مودی حکومت کی جانب سے سینٹرل سول سروسز (پنشن)رولز، 1972 میں کی گئی ترمیم کے بعد اب سبکدوش سیکیورٹی افسران کو اپنے سابقہ ادارےکے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے پہلے حکومت کی اجازت لینی ہوگی۔ اس کی خلاف ورزی ان کے پنشن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ریٹائرڈسیکیورٹی اور انٹلی جنس افسروں کو موجودہ پالیسیوں سےمتعلق امورپر تنقیدی تبصرہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش میں نریندر مودی حکومت نے سینٹرل سول سروسز (پنشن)رولز، 1972 میں ایک ترمیم کی نوٹیفیکیشن جاری کرکے سبکدوش افسران کوپیشگی اجازت کے بغیرکسی ایسےموضوع پر میڈیا میں کوئی تبصرہ کرنے، کوئی خط یا کتاب یا کوئی دستاویزشائع کرانے پر پابندی لگا دی ہے، جو کسی ایسے ادارے کے ‘دائرے’(ڈومین) میں آتا ہے،جس میں انہوں نے کام کیا ہو۔
اس ترمیم کوضابطہ8 میں شامل کیا گیا ہے جو کہ‘مستقبل کے اچھے اخلاق کی بنیاد پر پنشن’سے متعلق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نئے گائیڈ لائن کی کوئی بھی خلاف ورزی سبکدوش افسر کے پنشن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
پنشن رولزمیں2008کی ترمیم نے صرف آفیشیل سیکریٹ ایکٹ اور جنرل کرائم قانون کے تحت پابندیوں کو واضح کرتے ہوئے سبکدوش افسران کےحساس مسائل پر لکھنے پر؛ جو ہندوستان کی خودمختاریت اور سالمیت، ریاست کی سلامتی ، ڈپلومیٹک،سائنسی اور اقتصادی مفادات کو مضرطریقے سے متاثر کرےگی…یا کسی جرم کو بڑھاوا دے گی،’ پابندی لگا دی تھی۔ اب یہ نیا نوٹیفیکیشن پابندیوں کے دائرے کو کافی بڑھا دینے والا ہے۔
وزارت عملہ، عوامی شکایات و پنشن جس کے سربراہ نریندر مودی ہیں’کے ذریعے31 مئی،2021 کو جاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری افسر، جس نے انٹلی جنس یا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ،2005(2005 کا 22)میں شامل سلامتی سے متعلق کسی ادارے میں کام کیا ہے، سبکدوشی کے بعدادارے کےسربراہ کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی ایساموادشائع نہیں کرےگا، جو ؛
‘اس ادارے کےدائرہ کار(ڈومین)میں آتا ہو۔ اس میں کسی اسٹاف یا اس کاعہدہ یا اس کی مہارت یا معلومات شامل ہے، جو اسے اس ادارے میں کام کرنےکی وجہ سے حاصل ہوئی ہو۔’
‘ادارے کے دائرہ کار(ڈومین)اور اس ادارے میں کام کرنے کی وجہ سےحاصل مہارت یا علم’سے وابستہ کسی بھی طرح کی تحریر پر لگائی گئی نئی پابندیاں اتنی وسیع اور ساتھ ہی ساتھ اتنی مبہم ہیں کہ عوامی مسائل پر تبصرہ کرنے والے سیکیورٹی اور انٹلی جنس اداروں سے ریٹائر ہونے والے کچھ افسر اس کوحکومت کے ناقدین کو ڈرا دھمکا کرخاموش کرانے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
پہچان ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سابق افسر نے دی وائر کو بتایا،‘موجودہ حکومت پورے نیریٹو پر کنٹرول کرنے کی جارحانہ حالت میں ہے۔ میرااندازہ ہے کہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے والے سبکدوش نوکرشاہوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئینی کنڈکٹ گروپ،جس میں سابق سیکیورٹی اور انٹلی جنس افسر شامل ہیں؛ کے ذریعےمختلف موضوعات پر لکھی جا رہی چٹھیاں بھی حکومت کے وزیروں کےذہن میں رہی ہوں گی۔ جہاں متعصبانہ سیاسی ایجنڈوں سے قانون کے اقتدار کے کمزور ہونے سے ان اداروں میں کئی سبکدوش افسر پریشان ہیں، وہیں سرکار یہ بالکل بھی نہیں چاہتی کہ اس کے ناقدین کی فہرست اپنی بات رکھنے کے خواہش مند نئے سبکدوش افسران کا نام شامل ہونے سے مزیدلمبی ہو جائے۔
یہ رول پہلے ہی‘اشاعت’لفظ میں پریس اور الکٹرانک میڈیا میں اپنی بات رکھنے…کوئی کتاب، چٹھی، پرچہ، پوسٹر یا کسی بھی شکل میں کوئی اور دستاویز کی اشاعت کو شامل کرتا ہے۔’
نئےضابطوں کے دائرے میں آنےوالےاداروں میں انٹلی جنس بیورو(آئی بی)، کابینہ سیکریٹریٹ کا ریسرچ اینڈ انالسس ونگ (را)، ڈائریکٹریٹ آف ریونیوانٹلی جنس، سینٹرل اکانومک انٹلی جنس بیورو، انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ(آئی ڈی)، نارکوٹکس کنٹرول بیورو(این سی بی)، ایوی ایشن ریسرچ سینٹر، اسپیشل فرنٹیر فورس، بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف)، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف)، انڈوتبتن بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی)،نیشنل سیکیورٹی گارڈ (این ایس جی)، آسام رائفلز، انڈمان نکوبار جزیرے کا اسپیشل سروس بیورو، اسپیشل برانچ سی آئی ڈی ، دادرا اور ناگر حویلی کا کرائم برانچ-سی آئی ڈی-سی بی اور اسپیشل برانچ، لکش دیپ پولیس شامل ہیں۔
یعنی نئے ضابطہ کا مطلب ہے کہ راء کے سابق افسر کسی خارجہ مسئلے یا پاکستان، افغانستان یا چین جیسےسلامتی سے متعلق موضوعات پر اجازت لیے بغیر میڈیا میں کوئی مضمون نہیں لکھ سکتے، کیونکہ یہ ادارے کےدائرہ کار میں آتے ہیں۔
انٹلی جنس بیورو کے کسی سابق افسر کو فرقہ وارانہ تشددیاداخلی سلامتی کے معاملے سے نمٹنے میں ناکامی یا گھریلوسیاست پر بھی کچھ لکھنے سے بین کر دیا جائےگا، کیونکہ یہ سب آئی بی کے دائرہ کار(ڈومین)میں آتے ہیں۔سی آر پی ایف، بی ایس ایف وغیرہ کے سبکدوش افسران کے لیے بھی سرکار سے پیشگی اجازت لیے بغیرمختلف موضوعات پر جن میں ان کی مہارت ہے، کچھ بھی تبصرہ کرنا مشکل ہو جائےگا۔
ترمیم شدہ پنشن ضابطوں میں ایک نیا فارم شامل کیا گیا ہے جس پر اداروں کے ملازمین کو اب سے دستخط کرنا پڑےگا اور یہ وعدہ دینا پڑےگا کہ وہ-‘سروس کے دوران یا سبکدوشی کے بعد ادارےکے دائرہ کار(ڈومین)سے متعلق یا اس ادارے میں کام کرنے کے کی وجہ سے حاصل ہوئی کوئی جانکاری یا موادیا معلومات کو کسی بھی طرح سے شائع نہیں کریں گے۔’
اس فارم کے 2008 کے ڈرافٹ نے اس وعدہ(انڈرٹیکنگ)کو صوبے کی سلامتی اور خودمختاریت پر خطرہ پیدا کرنے والے کسی مواد کی اشاعت تک محدود رکھا تھا۔
سال 2008 کے فارم کی ہی طرح نئے انڈرٹیکنگ میں بھی حال اور مستقبل کے افسران کو اس پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ فارم میں تفصیل سے مذکوروعدوں کی خلاف ورزی کے لیے سرکار کی طرف سے ان کے خلاف کوئی منفی کارروائی کرنے پر وہ اپنے پنشن کے حقوق سے محروم کر دیے جا ئیں گے:
‘مجھے اس بات کی جانکاری ہے کہ سبکدوشی کے بعد متعلقہ پنشن ضابطوں کے تحت مجھے دی جانے والی پنشن یہاں دیے گئےوعدوں کی خلاف ورزی کرنے پر روکی،یا جزوی طور پر یا پوری طرح سے ختم کی جا سکتی ہے۔’
چونکہ ضابطہ8 کہتا ہے کہ،‘ان ضابطوں کے تحت پنشن دیے جانے اور اس کے جاری رہنے کے لیےمستقبل کا اچھا اخلاق ایک داخلی شرط ہوگا،’اس لیے بولنے کی آزادی پرپابندی لگانے والے یہ نئے آرڈر قیاسی طور پر ان افسران پر بھی لاگو ہوں گے جو ان اداروں سے عرصے پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں، بھلے ہی انہوں نے نئے انڈرٹیکنگ پر دستخط نہ کیا ہو۔
اس سے ان کی پنشن کی ضبطی یا اس میں کمی لانا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن اس سے جان کار طبقے کی طرف سے ہونےوالی تنقید کو دبانے کے لیےمتجسس حکومت کے لیے بہت پہلے ریٹائر ہوچکےافسران کو قانونی کارروائیوں میں پھنسانا آسان ہو جائےگا۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر