ضلع پنچایت انتخاب میں ملی جیت پر پھولی نہ سما رہی بی جے پی بھول رہی ہے کہ ضلع پنچایت صدور کے بالواسطہ انتخاب میں جیت کسی بھی دوسرےبالواسطہ انتخابات کی طرح کسی پارٹی کی زمینی پکڑ یا لومقبولیت کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ کئی بار تو متعلقہ پارٹی کو اس سے نفسیاتی برتری تک نہیں مل پاتی۔
اتر پردیش میں سنیچر کو ہوئے ضلع پنچایت صدور کےانتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی نےکل 75 میں سے 67 سیٹیں جیت لی ہیں۔ اس نے ان ضلعوں میں بھی اپنے حریفوں کا کس بل نہیں چلنے دیا ہے، جہاں اس انتخاب کے ووٹروں یعنی ضلع پنچایت ممبروں کے انتخاب میں اس کو صرف دو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ ان ضلعوں میں بھی، جہاں اسے صرف 12 فیصدی ووٹ ملے تھے۔
غور طلب ہےکہ حال میں ہی ہوئےپنچایتوں کے سہ سطحی انتخاب میں ضلع پنچایت ممبروں کی لگ بھگ 3000 سیٹوں میں سےبی جے پی کو محض580 یعنی محض 25 فیصد سیٹیں ملی تھیں، جبکہ 782 سیٹیں پاکر سماجوادی پارٹی پہلے مقام پر رہی تھی۔ کانگریس کو 61 اور بی ایس پی کو 361 سیٹیں ملی تھیں اور 1266 سیٹوں پر دوسری پارٹیاں اور آزاد امیدوار جیتے تھے۔
उत्तर प्रदेश में जिला पंचायत अध्यक्ष पद के चुनाव में भाजपा की ऐतिहासिक विजय आदरणीय प्रधानमंत्री जी की लोक कल्याणकारी नीतियों का प्रतिफल है।
यह उत्तर प्रदेश में स्थापित सुशासन के प्रति जन विश्वास का प्रकटीकरण है।
सभी प्रदेशवासियों का धन्यवाद एवं विजय की हार्दिक बधाई!
— Yogi Adityanath (@myogiadityanath) July 3, 2021
اس کراری شکست کے باوجودبی جے پی نے ضلع پنچایت صدور کے انتخاب میں اپنا پرچم لہرادیا ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی اس معجزے کاسہراوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی پالیسیوں کو دے رہے ہیں، تو وزیر اعلیٰ وزیر اعظم کی مقبولیت کو۔
यूपी जिला पंचायत चुनाव में भाजपा की शानदार विजय विकास, जनसेवा और कानून के राज के लिए जनता जनार्दन का दिया हुआ आशीर्वाद है।
-माननीय प्रधानमंत्री श्री @narendramodi जी pic.twitter.com/KJCvn6q7Rw— BJP Uttar Pradesh (@BJP4UP) July 3, 2021
یہ اور بات ہے کہ کئی جان کار اس انتخاب کو انتخاب سے زیادہ ضلع پنچایتوں پربی جے پی کے قبضے کی ایسی مہم کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس میں بے حیائی کی تمام حدیں پار کردی گئیں ہیں۔ کیسے؟
جان کار کہتے ہیں کہ اس سے واقف ہونے کے لیے اتنا بھر جاننا کافی ہے کہ ووٹوں کی خریدو فروخت کے مرحلےمیں ایک ایک ضلع پنچایت ممبر کے ووٹ کی قیمت پچاس لاکھ تک پہنچا دی گئی اور جہاں محض خریدو فروخت سے کام نہیں چلا، وہاں اقتداراور سرکاری مشینری کے غلط استعمال کے بھی مختلف داؤ آزمائے گئے۔
کئی ضلعوں میں اپوزیشن کے امیدواروں کو نامزدگی کا پرچہ ہی داخل نہیں کرنے دیا گیا، جبکہ کئی میں ان کے پروپوزرا ورووٹرزکی ہراسانی کی کوئی حد نہیں رہنے دی گئی۔
بی جے پی کی روایتی اور طاقتورحریف سماجوادی پارٹی نے اس انتخاب کا عمل شروع ہوتے ہی اس کی شفافیت پر سوال اٹھانے شروع کر دیے تھے، جبکہ بہوجن سماج پارٹی نے خود کو انتخابی میدان سے ہی ہٹا لیا تھا۔
اس کی سپریمو مایاوتی نے اپنے کارکنوں سے اس انتخاب میں طاقت ضائع کرنے کے بجائے اسمبلی انتخاب کی تیاریوں میں لگ جانے کو کہا تو اپنی بات میں یہ بھی جوڑا تھا کہ ووٹوں کی خریدو فروخت اور سرکاری مشینری کے غلط استعمال سے پرے یہ انتخاب ایمانداری سے لڑا جاتا تو ان کی پارٹی اسے ضرور لڑتی۔
لیکن کیسے لڑا جاتا؟ صوبے میں دوسرے بالواسطہ انتخابات کی طرح اس انتخاب کی شفافیت کا حال بھی برا ہی رہتا آیا ہے۔ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ آج اس میں بی جے پی کے ذریعےاقتدار کا غلط استعمال اورپیسے کی طاقت کے غیراخلاقی استعمال کا رونا رو رہی بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی، جو 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار آنے سے پہلے باری باری سے صوبے کا اقتدار سنبھال چکی ہیں، اپنی باری پر اس کے جیسے ہی ہتھکنڈے اپناتی رہی ہیں۔
اقتدار میں رہتے انہوں نے بھی اس انتخاب میں اقتدار اور پیسہ کا ویسا ہی استعمال کرکے کامیابی پائی تھی، جیسے اس باربی جے پی نے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا اور اقتدار میں رہتے اس انتخاب کی طہارت کے تحفظ کو لےکرسنجیدہ رہی ہوتیں، تو آج ان کا رونا اس قدر بے مطلب نہ لگتا۔
مثال کے طور پر دسمبر 2010 میں ضلع پنچایت صدور کے انتخاب ہوئے توصوبے میں بی ایس پی سپریمو مایاوتی کی مکمل اکثریت کی سرکار تھی۔ تب اقتدار کی ایسی ہی ہنک و پیسوں کی کھنک کے سہارے بی ایس پی نے ضلع پنچایت صدور کے 71سیٹوں میں سے 55 جیت لیے تھے۔ تب اس کے 23 امیدوار بلامقابلہ جیت گئے تھے، جبکہ اس باربی جے پی کے 21 ہی بلامقابلہ جیتے ہیں۔ تب ایس پی کو 10، راشٹریہ لوک دل کو 2، کانگریس کو 2،بی جے پی کو ایک سیٹ حاصل ہوا تھا۔ ایک اور سیٹ آزاد امیدوار کے کھاتے میں گیا تھا۔
اسی طرح سماجوادی پارٹی کی اکھلیش سرکار کے دوران سات جنوری 2016 کو ضلع پنچایت صدور کے انتخاب ہوئے، تو ایس پی نے 74صدرکی سیٹوں میں سے 60 جیت لیے۔ان میں36 پر اس نےبلامقابلہ جیت حاصل کی تھی۔ ایک ماہ بعد ہوئے بلاک پرمکھوں کے انتخاب میں بھی کل 816 سیٹوں میں سے ایس پی نے 623 سیٹیں جیت لی تھیں، جن میں 385 پر وہ بلا مقابلہ جیتی تھی۔ بی ایس پی کو 47،بی جے پی 34، کانگریس کو 10 بلاک پرمکھ سیٹیں ملی تھیں۔
اسی لیے کئی مبصرین کہتے ہیں کہ انتخاب میں غیر اخلاقی دشمنی کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ جو پارٹیاں اپوزیشن میں رہتی ہیں، وہ اس پر شور ضرور کرتی ہیں، لیکن اقتدارمیں آئی نہیں کہ سب کچھ بھول کر غیر اخلاقی کاموں کی تائید کرنے لگ جاتی ہیں۔
اس کی وجہ سےصوبےنے کئی بار راجیہ سبھا کے انتخابات میں، جو ضلع پنچایت صدور کے انتخاب کی ہی طرح بالواسطہ ہوتے ہیں، پیسے اور طاقت کا بھرپور ڈنکا بجتے دیکھا ہے، تو اس میں بی جے پی کے ساتھ ہی ان دونوں اور دیگر بی جے پی مخالف پارٹیوں کا بھی کچھ کم رول نہیں ہے۔
اس لیےمبصرین فی الحال اس پر حیران نہیں ہیں کہ بی جے پی نے اس انتخاب میں غیراخلاقیات کے نئے پیمانے قائم کر دیے۔ وہ حیران ہیں کہ اس طرح پرچم لہراکر وہ اس قدر پھولی پھولی کیوں پھر رہی ہے؟
اگر وہ یہ ثابت کرنے کے پھیر میں ہے کہ پنچایتوں کے سہ سطحی انتخاب میں اس کی شکست سے صوبے میں اس کی غیر مقبولیت کے جونتیجےنکالے جا رہے تھے، وہ درست نہیں ہیں تو بھول رہی ہے کہ ضلع پنچایت صدور کے بالواسطہ انتخاب میں جیت دوسرے بالواسطہ انتخابات کی جیت ہی کی طرح کسی پارٹی کی زمینی پکڑ یا مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ کئی بار تو متعلقہ پارٹی کو اس سے نفسیاتی برتری بھی نہیں مل پاتی۔
مثال کے طور پر، 2010 میں ضلع پنچایت صدور کے انتخاب میں غیر معمولی جیت حاصل کرنے والی بی ایس پی 2012 کے اسمبلی انتخاب میں اپنی مایاوتی سرکار نہیں بچا پائی تھی۔ اسمبلی کی سیٹوں کے لحاظ سے وہ تین کے اعداد تک بھی نہیں پہنچ سکی تھی،80 پر سمٹ گئی تھی اور ایس پی نے اس کی کلائیاں مروڑ کر مکمل اکثریت حاصل کرلی تھی ۔
اسی طرح 2016 کے ضلع پنچایت صدور کے انتخاب میں ایس پی کی دھماکے دار جیت کے بعد فروری، 2017 میں ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے تین چوتھائی سیٹیں جھٹک لی تھیں اور ایس پی محض 47 سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔
دراصل ضلع پنچایت صدور کے انتخاب میں ہر ضلع میں 40 سے 80 کے بیچ ضلع پنچایت ممبر ہی ووٹ دیتے ہیں۔ چونکہ وہ کسی پارٹی کے انتخابی نشان پر منتخب نہیں ہوتے اور نہ ان پر پارٹی وپ لاگو ہوتا ہے، اس لیے ان میں سے اکثر لالچ دیے جانے پر پارٹی کی وفاداری چھوڑ دیتے ہیں اور آسانی سے مینج ہو جاتے ہیں۔ لیکن اسمبلی کے انتخاب میں کسی کے لیے بھی ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
بہرحال، اس سلسلے میں بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے پچھلے دنوں ایک بڑے ہی پتے کی بات کہی تھی۔ یہ کہ ضلع پنچایت صدور کے انتخاب میں جو بھی پارٹی اور جیسے بھی جیتے، بی ایس پی کارکنوں کو اسے لےکر بہت فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صوبے میں بی ایس پی کی سرکار بنتے ہی یہ سب کے سب اس کے ماتحت ہو جائیں گے۔ کئی لوگ اسے صوبے کی سیاست کی زمینی حقیقت کی بدصورتی سے جوڑکر دیکھ رہے ہیں تو کئی اپوزیشن کی غیر حاضری سے جوڑکر۔
لیکن شاید یہی وقت ہے، جب ہمیں یہ سوچنا بھی شروع کر دینا چاہیے کہ صوبےمیں راجیو گاندھی کی جانب سےان کے وزارت اعظمیٰ کے دورمیں نکلےپنچایتی راج نے اس دور کے بعد کتنی منزلیں طے کر لی ہیں، جس کی بابت عوامی شاعرعدم گونڈوی عرصہ پہلے لکھ گئے ہیں؛
جتنے حرام خور تھے قرب و جوار میں
پردھان بنکے آ گئے اگلی قطار میں
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر