دو تین سال کے تھے جب کسی بیماری میں ان کی آنکھیں چلی گئیں۔پی ایچ ڈی میں انھوں نے ہندوستان اور افریقی مملک میں نابینا افراد کے حالات، مسائل اور حکومتی سہولیات اور قانونی تحفظات وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کیا تھا۔ اس تحقیق نے انھیں ہندوستان میں نابینا افراد کی محرومیوں اور مسائل کا ماہر محقق بنا دیا اور بعد میں اپنی زندگی کا ایک حصہ انھوں نے نابینا افراد کو حقوق دلوانے اور قانون بنوانے کی جدوجہد میں صرف کیا۔
کامریڈ رمیش کمار سرین کا جیون ایک لمبا سنگھرش تھا۔ دو تین سال کے تھے جب کسی بیماری میں ان کی آنکھیں چلی گئیں۔لیکن بڑے ہوتے ہوتےاس محرومی سے وہ ٹوٹے بکھرے نہیں۔ زندگی کے چیلنجز کو مات دینے اور وقار کے ساتھ جینے کی ایک شدید لگن ان میں پیدا ہو گئی اور انصاف کے لیے لڑنے کو انھوں نے اپنا مقصد بنا لیا۔
ان کے تصورِ حیات کا سرچشمہ راسخ سوشلزم اور خالص حقیقت پسندی تھی۔ وہ کسی زمیندار گھرانے میں جنمے حساس قسم کے بیدار مغز نونہال نہیں تھے جو سماج کو بدلنے کے لیے خود کو قربان کرنے کا رومانی تصور رکھتے ہوں۔ انھیں گزارے کے لیے روزی بھی کمانی تھی اور سماج کے محروم طبقوں، خصوصاً نابینا افراد کے حقوق کے لیے کام کرنا تھا اور قوانین کو بہتر بنوانے کی جدوجہد بھی کرنی تھی۔
کامریڈ رمیش سرین کو میں نے جب پہلی بار دیکھا تو وہ کسی کانفرنس کے سیشنز کی روداد لکھ رہے تھے۔ یہ 1998-99 کی بات رہی ہوگی۔ کانفرنس روم کے ایک کونے میں ٹائپ رائٹر لیے یکسو بیٹھے تھے اور ان کی انگلیاں تیزی سے کام کر رہی تھیں۔ پہلی بار دیکھنے والا ان کی مہارت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
بعد میں تعارف ہوا کہ کامریڈ سرین جے این یو میں1980-81میں سیاسیات کے طالب علم رہے تھے۔ کانفرنسوں کی رودادیں لکھنا ان کا شوق نہیں، روزی کا ایک ذریعہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں کنفیوزن کا شکار ہو گئی تھی کہ اس طرح کے کام کو روزی بنانے والے کو نابینا کیوں کر سمجھوں۔ ہو سکتا ہے بینائی کم ہو۔ ان میں خود اعتمادی اور لہجے میں جو قطعیت تھی وہ ان کی محرومی پر پردہ ڈالتی تھی۔
دوسری بار ان سے ملاقات غالباً 2010کے آس پاس ہوئی جب وہ دہلی یونیورسٹی کے ستیہ وتی کالج میں لکچرر ہوئے۔ تب غالباً پچپن چھپن سال کی عمر رہی ہوگی۔ انڈین ایئر لائنز کی کسی معمولی ملازمت سےسبکدوش ہونے کے بعد انھیں تدریس کا یہ موقع ملا تھا جس کے وہ بجا طور پر بہت پہلے سے حقدار تھے۔
کامریڈ علی جاوید نے ان کی اس کامیابی کی اطلاع نہایت خوش ہوتے ہوئے دی تھی، اور انھیں ڈپارٹمنٹ لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں کیوں کہ کامریڈ سرین کمیونسٹ پارٹی کی ٹیچرز برانچ کی بیٹھکوں میں پابندی سے آتے تھے۔ یہاں انھیں زیادہ قریب سے جاننے کا موقع ملا۔
