پچھلے سال کورونا وائرس کی وجہ سےگجرات کے اسپتالوں کے باہر نفسانفسی کا عالم تھا، اس کی خبریں ملک کو کم پتہ چلیں۔ اس سال بھی وہی عالم ہے۔ جس صوبے کی عوام نے نریندر مودی کو اتنا پیار کیا وہ تڑپ رہی ہے اور وزیر اعظم بنگال میں گجرات ماڈل بیچ رہے ہیں۔
گجرات ماڈل کا پروپیگنڈہ ملک بھرمیں ایسا پھیلایا گیا کہ آج لوگ گجرات سے زیادہ گجرات ماڈل کے بارے میں جانتے ہیں۔ وکاس کا ایک دوسرا جھوٹا نام گجرات ماڈل بھی ہے۔ گجرات کے لوگ بھی گجرات ماڈل کے جھانسے میں رہے ہیں۔
پچھلے سال بھی اور اس سال بھی جب وہاں کے لوگ اسپتالوں کے باہر دردر بھٹک رہے ہیں، تب انہیں وہ گجرات ماڈل دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنی جھنجھلاہٹ اور پریشانی کے بیچ وہ گجرات ماڈل پر طنز کرنا نہیں بھولتے ہیں۔
جھوٹ کے اتنے لمبے دور میں رہنے کے بعد آسان نہیں ہوتا ہے اس سے باہر آنا۔ کیونکہ صرف جھوٹ ہی نہیں ہے،فرقہ واریت کے ذریعے اتنا زہر بھرا گیا ہے کہ کسی بھی نارمل انسان کے لیے اس سے باہر آناممکن نہیں ہوگا۔
پچھلے سال گجرات کے اسپتالوں کے باہر (کورونا وائرس کی وجہ سے)جونفسا نفسی کا عالم تھا، اس کی خبریں ملک کو کم پتہ چلیں۔ اس سال بھی وہی عالم ہے۔ جس صوبے کی عوام نے نریندر مودی کو اتنا پیار کیا اس صوبے کی عوام تڑپ رہی ہے اور وزیر اعظم بنگال میں گجرات ماڈل بیچ رہے ہیں۔
وہاں کے اسپتالوں سے ایک سال سے اسی طرح کی خبریں آ رہی ہیں مگر لوگوں کو سدھار کے نام پر ہنگامہ اورچیخ و پکار مل رہی ہے۔جی ایم ای آرایس گاندھی نگر سول اسپتال میں 52 سال کے اشون امرت لال کنوجیا بھرتی ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے۔ اہل خانہ نے اسپتال میں کافی تلاش کیا، لیکن جب نہیں ملے تو پولیس کے پاس معاملہ درج کرایا۔
اس کے بعد اسٹاف، پولیس اور اہل خانہ نے اسپتال میں ڈھونڈنا شروع کیا۔ آخر میں اشون بھائی چوتھی منزل کے باتھ روم میں مرے پائے گئے۔ ان کی لاش سے بدبو آ رہی تھی۔آپ تصور کیجیے کہ اسپتال کے ایک باتھ روم میں ایک لاش رکھی ہے۔ کسی کو پتہ تک نہیں چلتا ہے۔ اسپتال میں اتنے باتھ روم تو ہوتے نہیں۔ ایک باتھ روم ایک گھنٹے بند رہ جائے تو وہاں بھیڑ لگ جائے۔
احمدآباد مرر کی ایک اور خبر ہے۔ شہر کے ایک بڑے سرکاری اسپتال جی ایم ای آرایس سولہ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں اسٹاف نہیں ہے۔ یہ اسپتال چھ نرسوں کے بھروسے چل رہا ہے۔ اس کے چار آئی سی یو وارڈ میں 64 بستر ہیں۔ آدھے بھر گئے ہیں۔
ایک نرس کے ذمہ چھ سے سات مریض کی دیکھ بھال ہے۔ کسی مریض کو آکسیجن سلینڈر پر رکھنا ہے تو کسی کا آکسیجن سلینڈر ہٹا کر وینٹی لیٹر پر رکھنا ہے تو کسی کو وینٹی لیٹر سے آئی سی یو پر۔ ظاہر ہے نرسوں پر کام کا دباؤ زیادہ ہوگا۔ یہ سارے کام سیکنڈ سیکنڈ کی نگرانی مانگتے ہیں۔ ذرا سی دیری کا مطلب جان کا خطرہ ۔
قاعدے سے ایک مریض پر ایک نرس ہونی چاہیے، لیکن چھ مریض پر ایک نرس ہے۔ کووڈ کے ایک سال ہو گئے۔ اتنا بھی انتظام نہیں ہو پایا، لیکن وکاس کو لےکر نریندر مودی اور امت شاہ ایسے دعوے کریں گے جیسے چاند دھرتی پر اتار دیا ہو۔
بھاونگر کے ایک اسپتال کا ویڈیو آپ نے دیکھا ہی ہوگا۔ کورونا کے مریض فرش پر پڑے ہیں۔ اسٹریچر پر ہی علاج ہو رہا ہے۔ جو وہیل چیئر پر آیا ہے اسی پر علاج ہو رہا ہے۔ یہ رپورٹ پرائم ٹائم پر بھی چلی۔پرکاش بھائی پٹیل کے بیٹے بتا رہے تھے کہ پتا جی سے ایک رات پہلے فون پر بات کی تھی۔ اگلی صبح فون کیا تو موبائل سوئچ آف تھا۔ پھر اچانک اسپتال سے فون آیا کہ پتاجی کی موت ہو چکی ہے۔
ڈالی پٹیل نے بتایا کہ ان کی معذور رشتہ دار کو بھرتی کیا گیا تھا۔ جب آرٹی پی سی آر نگیٹو آیا، تب ان کا ٹرانسفر دوسرے وارڈ میں کر دیا گیا۔ وہاں پینے کا پانی تک نہیں ملا۔ مدد کرنے کے لیے اسٹاف نہیں تھا۔ خود چل نہیں پاتی تھیں، اس لیے گر گئیں۔ ہمیں بھی جانے نہیں دیا۔ اسے دیکھنے کے بعد ایک ناظر نے اپناردعمل بھیجا۔
‘یہ ہے گجرات ماڈل’وہاٹس ایپ کے ان باکس میں یہی دکھ رہا تھا۔ جب اندر گیا تو دکھوں کا انبار ملا۔ میسیج بھیجنے والے نے اپنے پھوپھاجی کا حال بتایا تھا۔ ان کے پھوپھا جی کسی اور بیماری کے علاج کے لیے بھرتی ہوئے تھے؛ کو علاج کے دوران بتایا گیا کہ کورونا ہے۔ ذہنی کشیدگی جھیل نہیں پائے۔ دل کا دورہ پڑ گیا۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسپتال نے لاش نہیں دی۔ کہا کہ کورونا کی وجہ سےآخری رسومات کی ادائیگی اسپتال کی طرف سے کی جائےگی۔ جب فون آئےگا تب شمشان سے استھیاں لے لیجیے گا۔ گھر کے لوگ استھیاں بہا آئے۔
دو دن بعد کسی رشتہ دار نے اسی اسپتال میں ان کی لاش دیکھ لی۔ ان کی لاش ایک بند کمرے کے فرش پر پڑی تھی۔ جب پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا کہ کووڈ سے موت ہی نہیں ہوئی تھی۔
گجرات کے اخبار اور چینل ایسی خبروں سے بھرے ہیں۔ گجراتی زبان میں کافی کچھ چھپ رہا ہے۔ گجرات میں بھی گودی میڈیا ہے، لیکن پھر بھی وہاں کے کئی پترکار جوکھم اٹھا رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ جو ہو رہا ہے اسے چھاپ رہے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔
نیشنل میڈیا میں آپ کو وہاں سے کم خبریں دکھیں گی۔ وجہ آپ جانتے ہیں۔ انگریزی میں یہ سب کم چھپتا ہے۔ گجرات سے لے دےکر ایک ہی اخبار ہے احمدآباد مرر، جس میں دو چار خبریں ہی ہوتی ہیں۔تو پوری جانکاری نہ ریاست کے لوگوں کو ملتی ہے اور نہ ریاست سے باہر کے لوگوں کو جنہیں یہ غلط فہمی ہے کہ گجرات کی عوام کسی گجرات ماڈل میں جی رہی ہے۔
ایک سال پہلے جب گجرات کے اسپتالوں کے اندر اور باہرکی آہ وفغاں والی خبریں چھپنے لگی تھیں تب بھی لیپا پوتی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ اگر بندوبست کیا گیا ہوتا تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔جب پتہ ہی ہے کہ ووٹ مذہب کے نام پر پھیلے زہر کے نام پر پڑنا ہے تو اسپتال کو ٹھیک کرنے کی محنت کوئی کیوں کرے۔ دن بھر فرقہ وارانہ بیان بازی کرو۔ میسیج پھیلاؤ۔ ڈبیٹ کراؤ۔ اور لوگوں کو چھوڑ دو اسپتال کے باہر مرنے کے لیے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پرشائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر