدہ کرنے کو لےکردرخواست موصول ہوئی تھی۔
حالانکہ اس بیچ وزارت جلد ہی این آئی سی کی جانب سےدرج کروائے جا رہےاعتراضات سے تنگ آگئی۔ 15 ستمبر کو وزارت نے لکھا، ‘یہ پایا گیا ہے کہ کانٹریکٹ سے متعلق منظوری میں این آئی سی کی طرف سےکافی تاخیرکی جا رہی ہے۔’
وزارت نے ایف ایل اے کی اس بات کو قبول کیا کہ این آئی سی ایک ثالث ہے اور ڈیٹا وزارت ٹرانسپورٹ کی ملکیت ہے۔
تاہم کسی وجہ سے سے وزارت نے اس تجویز کو سائن کرنے سے پہلے اپنی فنانس ونگ ‘انٹیگریٹیڈ فنانس ڈویژن(آئی ایف ڈی)کو فارورڈ نہیں کیا۔
ڈیٹا سپلائی شروع ہو جانے کے مہینوں بعد جب ایسا کیا گیا تب اس کولےکر کئی وارننگ دی گئیں، جن پر طویل عرصے تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ عہدیداروں نے پرائس ڈسکوری کے بحران کو لےکرمتنبہ کیاتھا اور ایک جوائنٹ سکریٹری نے فائل میں لکھا بھی تھا کہ بلک ڈیٹا شیئرنگ کی ایک اوردرخواست بھی ہے، لیکن انہوں نے پہلے قیمت طے کرنے کے معقول عمل کو یقینی بنانے کی بات کہی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 19 ستمبر کو، ایف ایل اے کے ساتھ معاہدہ کرنے کے تین دن بعد، وزارت نے این آئی سی کو کانٹریکٹ پر دستخط کر ڈیٹا کی سپلائی دینے کو کہا کیونکہ ان کے (کمپنی)ذریعے اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں پیسہ جمع کروایا جا چکا تھا۔
‘پرائس ڈسکوری’
وہ افسران، جنہوں نے اس کانٹریکٹ کو پڑھا، یہ دیکھ کر الجھن میں پڑ گئے کہ وزارت نے فیس کے طورپر ایک کروڑ روپے کے اعدادوشمار کس طرح طے کیے۔ فائل نوٹنگس میں یہ سوال لگاتار نظر آتا ہے۔
دستاویز بتاتے ہیں کہ وزارت کا معاہدہ یو کے(برطانیہ) کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے سیمپل کانٹریکٹ پر مبنی تھا، جس میں ایک سال تک بلک ڈیٹا شیئر کرنے کے لیے90 ہزار پاؤنڈس (ویٹ کے ساتھ)کی فیس طے کی گئی تھی۔ 96 ہزار پاؤنڈس یعنی ہندوستانی روپے میں ایک کروڑ۔
اس بات کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے کہ ایف ایل اے کی پیرنٹ کمپنی کے ذریعےکیے گئے برٹش کانٹریکٹ کو ہندوستانی سرکار کے ذریعے‘کاپی پیسٹ’والےرویے کے ساتھ کیوں اپنایا گیا جبکہ یو کے کا آٹو سیکٹر اور وہیکلز کی تعدادہندوستان کے مقابلے کئی گنا (155 ملین یعنی 15 کروڑ پچاس لاکھ)کم ہے۔
چلیے، تھوڑی سی ریاضی کا استعمال کرتے ہیں۔ سال 2014 میں ہندوستان میں 191000000(انیس کروڑ دس لاکھ)رجسٹرڈ وہیکل تھے اور وزارت کے پاس صرف2011 سے 2014 کے بیچ رجسٹرڈ ہوئے 49000000 (چار کروڑ نوے لاکھ)وہیکلوں کی ہی ڈیجیٹل جانکاری موجود تھی۔ یعنی چار کروڑ نوے لاکھ وہیکلوں کی جانکاری ایک کروڑ روپے میں بیچی گئی یعنی ایک وہیکل کی جانکاری 20 پیسے میں فروخت ہوئی ۔ اگر سرکار نے اس وقت تمام وہیکل کی جانکاری کو ڈیجیٹلائزکر لیا ہوتا تو فروخت کی یہ قیمت پانچ پیسے فی وہیکل ہوتی۔اگر اس میں لائسنس کی تفصیلات بھی جوڑ دیں، تو یہ اور کم ہو جاتی۔
معاہدہ ہوئے ایک سال ہو چکا تھا اور تب آئی ایف ڈی سے پہلی بار مشورہ کیا گیا وہ بھی ایف ایل اے کو ‘گریس پیریڈ’ کی اجازت دینے کے لیے۔ آئی ایف ڈی نے اپنی ناراضگی کا اشارہ اس نوٹ میں دیا:
‘یہ مانا جاتا ہے کہ چونکہ پالیسی پہلے ہی تیار کی گئی ہے، اس لیے پرائیویسی کے حق اور ڈیٹا کے غلط استعمال جیسے مدعوں اور بازار میں ڈیٹا شیئر کرنے کے لیے ٹینڈر نکالنے کے امکانات پر غور کیا گیا ہوگا اورمجاز اتھارٹی کے ذریعےاس کومنظور کیا گیا ہوگا۔’
دریں اثنا23 مارچ 2016 کو ٹرانسپورٹ ونگ کے جوائنٹ سکریٹری ابھے داملے نے لکھا، ‘آئی ایف ڈی کی رائے لیے بنا ایک کروڑ روپے کی قیمت طے کی گئی۔ آگے یہ کانٹریکٹ وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویز کو اس فیس کو کنزیومر پرائس انڈیکس کے حساب سے ہی بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے یہ لگتا ہے کہ پرائس ڈسکوری کو لےکر کام نہیں کیا گیا۔ سرکار کو ہونے والے منافع کے مد نظر دیکھیں تو وہیکل/سارتھی، ڈیٹا سے وزارت کے ذریعے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کیا گیا ہے۔ کسٹمرکے ذریعے وزارت کے ساتھ کوئی رپورٹ شیئر نہیں کی گئی ہے۔’
داملےوزارت کی ڈیٹا شیئرنگ کے عمل کو ‘فائنل’کرنے کے مطالبے کا جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے آگے جوڑا، ‘کانٹریکٹ کو متوازن بنائے جانے کے لیے دوبارہ ڈرافٹ کیے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت مسودہ کسٹمر کے بہت زیادہ حق میں ہے۔’
افسر نے یہ بھی کہا، ‘بلک ڈیٹا شیئر کرنے سے متعلق ایک اوردرخواست بھی موصول ہوئی ہے۔ لیکن اس بارے میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں پہلے تو پرائس ڈسکوری کو لےکرآئی ایف ڈی کی صلاح لینی ہوگی۔’وہیکل ڈیٹابیس کی ایکسیس کے لیے کئی فرمز نے وزارت کو لکھا تھا۔
لیکن پرائس ڈسکوری ہی واحد مسئلہ نہیں تھا۔
کوڈلی کہتے ہیں،‘اگر آپ آر ٹی آئی کے ذریعےموصولہ وہیکلوں کے ڈیجیٹل کیے گئے ریکارڈس دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ مرکز کے ذریعے نجی کمپنیوں کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے سے پہلے ریاستوں سے پوچھا تک نہیں گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ ریاستوں کاسبجیکٹ ہے۔ وزارت کے پاس جو ڈیٹا ہے وہ مختلف ریاستوں کے آرٹی او سے اکٹھا کیا گیا تھا لیکن اس منصوبے کے لیے کسی صوبے سے اجازت نہیں لی گئی۔ ریاست اپنا ڈیٹاضابطےکے مطابق شیئر کرتے ہیں۔’
تیلگو دیشم کے رکن پارلیامنٹ کیسنانی شری نواس کی جانب سے ایوان میں یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہیکل اور سارتھی، ڈیٹابیس کو شیئر کرنے سے حاصل ہوئے فنڈ کو ریاستوں کے ساتھ بانٹا جائےگا،مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ایوان میں کہا، ‘نہیں، اسے ریاستوں کے ساتھ نہیں بانٹا گیا ہے۔’
گریس پیریڈ(اضافی مدت)
اگر اس معاہدہ میں قیمت سیر تھی، تو گریس پیریڈ سوا سیر تھا۔ اس کے تحت ایک خصوصی مدت کے لیے فرم کو مفت میں ڈیٹا ایکسیس کرنے کی سہولت ملی تھی۔
دستاویز دکھاتے ہیں کہ وزارت کے مختلف عہدیداروں اور این آئی سی نے کمپنی کو گریس پیریڈ دیے جانے کو لےکرتشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمپنی کے ذریعےیہ دعویٰ کرتے ہوئے اس کی مانگ کی گئی تھی کہ یہ 28 ریاستوں میں سے ایک آندھرا پردیش کا ڈیٹا نہ موجود ہونے کی وجہ سے وہ اس ڈیٹا کے تجارتی استعمال کافائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔
اس بارے میں جواب دیتے ہوئے سرنا نے کہا، ‘ایف ایل اے کے ساتھ کبھی اس طرح طرفداری بھرا رویہ نہیں اپنایا گیا جیسا آپ کے ذریعے دعویٰ کیا گیا ہے۔’
انہوں نے آگے کہا،‘معاہدہ کے سلسلے میں وزارت کے ذریعے ہوئے کچھ نان پرفارمینس(عدم کارکردگی)اور تاخیر کو لےکرایف ایل اے کے ذریعے دی گئی چھوٹ کے عوض میں یہ مدت دی گئی تھی۔ کمپنی اور وزارت کےمابین ہوئی خط وکتابت میں یہ بات مناسب طریقے سے درج ہے۔’
دی وائر نےآر ٹی آئی کے ذریعےموصولہ سرکاری دستاویزوں کے ساتھ ملے اس خط و کتابت کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ خط وکتابت سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی کے ذریعےوزارت سے ایک سال کی مدت کی شروعات 16 ستمبر 2014 کےبجائے 1 مئی 2015 سے کرنے کی گزارش کی گئی تھی، یعنی کہ اسی معاہدہ میں سات مہینے کے اضافی وقت کے لیے مفت بلک ڈیٹا کی سپلائی۔
وزارت میں موجود این آئی سی کےعہدیداروں کے ذریعےاضافی مدت دینے کو لےکر اعتراض کیا گیا تھا کیونکہ ڈیٹا سپلائی آندھرا پردیش کے تقسیم ہونےکی وجہ سے متاثر ہوئی تھی، جس کو ایک ‘غیر متوقع صورتحال’ بتایا گیا تھا۔ لیکن ایف ایل اے ضد پر اڑا رہا اور وزارت نے این آئی سی ملازمین کی بات کو نظر انداز کر دیا۔
ستمبر مہینے میں ہی جوائنٹ سکریٹری(ٹرانسپورٹ)نے لکھا، ‘چونکہ یہ اپنی طرح کا پہلا معاہدہ ہے اور وزارت سے کسی اور کمپنی کے ذریعے بلک ڈیٹا کے سلسلے میں رابطہ بھی نہیں کیا گیا ہے، ہم آپ کی درخواست قبول کر سکتے ہیں۔’
تب پہلی بار اس فائل کو گریس پیریڈ سے متعلق طریقے کو حتمی شکل دینے کے لیے آئی ایف ڈی کے پاس بھیجا گیا۔ اس وقت تک وزارت کے اندر اس سودے کو لےکر آواز اٹھنے لگی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 12 اکتوبر 2015کی وزارت کی فائل نوٹنگ میں محکمہ فنانس کے جوائنٹ سکریٹری اورمالیاتی مشیر نے یہ سوال اٹھایا کہ ‘بلک ڈیٹا شیئرنگ کے لیے اس خاص کمپنی کے انتخاب اور ایک کروڑ روپےفیس طے کرنے کی بنیاد کیا ہے۔’
افسر نے لکھا، ‘گریس پیریڈ کی اجازت دینا ڈیٹا کی نوعیت پرمنحصر کرتا ہے لیکن معاہدہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔’
دو نومبر 2015 کو موٹر وہیکل لیجس لیشن(ایم وی ایل)کی ڈپٹی سکریٹری آئرن چیرین نے کہا، ‘چونکہ این آئی سی کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے دن سے ڈیٹا سپلائی یقینی بنانی تھی اور رکاوٹ غیر متوقع صورتحال کی وجہ سے آئی، اس لیے ایف ایل اے کو گریس پیریڈ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔’
اسی دن جوائنٹ سکریٹری نیرج ورما نے لکھا، ‘گریس پیریڈ کی مانگ خارج کی جاتی ہے۔’
ان اعتراضات کے باوجود روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویز کے سکریٹری نے فائل پر لکھا، ‘اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے معاہدہ کے تحت کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا، اگر ہاں تو کس ڈیٹا کے ذریعے۔’اس کے کچھ دن بعد وزارت کے ذریعے کمپنی کو اس معاہدہ، جو 18 ستمبر 2015 کو ختم ہو گیا تھا؛ کے لیے 30 نومبر 2015 تک کا گریس پیریڈدیا گیا۔
این آئی سی کے خدشات کے بعد بند ہوئی ڈیٹا سپلائی
این آئی سی کی اس رائے سے کہ پرائیویسی اور سکیورٹی خدشات کے مد نظر بلک ڈیٹا شیئر نہیں کیا جانا چاہیے، فروری 2016 میں وزارت کے ذریعےفاسٹ لین کو ہو رہی ڈیٹا سپلائی کو روک دیا گیا۔کمپنی کے سی ای او نرمل سنگھ سرنانے تب ڈیٹا واپس شیئر کرنے کی گزارش کو لےکر وزارت کو کئی خط لکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت کی جانب سے ڈیٹا روک دینے سے کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
دی وائر کو کیے ای میل میں انہوں نے بتایا،‘دس سال کی سخت محنت اور زندگی بھر کا سرمایہ لگانے کے بعد ہم ایسی حالت میں تھے جہاں ہمارے پاس اپنے بزنس کی نیونیشنل رجسٹر کاگمنام وہیکل ڈیٹا ہی نہیں تھا جبکہ ہمارے پاس ستمبر 2014 میں وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویزکو ایک کروڑ روپے کی سالانہ فیس دےکر کیا ہوا معاہدہ بھی تھا۔ وہ معاہدہ جو ستمبر 2014 میں شروع ہوا تھا، فروری 2016 میں وزارت کی جانب سے بنا کسی وضاحت یا نوٹس کے ختم کر دیا گیا اور اس کے بعد سے انہوں نے ہمیں کوئی ڈیٹا جاری نہیں کیا۔’
سال 2018 میں کافی وقت تک وزارت کی جانب سےوہیکل رجسٹریشن ڈیٹا کوعوامی کرنے پر غور کیا گیا۔ اکتوبر مہینے میں اس پالیسی پر مبنی تجویز کو نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت کے ذریعے سرکار کے پاس موجود سارے ڈیٹا پر لاگو کرنے کے بارے میں سوچنے کی بات کہی گئی۔
یہ سال 2018 تھا فاسٹ لین کے ساتھ ہوئے قرار کے چار سال بعد وزارت نےاس بارے میں جانکاری پھیلانا شروع کی اور دیگر خریداروں کو مدعو کیا گیا۔
ایک افسرکی جانب سے جاری نوٹ میں کہا گیا،‘اگر کوئی نجی کمپنی یا ادارہ گمنام تھوک ڈیٹا لینا چاہتا ہے تو انہیں بھی یہ اسی قیمت اور شرطوں پر دیا جائےگا جیسا ایم/ایس فاسٹ لین کے معاملے میں ہوا تھا۔ اس بارے میں وزارت کی ویب سائٹ پر نوٹس اپ لوڈ کیا جائےگا۔’
جنوری 2019 میں وزارت نے بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی، جسے مارچ میں لاگو کیا جانا تھا، کو حتمی شکل دینے کے لیے بیٹھکیں کیں۔ 18 مارچ کو ایف ایل اے نے دوبارہ بلک ڈیٹا سپلائی کے لیے درخواست دی ۔ اس بار قیمت تین کروڑ روپے سالانہ تھی۔
تیس جولائی 2019 کو فنانس ونگ کے ذریعےوزارت سے قیمت کو لےکر پھر سوال کیے گئے۔ اس نے وزارت سے یہ بھی پوچھا کہ کیا اس نے پالیسی کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس کی رضامندی لی تھی۔ وزارت نے جواب دیا:
‘ایک ذیلی کمیٹی نے جامع کام کیا اور بلک ڈیٹا شیئرنگ کے لیے پالیسی کی پیش کش رکھی ہے۔ تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد اسے ایڈیشنل سکریٹری اور مالیاتی مشیر کی رضامندی کے لیے بھیجا گیا اور بعد میں اس کووزیر ٹرانسپورٹ ایند ہائی ویز کے ذریعے منظورکیا گیا۔’
اس کے تقریباً ایک سال کے بعد 4 جون 2020 کو وزارت کی جانب سے بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی پر کام کرنا بند کر دیا گیا۔ پالیسی کو رد کرنے کی سرکاری وجہ‘ڈیٹا پرائیویسی سے متعلق خدشات‘کو بتایا گیا۔سرنا کا یہی کہنا ہے کہ سرکار نے ان کی کمپنی پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ اور سرکار خاموش بنی ہوئی ہے۔
(مضمون نگاررپورٹرز کلیکٹو کےرکن ہیں۔)