ٹریجک ہیرو کےکرداروں کےساتھ ہی ہلکی پھلکی کامیڈی کرنے کی صلاحیت کے لیےمعروف دلیپ کمار کو ان کے مداحوں اور ساتھ کام کرنے والوں کےبیچ بھی ہندی سنیما کا عظیم اداکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
دلیپ کمار کی موت کے ساتھ ہی ہندی سنیما کے عہد زریں سے رشتہ کی آخری کڑی ٹوٹ گئی۔ ٹریجک ہیرو کے کرداروں کے علاوہ ہلکی پھلکی کامیڈی کرنے کی صلاحیت کے لیےمعروف دلیپ کمارکو ان کے مداحوں اورساتھ کام کرنے والوں کے بیچ بھی ہندی سنیما کا عظیم اداکارتسلیم کیاجاتا ہے۔
اپنے ہمعصر راج کپور اور دیوآنند کے ساتھ وہ اس دہائی کے دوران پردے پر چھائے رہے ان میں سے ہر ایک نے پردے پر اپنی الگ شخصیت گڑھی۔ مگر اس سے کہیں زیادہ، دلیپ کمار جن کا جنم پشا ور میں محمد یوسف خان کے طور پر غیرمنقسم ہندوستان میں ہوا تھا سیکولر، نہرووین ہندوستان کی بڑی علامت تھے، جو خونی تقسیم کے بعد اپنی نئی پہچان بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔
ایک ایسے وقت میں جب فلم صنعت کے کئی مسلمان آرٹسٹ سرحد پار کر رہے تھے، یوسف اور ان کا خاندان جو کچھ سال پہلے ہی نیا نیا بمبئی آیا تھا نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
سال 1998میں وہ ایک غیرضروری تنازعہ میں اس وقت گھر گئے جب انہیں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز نشان امتیاز دیا گیا؛ ایک سال بعد کارگل جنگ ہوا اور ان کے دوست بال ٹھاکرے نے ان سے یہ اعزازلوٹانے کوکہا۔
شیوسینا کارکنوں نے ان کے گھر کے باہر نعرے لگائے، لیکن دلیپ کمار ان کے سامنے نہیں جھکے۔ آخرکار وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے دخل اندازی کی اور انہیں محب وطن بتایا اور یہ معاملہ آخرکارانجام کو پہنچا۔
انہوں نے دلیپ کمار کے طور پر شہرت پائی۔ یہ نام انہیں دیویکا رانی نے دیا تھا جو 1930کی دہائی کی بڑی اسٹار تھیں اور اس وقت ملک کے سب سے پیشہ ور فلم اسٹوڈیو بامبے ٹاکیز کی ہدایت کاربھی تھیں۔ دیویکا رانی نے یہ کہتے ہوئے انہیں دلیپ کمار نام رکھنے کے لیے کہا کہ یہ نام ان کے اصل نام کے مقابلے زیادہ رومانٹک تھا اور شاید اس سے انہیں زیادہ قبولیت بھی ملے گی۔
یہ روایت کئی دہائیوں تک بنی رہی اور مسلمان مرداداکاروں نے پردے کے لیے ہندو نام استعمال کیا۔ یہ بات آزادی کے بعد کے دور میں اداکاراؤں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ بعد میں وحیدہ رحمٰن نے اس روایت کو توڑا۔
نوجوان یوسف پشاور میں مصروف قصہ خوانی بازار اور کاروباریوں کے بازار کے بیچ ایک گھر میں بڑے ہوئے۔ وہ ڈھیر سارے بھائی بہن چھ بھائی اور چھ بہنیں میں سے ایک تھے۔ ان کی ماں کا نام عائشہ بیگم اور والد کا نام غلام سرور خان تھا، جو ایک خوشحال میوہ فروش تھے، حالانکہ ان کے گھر کی اصل مالک ومختار تھیں سب پر حکم چلانے والی ان کی دادی، جن کے الفاظ ہی آخری قانون تھے۔
بعد میں ان کی زندگی میں یہ رول ان کی سب سے بڑی بہن سکینہ خان کے پاس آ گیا جو باقی گھروالوں کی دیکھ ریکھ کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ دلیپ صاحب کی شادی کے بعد تک چلتا رہا۔
سن 1940کی دہائی کی شروعات میں ان کا خاندان پھل کا کاروبار شروع کرنے کے لیے بمبئی آ گیا تھا، حالانکہ نوجوان یوسف کا داخلہ دیولالی کے اسکول میں کرایا گیا تھا جہاں ان کے بھائی ایوب کا علاج چل رہا تھا۔ بمبئی میں انہوں نے خالصہ کالج میں داخلہ لیا، جہاں ان کے بچپن کے دوست راج کپور بھی ان کے ساتھ تھے۔
سن 1942میں ایک فیملی فرینڈ ڈاکٹر مسانی یوسف کو دیویکا رانی سے ملوانے ممبئی کے نواحی شہر ملاڈ لےکر گئے، جنہوں نے انہیں اسی وقت1250 روپے کی پیش کش کی اور انہیں بطور اداکار سائن کر لیا۔ نئے نئے ایکٹر بنے یوسف کو اپنےوالد، جو راج کپور اور پرتھوی راج کپور کو مراثی، یعنی ناچنے گانے والا کہہ کر ان کا مذاق بنایا کرتے تھے کو اس بات کی جانکاری دیتے ہوئے کافی ڈر لگ رہا تھا۔
پھر ایک دن راج کپور کے دادا بسیشور ناتھ نے اپنے دوست آغاجی(جیسا دلیپ کمار کے والد کو مخاطب کیا جاتا تھا)کو کرافورڈ مارکیٹ میں ان کی دکان کے باہر لےکر گئے اور جوار بھاٹا فلم کی ہورڈنگ کو ہاتھ کے اشارے سے دکھایا، جس میں ان کے بیٹے، جنہیں پردے کے لیے دلیپ کمار نام دیا گیا تھا کی بڑی سی تصویر دکھائی دے رہی تھی۔
دلیپ کمار اپنے والدکے ممکنہ ردعمل کے بارے میں سوچ کر سہمے ہوئے تھے۔ جیسا کہ دلیپ کمار نے اپنی خودنوشت دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو میں لکھا ہے، ان کےوالد نے ان کے ایک سرکاری افسر بننے اور ‘نام کے آگے ‘اوبی ای کی لکھا’ دیکھنے کا ارمان پال رکھا تھا۔ کسی طرح سے پرتھوی راج کپور کی دخل اندازی سے وہ نرم ہوئے۔ جنہوں نے آغاجی کو سمجھایا کہ ان کے بیٹے کی پسند میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
اسٹارڈم کی راہ
جوار بھاٹا (1944)نے باکس آفس پر کوئی خاص ہلچل نہیں مچائی، لیکن نورجہاں کے ساتھ آئی جگنو نے باکس آفس پر کافی ہٹ ہوئی۔ اس کے بعد دو لگاتار ہٹ فلمیں ندیا کے پار اور شہید آئی اور دلیپ کمار کا ستارہ چمکنا شروع ہو گیا۔
ان دونوں ہی فلموں میں ان کے ساتھ کامنی کوشل تھیں۔ گاسپ میگزین ان کے بیچ محبت کی خبروں سے بھر گئیں۔ کامنی کوشل کی شادی ان کی مرحومہ بہن کے شوہر سے ہوئی تھی جن کے دو بچے تھے۔ ان خبروں نے ان کے پریوار کو کافی بھڑکا دیا۔ ان کی کچھ اور فلمیں ساتھ میں آئیں لیکن آخرکار انہیں اپنے راستے الگ کر لینے پڑے۔
سن 1940کی دہائی کے آخری سالوں اور 1950 کی دہائی میں دلیپ کمار نے اپنا اصل مقام حاصل کیا۔ محبوب خان کی فلم انداز (1949)،جس میں ان کے ساتھ نرگس اور راج کپور تھے، میں انہوں نے ایک ایسے مردکا کردار نبھایا تھا جو ایک ماڈرن لڑکی کے دوستانہ سلوک کو اس کی محبت سمجھنے کی بھول کرتا ہے۔
اس فلم نے ایک ٹریجک ہیرو کی امیج گڑھنے کا کام کیا، جس کی قسمت میں عشق کی ناکامی ہی لکھی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک عام فہم اور کفایت شعار، اکثر اپنے مکالموں کو دھیمے دھیمے بولنے کےاسٹائل کو فروغ دیا، جو ان کے ڈائیلاگس میں کئی مفہوم ادا کرتی تھی۔ یہ راج کپور اور نرگس کی مبالغہ آرائی کے ٹھیک الٹ تھی۔ ٹینس، کلبوں اور پیانو والے گھروں کی دنیا میں یہ تینوں اپنے شباب پر تھے، اور اس وقت تک دلیپ کمار میں یہ جاننے کا اعتمادآ چکا تھا کہ کیمرے کے سامنے اپنا سب سے بہتر کیسے پیش کریں۔
ان کے سنوارے ہوئے بالوں سے باہر نکلی ہوئی لٹیں، ان کا خاص انداز بن گیا، جس کی نقل آنے والی نسلوں کے اداکاروں کے ذریعے کی جاتی رہی۔ شرت چند کے ناول پر بنی دیوداس کے ساتھ ٹریجک ہیرو(ٹریجڈی کنگ یعنی شہنشاہ جذبات)اپنے ٹاپ پر پہنچ گیا۔ یہ ایک زمیندار کے ایک ایسے بیٹے کی کہانی تھی، جو پارو(سچترا سین)سے محبت تو کرتا ہے، مگر اس سے شادی نہیں کر سکتا۔
وہ گھر سے بھاگ کر شہر جاتا ہے، جہاں وہ ایک شرابی بن جاتا ہے اور چندرمکھی نام کی ایک طوائف کے سامنے اپنےجی کو ہلکا کرتا ہے۔ ندامت اور شراب میں ڈوبے ہوئے شرابی کے کردار کو دلیپ کمار نے اس طرح سے جیا کہ کردار اور اداکار کے بیچ کا فرق ختم ہو گیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے پردے پر ٹریجڈی کو اتارنے کا ایک معیاربھی قائم کر دیا۔
نیا موڑ
ایک ایسے وقت میں جب پردے پر نبھائے جا رہےکرداروں کی وجہ سے وہ ایک طرح کی افسردگی اور ڈپریشن کا سامنا کر رہے تھے، لندن میں ان کی ملاقات ڈاکٹر نکولس سے ہوئی، جنہوں نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے کام کو اپنے گھر لےکر آ رہے ہیں اور انہیں دوسری طرح کے رول کرنے کی صلاح دی۔
یہ صلاح ایک ایسےوقت پر آئی جب دلیپ کمار آزاد فلم کو سائن کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے، جس میں انہوں نے ایک دلیر ڈاکو کا رول کیا ہے، جو امیروں کو لوٹتا ہے اور ایک امیر لڑکی(مینا کماری)سے محبت کرتا ہے۔ یہ ایک ہلکا پھلکا رول تھا، جس میں انہیں کئی طرح کے روپ اختیار کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے دیوآنند کے ساتھ ایک کاسٹیوم ڈراما انسانیت میں بھی کام کیا، لیکن اس فلم کی اصل کشش زپی دی چمپ تھا، جو امریکہ سے بلایا گیا تھا۔ کافی سطحی اوربورنگ ہونے کے باوجود یہ فلم ہٹ ہوئی۔
دلیپ کمار 1960کی دہائی کی شروعات میں اپنے کریئر کے عروج پر پہنچے اور فلم تھی کے آصف کی شاہکارمغل اعظم، جس میں انہوں نے نوجوان جہانگیر کارول کیا تھا جو انارکلی(مدھوبالا)سے عشق کرنے (اور شادی کرنے)کے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے اپنےباپ شہنشاہ اکبر (پرتھوی راج کپور)سے بھڑ جاتا ہے۔
اس وقت تک دونوں دلیپ کمار اور مدھوبالا کے بیچ دوریاں آ چکی تھیں، لیکن پھر بھی اس فلم کے محبت کے مناظر میں ایک نزاکت اور قربت تھی، جو پردے پر کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ مدھوبالا کے ساتھ ان کا رشتہ جو تب تک دل کی بیماری سے متاثرہو چکی تھیں ترانہ (1951)سے شروع ہوا تھا اور اس وقت تک اپنی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ رشتے کا یہ انجام کافی کڑواہٹ بھرا ہونا تھا۔
اپنی خودنوشت میں دلیپ کمار نے لکھا ہے کہ وہ مدھوبالا سے شادی کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کےباپ کی لالچ، جو پردے پر ان دونوں کی جوڑی میں کافی امکان دیکھتے تھے، اس کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ دلیپ کمار اس وقت عمر کی چوتھی دہائی میں تھے، جبکہ مدھوبالا نے کشور کمار سے شادی کر لی۔
اس کے بعد آئی گنگا جمنا (1961)جس میں انہوں نے ایک باغی کا رول نبھایا تھا، جو اپنے بھائی(ناصر خان)سے ٹکر لیتا ہے۔ کئی سالوں بعد یہ فلم دیوار کی انسپریشن بنی، جسے امیتابھ بچن کے سب سے شاندار پرفارمنس میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس سے ان کا کریئر ڈھلان پر آ گیا – ستاروں کی ایک نئی فلمی جماعت منظرنامےپر قابض ہو چکی تھی اور دلیپ کمار کو ایسے رول نہیں مل رہے تھے، جنہیں انہوں نے اب تک اتنے شاندار طریقے سے نبھایا تھا۔
سن 60کی دہائی کی ان کی فلمیں، چاہے وہ لیڈر ہو یا دل دیا، درد لیا ہو ناکام رہیں۔ حالانکہ، استثنیٰ بھی تھے رام اور شیام (1967) جس میں انہوں نے جڑواں بھائیوں، ایک کمزور اور دوسرا خوداعتمادی سے بھرا ہوا، کے رول میں ایک بار پھر اپنی اداکاری کا دم دکھایا تھا۔ ایک دوسری فلم شمال-مشرقی ہندوستان کے چائے باغات پر مرکوز دو زبانوں(ہندی اور بنگالی) میں بنی سگینہ مہتو، جس میں وہ برٹش حاکموں سے لوہا لیتے ہیں۔
لیکن 1980کی دہائی میں امیتابھ بچن کے ساتھ کی گئی شکتی کو چھوڑکر باقی فلمیں لاؤڈ اور بھولنے لائق تھیں۔ شکتی میں امیتابھ بچن اصولوں کے پکے پولیس افسرباپ کے بیٹے بنے تھے، جنہیں اس بات کا رنج تھا کہ ان کےباپ نے اغوا کرنے والوں سے انہیں بچانے کے لیے اصولوں سےسمجھوتہ نہیں کیا۔ان دو لیجنڈ کی بھڑنت کا ناظرین کو بے صبری سے انتظار تھا اور انہیں مایوس نہیں ہونا پڑا۔
دلیپ کمار اپنے پرسکون انداز میں ہی تھے اور بچن غصے سے دہکتے ہوئے سے۔ اس بات کو لےکراختلاف رائے ہے کہ جیت کس کی ہوئی، لیکن کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ دلیپ کمار امیتابھ پر حاوی رہے۔
یہ صحیح معنوں میں ان کی آخری یادگار فلم تھی۔ اس وقت تک وہ بنا کسی اضافی محنت کے اپنے کرداروں کو نبھا رہے تھے اور ناظرین کو باندھنے میں اہل تھے، لیکن کمزور ہدایتکاروں اور خراب کہانیوں کے بیچ ان کے لیے مواقع بہت کم تھے۔
اس کے بعد وہ ریٹائر ہو گئے اور اکا دکا رول میں ہی نظر آئے۔ لیکن اس سے ان کے لیے احترام میں کمی نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے کہ نوجوان مداحوں نے ان کی فلمیں نہ دیکھی ہوں، لیکن ایسا کون ہے، جو ان کا نام نہیں جانتا ہے؟
ایکٹراورہدایتکار ابھی بھی اپنی باتوں میں ان کا ذکر اپنے انسپریشن کے طور پر کرتے ہیں۔ یو ٹیوب ان کے گانوں اور فلموں سے بھرا ہوا ہے، اور کچھ سال پہلے فیس بک پر ان کے لیے بھارت رتن کی مانگ کرنےوالا ایک گروپ سامنے آیا۔
دلیپ کمار ایک عظیم اداکارتو تھے ہی، اب وہ آنے والے تمام وقتوں کے لیے ایک لیجنڈ بن گئے ہیں۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)