پی ایچ ڈی میں انھوں نے ہندوستان اور افریقی مملک میں نابینا افراد کے حالات، مسائل اور حکومتی سہولیات اور قانونی تحفظات وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کیا تھا اور اپنی تحقیق کے سلسلے میں افریقہ کے کئی ملکوں کا سفر کیا تھا۔ اس تحقیق نے انھیں ہندوستان میں نابینا افراد کی محرومیوں اور مسائل کا ماہر محقق بنا دیا اور بعد میں اپنی زندگی کا ایک حصہ انھوں نے نابینا افراد کو حقوق دلوانے اور قانون بنوانے کی جدوجہد میں صرف کیا۔
ایک زمانے میں پنجاب کے ایک طویل پیدل سفر پر بھی نکلے اور گاؤں گاؤں گھوم کر لوگوں میں بیداری پھیلانے کا کام کیا کہ لوگ مختلف بیماریوں سے اندھا ہونے سے اپنے بچوں کو کس طرح بچا سکتے ہیں۔
کالج میں پڑھانے کا موقع انھیں بے شک تھوڑے ہی عرصے کے لیے ملا لیکن اس میں بھی انھوں نے پسماندہ اور محروم طبقوں سے آنے والے طالب علموں کے لیے ہندی میں نصابی کتابیں تیار کرنے کا کام کیا۔ ان کا ارادوہ تھا کہ ریٹائڑ ہونے کے بعد وہ بقیہ زندگی طلبہ کے لیے کتابیں لکھنے کا ہی کام کریں گے۔ ان کے منصوبے میں ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کرنا بھی تھا۔ ’رکتم پرکاشن‘سے شاید کوئی کتاب شائع بھی کی ہو۔
سنہ 2013 میں کامریڈ سرین نے دہلی یونیورسٹی کی اکادمک کاؤنسل کی رکنیت کے لیے الیکشن لڑا تو ان کی الیکشن مہم کے دوران ووٹ مانگنے کے لیے کئی ہفتوں تک یونیورسٹی کے مختلف کالجوں اور شعبوں میں جانا ہوا۔ کیمپین کے لیے ہماری ٹیم کی سربراہی کامریڈ دِنیش وارشنے کرتے تھے جو ساؤتھ کیمپس کے موتی لال نہرو کالج میں تاریخ کے استاد ہیں۔
روزانہ کے کیمپین کی منصوبہ سازی وہی کرتے تھے، امیدوار یعنی کامریڈ سرین کے ساتھ خود ہر روز مہم پر نکلتے تھے۔ دوسرے ساتھیوں میں کامریڈ سداشیو اور کامریڈ علی جاوید حسب ضرورت وقت نکالتے تھے۔ میں تقریباً روزانہ جاتی تھی، اور ہمارا کام ہر روز پانچ سات کالجوں میں جاکر مختلف شعبوں کے اساتذہ سے ملنا اور اپنا موقف رکھتے ہوئے ان سے ووٹ کی درخواست کرنا ہوتا تھا۔ ان مہموں میں جو وقت ساتھ گزارا اس میں کامریڈ سرین کے مزاج کو سمجھنے کا بہتر موقع ملا۔
الیکشن مہم کے زمانے میں ہی لنچ کے وقت یا شام کو چائے پیتے وقت یا کیمپس کو واپسی کے سفر میں ان کی زندگی اور نظریات پر اکثر باتیں ہوتیں تھیں۔ وہ نہایت اصول پسند، خوددار، صاف گو اور سفاکی کی حد تک حقیقت پسند انسان تھے لیکن ساتھ ہی کشادہ دل، دردمند اور حساس بھی۔
بہت کم عمر تھے جب وہ اس نیتجے پر پہنچ گئے تھے کہ بھگوان یا خدا کا کوئی وجود نہیں ہے، اور زندگی میں جو کچھ کرنا ہے وہ اپنی عقل و دانش اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر کرنا ہے۔ یہ بھی ان کے ذہن میں نوجوانی سے ہی واضح تھا کہ صرف اپنے لیے جینا انسان کا کام نہیں، اس کا کام معاشرے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کا رخ بھی اسی مقصد کی طرف موڑ لیا تھا، اور ان کی تحقیق ان کی سماجی ذمہ داری کا حصہ بن گئی تھی۔
الیکشن مہم کے دوران ایک دن دوپہر کا کھانا کامریڈ سرین کے گھر کھایا اور ان کی بیوی اندو سے ملاقات ہوئی۔ اندو بڑی زندہ دل اور محبت کے ساتھ خوب باتیں کرنے والی عورت ہیں اور کسی بینک میں نوکری کرتی ہیں۔ ان سے مل کر میں حیران ہوئی کیوں کہ وہ بھی کاملاً نابینا ہیں۔
بعد میں مجھ سے کامریڈ سرین سے یہ ذاتی سوال کیے بنا نہ رہا گیا کہ انھوں نے اپنی ہی جیسی نابینا لڑکی سے شادی کیوں کی، اس سے تو زندگی اور بھی مشکل ہو گئی ہوگی۔ انھوں نے بتایا کہ شروع سے ہی وہ طے کر چکے تھے کہ کسی آنکھوں والی لڑکی سے شادی نہیں کریں گے کیوں کہ ایسی شادی کو وہ برابری کا رشتہ نہیں بلکہ ہمدردی یا ترحم کا رشتہ سمجھتے تھے۔ وہ یہ بوجھ نہ تو خود برداشت کر سکتے تھے اور نہ ہی اس عورت پر خود بوجھ بننا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ اندو سے شادی کرکے خوش تھے۔
میں کامریڈ سرین سے کوئی بھی ایسا سوال کرنے میں جھجکتی تھی جس سے ان کی معذوری کی طرف کوئی اشارہ ہو۔ لیکن جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس سلسلے میں انھیں اپنا موقف رکھنے میں کوئی جھجک نہیں ہے۔ انھوں نے خود ہی بتایا تھا کہ کوئی ان پر خصوصی توجہ دے، یا ہمدردی جتائے تو انھیں یہ بالکل پسند نہیں آتا کیونکہ وہ خود کو کسی بھی نارمل انسان سے کمتر نہیں سمجھتے۔ ایک بارکسی نے یہ کہتے ہوئے ہمدردی جتائی تھی کہ آنکھیں نہ ہونا ان کے لیے کتنی بڑی اذیت اور معذوری ہے۔
کامریڈ سرین نے انھیں نے فوراً جواب دیا کہ اس کے برعکس وہ آنکھیں نہ ہونے کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں کیوں کہ آنکھوں والوں کی توجہ مختلف نظاروں کے سبب منتشر ہو سکتی ہے لیکن ان کا ذہن کبھی بھٹکاو کا شکار نہیں ہوتا۔
کامریڈ علی جاوید جے این یو میں اپنے طالب علمی کے زمانے کے جو قصے سناتے ہیں ان میں ایک واقعہ کامریڈ سرین سے متعلق بھی ہے۔ وہ یہ کہ 1980میں وزیر اعظم اندرا گاندھی پہلی بار جے این یو آئی تھیں۔ ایمرجنسی کے بعد کا زمانہ تھا اور ان کی پالیسیوں پر سوال کرنے والے پرجوش نوجوانوں کی کمی نہیں تھی۔ ان کی آمد کی مخالفت بھی ہوئی تھی۔
بہرحال مسز گاندھی کی تقریر جاری تھی کہ کامریڈ سرین اور ایک اور نابینا کامریڈ، ڈاکٹر بلدیو شرما نے مسز گاندھی کو ٹوک دیا اور پوچھا کہ وہ یہ بتائیں کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نابینا لوگوں کا خاصا بڑا گروہ ہے، ان کے لیے ان کی حکومت نے اب تک کیا کیا ہے؟ مسز گاندھی کا ایک رعب اور دبدبہ تھا جس کی وجہ سے ان سے سوال کرنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے تھا۔ پولیس فوراً ہی حرکت میں آ گئی اور کامریڈ سرین اور بلدیو کو گھسیٹتی ہوئی پنڈال سے باہر لے گئی۔
کامریڈ سرین2019 میں رٹائر ہوئے اور اس کے بعد ان سے غالباً ایک دو بار ہی ملاقات ہوسکی۔ لیکن وہ کبھی کبھی فون پر، کبھی ٹیکسٹ میسج یا ای میل کے ذریعے رابطے میں رہتے تھے۔ خاص طور سے ویمنز ڈے پر، مارکس، لینن یا بھگت سنگھ کی سالگرہ یا برسی وغیرہ پر کوئی عمدہ سا امید افزا پیغام ضرور بھیجتے یا چند لائنوں کی کوئی نظم۔
ہمارا تعلق سیاسی اور نظریاتی برادری کا تھا، اس لیے بلا وجہ فون کبھی نہیں کرتے تھے۔ 20 اپریل 2021 کو ان کا فون آیا۔ خیریت لینے کے بعد میں نے حسب معمول سوالیہ لہجہ اختیار کر لیا، اس توقع میں کہ اب وہ فون کرنے کا مقصد بیان کریں گے۔ انھوں نے فوراً جواب دیا کہ بس یوں ہی خیریت کے لیے فون کیا تھا۔ میں نے کہا، ہاں میں ٹھیک ہوں، آپ تو ٹھیک ہیں نا۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ ٹھیک ہوں اور فون کاٹ دیا۔ مجھے تھوڑا سا عجیب لگا کہ یوں ہی فون کیا تھا تو بات تو کرتے، لیکن پھر میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی اور بھول گئی۔
ایک بار بھی میرے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ وہ شاید کسی پریشانی میں ہوں یا بیمار ہوں۔ 24 اپریل کو جب کامریڈ سداشیو نے فون پر خبر دی کہ کورونا کے سبب کل یعنی 23 اپریل کو ان کا انتقال ہو گیا تو میں دم بخود رہ گئی، اور دل میں ایک خلش سی پڑ گئی کہ کاش وہ کچھ بتاتے۔ یہی کہتے وہ اپنی بیماری کے سبب الوداعی فون کر رہے ہیں۔ کاش کسی سے کوئی مدد مانگتے۔
لیکن پھر خیال آیا کہ وہ کامریڈ سرین تھے۔ کسی دوسرے کے لیے کام بے شک بتادیں، ذاتی کام کے لیے کسی کو زحمت نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے کامریڈوں کو کبھی امتحان میں نہیں ڈالا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ کامریڈ کس قدر بے مصرف مخلوق ہیں۔ اپنی موت میں بھی انھوں نے اپنے ساتھیوں کو اس شرمندگی سے بچا لیا کہ وہ ان کی کوئی مدد نہ کر سکے۔
گزشتہ22 اپریل کی صبح انھوں نے ای میل بھیجا تھا جس کے ساتھ ان کی کوئی نظم منسلک تھی۔ یہ نظم میں نے کئی دن کے بعد پڑھی، کیونکہ موبائل پر فائل کھل نہیں سکی تھی۔ یہ نظم انھوں نے رام نومی کے موقع پر کہی تھی، اپنی موت سے ایک دن پہلے۔ ان کے دیے ہوئے اس آخری تحفے کو یہاں آپ سب کی نذر کرتی ہوں۔
’کرشن کی انگلی کیوں نہ گلی‘ اس نظم کا عنوان ہے۔ ہندو دیومالا کے بعض حوالے میرے لیے سمجھنا مشکل تھے، اس لیے نظم کو سمجھنے کے لیے تھوڑی سی ریسرچ بھی کر ڈالی۔ اس کا مرکزی حوالہ کچھ یوں ہے:
مہابھارت کی جنگ کا ایک واقعہ ہے۔ اس جنگ میں کورووں اور پانڈووں کے گرو، دروناچاریہ کورووں کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ جب تک تیر کمان ان کے ہاتھ میں تھا، انہیں کوئی نہیں مار سکتا تھا؛ ایسے میں کرشن کو یقین تھا کہ دروناچاریہ سارے پانڈووں کو مار ڈالیں گے۔
اس لیے انہوں نے پانڈووں سے کہا کہ تم لوگ ان سے جھوٹ بولو کہ ان کا بیٹا اشوتھاما مارا گیا۔ بیٹے کے دکھ میں وہ ہتھیار رکھ دیں گے اور تب انہیں مار کر جنگ جیت لی جائے گی۔ کرشن کا کہنا تھا کہ جنگ میں جھوٹ بولنا یا دھوکا دینا جائز ہے۔ اس کام کی ذمہ داری یدھشٹر کو دی گئی، جو سچ بولنے کے لیے مشہور تھے۔
جب افواہ پھیل گئی تو دروناچاریہ نے یدھشٹرسے خبر کی تصدیق چاہی، کیونکہ ان کی صداقت پر کوئی شک نہیں کرتا تھا۔ یدھشٹر نے کہا: اشوتھاما مارا گیا، لیکن انسان نہیں، ہاتھی۔ (نرو وا کنجرو)۔ یدھشٹر نے جملے کا دوسرا حصہ دھیرے سے کہا اور اسی وقت کرشن نے زور سے شنکھ بجا دیا جس کی اونچی آواز میں دروناچاریہ یدھشٹر کی آدھی ہی بات سن سکے اور بیٹے کو مقتول سمجھ کر انہوں نے ہتھیار رکھ دیے، اور سوگ میں ڈوب گئے۔ اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا۔
مہابھارت کی جنگ میں دھوکے اور جھوٹ پر مبنی یہ جنگی تدبیر شری کرشن نے رچی تھی، جسے یدھشٹر نے عملی جامہ پہنایا۔ جھوٹ بولنے اور فریب کے جرم میں بعد میں یدھشٹر کو کچھ وقت کے لیے نرک میں بھیجا گیا۔ کہانی کے اس انجام پر کچھ بنیادی سوال کامریڈ رمیش سرین نے اپنی درج ذیل نظم میں اٹھائے ہیں۔
کرشن کی انگلی کیوں نہ گلی
پتہ چلا میں مر چکا ہوں،، دنیاے فانی سے تر چکا ہوں،
لے جایا گیا دھرمراج کے پاس مجھے، میرا نمٹارا کرانے
چمک میرے چہرے کی اس کے ترازو کو بےقابو ہلا رہی تھی۔
اچانک کسی نے کہا، اس چمک کا جواب دو
نہیں تو
یہ ترازو ایسے ہی ڈولتا رہے گا۔
دھرمراج چونکے،
ایسا کون آ گیا
جو میرا ترازو ہلا رہا ہے؟
فیصلے سے پہلے مجھے کچھ سنا رہا ہے۔
ہوتا تو ایسا نہیں ہے،
پھر بھی پوچھ لیتے ہیں،
اس کے اندر کی پیاس کا
جواب دے، بجھا دیتے ہیں۔
میں نے کہا، دھرمراج! یہ کیسی دھتا ہے؟
کرشن کی انگلی کیوں نہیں گلی، ذرا مجھے تو سمجھاؤ!
ہماری مرضی، لگا دو عرضی،
جب سمے ملے گا تو
ڈھونڑھ کر بتا دیں گے۔
تم تو خبیروبصیر ہو، انصاف پسند ہو،
پھر بھی اتنی دیر کیوں؟
کیا نیائے کرنے سے پہلے کچھ حساب کتاب کرنا ہے—
تاکہ گڑھےگڑھائے جواب دے سکو۔
وہ تو سب کچھ جاننے والے تھے،
کچھ غلط نہیں کر سکتے تھے تو
انہیں سزا کیوں؟
لگتا ہے یہاں
’سمرتھ کو نہیں دوش گوسائیں‘
(صاحبِ حیثیت کا جرم جرم نہیں ہوتا)
کا دھندھا چلتا ہے،
لیکن—
یدھشٹر کو غلطی کا پھل بھوگنا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں بہت نیائے پریہ ہو تم اور تمہارے یہ دکھاوے۔
جو کہانی کو صحیح ٹھہرانے کی سمت میں
ہو جاتے ہیں سحرزدہ
سنا ہے یہ کہانیاں ہیں استعارے،
نام نہاد حقیقت بتانے کے عکاس ہیں یہ۔
بتاتے بتاتے
یہاں تک ثابت کر دیتے ہیں کہ
آنسوؤں سے پیر دھوئے جا سکتے ہیں۔
کویتا میں تو چلے گا مگر
جب عام آدمی اسے حقیقت سمجھ لے تو
وہ حقیقت اسے چھلے گی۔
کیا ہے یہ اتہاس جہاں
چھل کپٹ، بے اصولا بیوہار
کرنے والا کرشن
دھوکے سے مارے جانے کے بعد
سیدھا پرلوک سدھارتا ہے اور
اسی کے آدیش پر
’نرو وا کنجرو‘ کہنے والے یدھشٹر کی
انگلی گل جاتی ہے!
چاول کا ایک دانہ ہی بتاتا ہے کہ
کہ وہ کچا ہے یا پکّا،
محض ٹسوے بہوانے کے لیے لکھا گیا گرنتھ،
کہاں تک ہے سچا؟
(ارجمند آرا معروف ادیب اور محقق ہیں، وہ دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر