سماج کےمحروم طبقات کے لیےآمدنی بڑھانے کے سلسلے میں بی جے پی حکومت کےتمام اہم وعدوں کے اب تک ٹھوس نتیجے برآمد نہیں ہوئےہیں۔
بڑے پیمانے پرنریندر مودی کی کابینہ میں توسیع کے کئی سارے مفہوم نکل کر سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے پسماندہ کمیونٹی اور حاشیے پر پڑے دلت کمیونٹی کے ممبروں کو وزیر بناکر ان طبقات کا خاص خیال رکھا ہے۔
سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کے سروے کے مطابق مودی کی قیادت میں بی جے پی کو پسماندہ طبقات کے ووٹوں کا کافی فائدہ ہوا ہے، جو 24 فیصدی سے بڑھ کر 42 فیصدی ہو گئے ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کو ملے دلت ووٹوں کی تعداد2014 میں 24 فیصدی سے بڑھ کر 2019 میں 34 فیصدی ہو گئی۔
ظاہر ہے کہ مودی چاہتے ہیں کہ اس ووٹ شیئر کو برقرار رکھا جائے، جہاں سال 2019 میں لوک سبھا انتخاب کے دوران بی جے پی کو اتر پردیش میں سب سے زیادہ50 فیصدی ووٹ ملے تھے۔ وہیں سال 2014 میں پارٹی کو اتر پردیش میں42 فیصدی ووٹ ملے تھے۔
واضح ہے کہ مودی کی قیادت میں کافی زیادہ تعداد میں حاشیے پر پڑے پسماندہ طبقات اور دلتوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے اقتدارمیں آنے پر یہ ووٹربی جے پی کے کل 26 فیصدی ووٹ شیئر کا حصہ نہیں تھے۔
سال 2019 میں بی جے پی کے ووٹ شیئر کو 37 فیصدی تک لے جانے کے لیے اضافی10فیصد ووٹ حاصل کرنے میں مودی کامیاب رہے، جس میں زیادہ تر او بی سی اور دلت تھے۔
کچھ لوگ یہ بھی مان سکتے ہیں کہ یہی وہ کمیونٹی بھی ہے، جنہیں مہاماری کی وجہ سے آمدنی اورروزگار کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔
عظیم پریم جی انسٹی ٹیوٹ کے اسکالرزکے ذریعے کیے گئے ایک مطالعے میں سی ایم آئی ای کے اعدادوشمار سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ سال 2020 میں ہندوستان میں مہاماری پھیلنے کے بعد سے تقریباً 23 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے چلے گئے ہوں گے۔ مہاماری سے پہلے بھی بےروزگاری کی سطح کئی دہائیوں کی اعلیٰ سطح پر پہنچ گئی تھی۔
ایک عام اندازہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو مہاماری سے پہلے اور بعد میں آمدنی اور روزگار کا نقصان ہوا ہے، انہی کمیونٹی کے لوگوں کو وزیر اعظم مودی نے اپنی کابینہ توسیع کے تحت وزیر بنایا ہے۔
بھلے ہی سرکار کا اقتصادی مظاہرہ سب سے پسماندہ اور حاشیے کے طبقات کی امیدوں پر کھرا نہیں اترا ہو، لیکن مودی نے اتر پردیش کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان طبقات کے ساتھ اقتدار کا بٹوارہ یقینی بنایاہے۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ ان طبقات کے رہنماؤں میں کافی اٹھاپٹک چل رہی تھی، کیونکہ مودی نے نہ تو روزگار دیا تھا اور نہ ہی بہتر ذریعہ معاش۔ اس کے ساتھ ہی نہ ہی انہیں اقتدار کے ڈھانچے میں صحیح طریقے شامل کیا گیا تھا۔
اس لیے اس بار ان طبقات کے رہنماؤں کی کابینہ میں انٹری ہونی طے ہو گئی تھی۔ یہ بات اتنی جگ ظاہر تھی کہ بی جے پی ترجمان کھلے طور پر دعویٰ کرتے تھے کہ کابینہ توسیع میں او بی سی اور دلت کمیونٹی کے لوگ شامل ہوں گے۔ سرکار نے کاسٹ کواہمیت دیتے ہوئے وزارتی عہدہ دینے سے انکار کا ڈھونگ بھی نہیں رچا تھا۔
سماجی مؤرخ بدری نارائن کا کہنا ہے کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سب سے بڑی حصولیابی یوپی میں چھوٹی، غیر یادو پچھڑی کمیونٹی اور غیرجاٹو دلتوں کو لگاتار لبھانا ہے، جو دہائیوں سےکو خودنظرانداز محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا یوپی میں کل ووٹ کا لگ بھگ 35 فیصدی حصہ ہیں۔
نارائن کے مطابق، بی جے پی ان طبقات کو جوڑ نے کی اپنی اس حکمت عملی پر لگاتار عمل کر رہی ہے۔ اس کے بارے میں انہوں نے اپنی حالیہ کتاب ‘ری پبلک آف ہندوتوا‘ میں تفصیل سے بتایا ہے۔
نارائن کی دلیل ہے کہ آر ایس ایس اور مودی دونوں نے ان طبقات سے جڑنے کے لیے‘سماجی سیاسی’(سماجی آؤٹ ریچ پروگرام)کا استعمال کیا ہے۔ بےشک، صوبے کے فلاحی پروگراموں کو بھی ان طبقات تک پہنچایا گیا ہے۔
اقتدار میں حصہ داری کافی نہیں
یہ بھی سچ ہے کہ صرف کابینہ توسیع میں ہی مودی کا او بی سی اور دلتوں پرخصوصی توجہ دینا، اس تشویش کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان کی سرکار نے ان کمزورطبقات کو روزگار اور خوشحالی نہیں دی ہے۔اقتدار کی حصہ داری زمینی سطح کی کمیوں کی تکمیل نہیں کر سکتی ہے۔
اقتصادی تباہی نے او بی سی اور دلتوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر غیررسمی شعبے میں کام کرتے ہیں اور سیلف امپلائمنٹ والوں میں سے اکثر او بی سی اور دلت ہیں۔
ویسے سنگھ پریوار نے ان طبقات کو ہندوتوا کی جانب شدت پسند بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے اکثر بی جے پی کے اصل ہندوتوا ووٹ بینک کا حصہ بنیں گے یا نہیں۔ ان کی ترجیحات ابھی بھی خود کو غریبی کی سطح سے اوپر اٹھاکر ایک محفوظ اقتصادی مستقبل کی جانب لے جانا ہوگی۔
بی جے پی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بڑے پیمانے پر اقتصادی نمو اور ترقی کرنا ہے، جو اب تک نہیں ہوا ہے۔ آمدنی میں اضافہ کے سلسلے میں بی جے پی سرکار کےتمام اہم وعدوں زرعی آمدنی کو دوگنا کرنا، مدرا یوجنا، اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام وغیرہ کے ابھی تک ٹھوس نتیجےنہیں ملے ہیں۔
پرچار شروع ہونے سے پہلے وزیر اعظم مودی کی دوسری مدت کار میں ڈھائی سال بچے ہیں۔ ایسے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے دس سال کا وقت کافی زیادہ ہوتا ہے۔ خواہش مند ووٹرز میں اتناصبر وتحمل ہوتا نہیں ہے، اس لیے بی جے پی کو او بی سی اور دلتوں کے بیچ اکثریتی کمزور طبقے کے ساتھ علامتی طور پراقتدار کے بٹوارے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
نتیجتاً، مودی کو اب سے 2024 تک ان طبقات کے ووٹنگ کے طرز عمل کے بارے میں فکرمند رہنا چاہیے۔ مارچ 2022 میں اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں اس کا امتحان ہوگا۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)
Categories: فکر و نظر