فادراسٹین سوامی کی حراست، خارج ہوتی ضمانت، بنیادی ضرورتوں کے لیے عدالت میں عرضیاں اور آخر میں اپنوں سے دور ایک انجان شہر میں ان کا گزر جانا یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی الزام طے کیے بنا اور ان پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ان کے لیے سزائے موت مقررکر دی گئی۔
میرے درد کو وہ اپنی انگلیوں سے چھیڑ رہا ہے
میری زندگی کو اپنے لفظوں میں بتا رہا ہے
اپنے گیت سے وہ آہستہ آہستہ مجھے قتل کر رہا ہے
اپنے گیت سے وہ آہستہ آہستہ مجھے قتل کر رہا ہے
میری پوری زندگی اپنے لفظوں میں بیاں کر رہا ہے
اپنے گیت سے وہ آہستہ آہستہ مجھے قتل کر رہا ہے
ستر کی دہائی کے ایک مشہور گانے کے یہ بول فادر اسٹین سوامی کی زندگی کے آخری سال اور ان کے ساتھ کی گئی سفاکی کی ایک طرح سے مکمل داستان بیان کر دیتے ہیں۔
یکم جنوری،2018 کو بھیما کورےگاؤں میں کچھ واقعات رونما ہوئے،جس کے بعدسیڈیشن سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات میں ایک ایف آئی آر دائر کی گئی۔ جانچ کے بعد یو اے پی اے کی دفعات بھی اس میں منسلک کر دی گئیں۔ 15 نومبر، 2018 کے بعد کچھ ملزمین کے خلاف ایک چارج شیٹ دائر کی گئی اور ایک دوسری ضمنی چارج شیٹ21 فروری، 2019 کو کچھ اور ملزمین کے خلاف دائر کی گئی۔
اس معاملے کی جانچ کر رہی مہاراشٹر پولیس نے 28 اگست، 2018 کو رانچی میں اسٹین سوامی کے دفتر اور گھر کی تلاشی لی۔ صاف ہے کہ انہیں پھنسانےوالی کوئی چیزاس تلاشی میں نہیں ملی اور شاید یہی وجہ ہے کہ نومبر2018 اور فروری2019 میں ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ دائر نہیں کی گئی۔
لیکن شایداسٹین سوامی کے خلاف تنکے جیسا ہی صحیح دستاویزی ثبوت نکالنے کے لیے12جون2019 کو ان کے گھر اور دفتر کی پھر سے تلاشی لی گئی۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی انہیں پھنسانے لائق کچھ ہاتھ نہیں لگا۔اس کے بعد 24 جون2020 تک سب کچھ ٹھیک رہا، جس دن جانچ کو مہاراشٹر پولیس سے قومی جانچ ایجنسی این آئی اےکو سونپ دی گئی۔
اسٹین سوامی کےمطابق،25 جولائی سے 7 اگست2020 تک این آئی اے نے ان سےتقریباً15 گھنٹے پوچھ تاچھ کی۔ 30 ستمبر 2020 کو انہیں ایک سمن بھیجا گیا، جس میں انہیں5 اکتوبر کو ممبئی کے این آئی اے آفس میں حاضر ہونے کے لیے کہا گیا، جس سے انہوں نے اپنی عمر (83 سال)کا حوالہ دیتے ہوئے کم وقت دیے جانے اور کووڈ مہاماری کی وجہ سے انکار کر دیا۔
مگر اس سے این آئی اے کو کوئی فرق نہیں پڑا اور اس نے 8 اکتوبر2020 کو رانچی جاکر بھیماکورےگاؤں معاملے میں ہاتھ ہونے کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا اور ممبئی کےتلوجہ جیل میں بند کر دیا۔ان کے خلاف اگلے دن ایک چارج شیٹ دائر کی گئی جس میں ان کے خلاف یواے پی اے کے تحت الزام درج کیے گئے تھے۔
ڈی کے بسو (1996)میں سپریم کورٹ نے گرفتار کیے جانے والے ہرشخص کی میڈیکل جانچ کی ہدایت دی تھی۔ اس سے سپریم کورٹ کا مقصود اوپری اوپری رسم ادائیگی نہ ہوکر زیادہ تفصیل کے ساتھ جانچ کیا جانا شامل تھا۔ گرفتار کرنے والے افسر نے ضرور ہی ایک اہل میڈیکل افسر سے اسٹین سوامی کی جانچ کروانے کے لیے قدم اٹھائے ہوں گے اور اس مرحلے میں اسٹین سوامی نے اپنی عمر اور پارکنسنزبیماری سےمتاثرہونے کی جانکاری درج کرائی ہوگی۔
اےکے رائے بنام یونین آف انڈیا(1981)میں سپریم کورٹ نے احتیاطی نظربندی کا قانون یعنی بغیر مقدمے اور بغیر الزامات کیے طے ہوئے کسی شخص کو حراست میں رکھنے کے سوال پر غور کیا تھا۔ اس میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ احتیاطی حراست کے طور پر کسی شخص کو عام طور پر ‘کسی ایسی جگہ پر رکھا جانا چاہیے جو کہ اس کی رہائش اور ماحول کے دائرے میں ہی ہو۔ عام طور پر دہلی میں رہنے والے کسی شخص کو مدراس یا کلکتہ جیسے دوردراز مقام پر رکھنا اپنے آپ میں ایک تعزیری کارروائی ہے، جس احتیاطی نظربندی کے معاملےمیں بھی کسی بھی طرح سے بڑھاوا نہیں دیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی شخص کے رہائشی مقام کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر اسےحراست میں رکھنا اس کے احباب اوررشتہ داروں کے لیے اس سے ملنے کو محال بنا دیتا ہے’۔ ایسا کرنے میں ناکامی ایک تادیبی قسم کی کارروائی ہوگی۔’
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احتیاطی حراست اور کسی جرم کے لیےزیر سماعت مقدمے کے لیےحراست میں نامیاتی بُعد ہے، لیکن اگرحراست میں رکھے گئےشخص کی زندگی اور آزادی کے سوال پر وسیع تناظر میں،حساس اور انسان دوست طریقے سے غور کیا جائےتو دونوں میں ٹھوس فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے جیل اصلاحات کی ایک شرط یہ ہونی چاہیے کہ ایک زیر سماعت قیدی کو اس کی رہائش کے پاس کے جیل میں رکھا جائےتاکہ قیدی دھیرے دھیرے موت کی جانب نہ بڑھے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے گوتم نولکھا بنام این آئی اے(2021)والے معاملے میں جیل میں بند رکھنے کی جگہ نظربندی کو بڑھاوا دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بتائے گئے اسباب میں سے ایک وجہ جیلوں کابھرا ہونا تھا، جو ہم جانتے ہیں ایک مستقل مسئلہ ہے اور عالمی وبا نے کچھ جیلوں میں زندگی کے حالات کو اور المناک بنا دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اہتمام کیا ہےکہ، ‘موزوں معاملوں میں کورٹ نظربندی کا فیصلہ دینے کے لیے آزاد ہوں گے۔ جہاں تک اسے لاگو کرنے(سی آر پی سی کی دفعہ167)کا سوال ہے، تو ہم عمر، صحت اور ملزم کی پچھلی زندگی، اس پر لگےجرم کے الزام کی نوعیت، دوسرے قسم کی حراست کی ضرورت اورنظربندی کی شرطوں کو لاگو کروانے کی اہلیت جیسی کسوٹی کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں۔’
تلوجہ جیل کے اپریل2020 میں بھیڑ سے بھرے ہونے کی جانکاری ہے اور جیسا کہ بمبئی ہائی کورٹ نے حال ہی میں کہا، اس میں صرف تین آیورویدک معالج ہیں۔افسوس ناک ہے کہ ہمدردی اور انسان دوستی کےجذنےکی کمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسٹین سوامی کو رانچی سے ممبئی لایا گیا اور ایک انڈر ٹرائل قیدی کی طرح اپنے ماحول اور اپنی رہائش کی عام جگہ سے دور لاکر حراست میں رکھا گیا اور اس طرح سے دھیرے دھیرےان کوہلاک کر دیا گیا۔
اسٹرا اور سپر کے بغیردو مہینے
دلچسپ یہ ہے کہ این آئی اے نے ان کی حراست نہیں مانگی، بلکہ سیدھے کورٹ سے انہیں عدالتی حراست میں بھیجنے کی گزارش کی۔اس کی وجہ بے حدمبہم ہے پوچھ تاچھ کے لیے ان کی ضرورت نہیں تھی اور ان کے خلاف چارج شیٹ پہلے سے تیار تھی اور حقیقت میں اسے اگلے دن دائر بھی کر دیا گیا۔ ایسے میں انہیں بندی بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی، اور یہ کام ممبئی میں کیا جانا کیوں ضروری تھا، رانچی میں کیوں نہیں؟ اور ان کی عمر، ان کی صحت اور دیگرتشویش کا کیا؟
بندی بنائے جانے کے ٹھیک بعد اپنی صحت(پارکنسنزاور عمر)کے مدنظر اسٹین سوامی نے صحت کی بنیاد پر عبوری ضمانت کی درخواست کی۔ افسوس ناک طریقے سے ان کی درخواست کو 22 اکتوبر، 2020 کو خارج کر دیا گیا۔ اس کے ٹھیک بعد، چونکہ اسٹین سوامی پارکنسنز سے متاثرتھے، اس لیے انہیں پانی سمیت دوسرے مائعات پینے کے لیے سپر اورا سٹرا کی ضرورت پڑی۔ ایک سپر اور اسٹرا مہیا کرانے کے لیے انہوں نے عرضی لگائی۔ اس درخواست پر بے حدحساس ردعمل دیا گیا۔
سب سے پہلےاستغاثہ(پراسکیوشن)نے جواب دائر کرنے کے لیےوقت مانگا؟ کیا اس کی ضرورت تھی؟ کیااسٹین سوامی کو اسٹرا اور سپر مہیا نہیں کرایا جا سکتا تھا؟ اس کے بعدحیران کن طریقے سے عزت مآب جج صاحب نے پراسکیوشن کو جواب دائر کرنے کے لیے 20 دن کا وقت دیا!
یہ حیران کن تھا۔ واضح لفظوں میں کہیں تو اگر جیل کا نظام حساس اور انسان دوست ہوتاتوا سٹین سوامی کو ایک اسٹرا جیسی معمولی چیز کے لیے ٹرائل کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ آخرکار ایک بڑا احسان کرتے ہوئے اسٹین سوامی کو سپر مہیا کرانے کا حکم دیا گیا۔ کیا رحم دلی دکھائی گئی!یہ زخموں ا درد کو کو انگلی سے چھیڑنے یا کریدنے کامثالی نمونہ ہے۔
ضمانت پر فیصلہ لینے میں لگے چار مہینے
بعد میں 26 نومبر2020 کو اسٹین سوامی نے اپنی صحت اور کئی بنیادوں پر ایک مستقل ضمانت کے لیےعرضی دائر کی۔ لگتا ہے کہ اس معاملے میں این آئی اے ان سے مزید پوچھ تاچھ کرنے کی خواہش مند نہیں تھی، لیکن وہ انہیں کچھ مبینہ جرائم کے لیے سزا دینا چاہتی تھی بغیر مقدمے کے ہی سزا دینا چاہتی تھی۔ اور اس لیے این آئی اے نے ضمانت عرضی کی پر زورمخالفت کی اور آخرکار لگ بھگ چار مہینے کے بعد، جس دوران اسٹین سوامی ظاہری طور پر جیل میں بند تھے، جج ڈی ای کوٹھالکر کے ٹرائل کورٹ نے 22 مارچ، 2021 کو ان کی ضمانت عرضی کو خارج کر دیا۔
یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ ایک ضمانت کی عرضی پر فیصلہ لینے میں اتنے مہینے کیوں لگ گئے؟ کیا اس عمل کو تیز کرناممکن نہیں ہے، یہ دھیان میں رکھتے ہوئے کہ ضمانت مانگ رہا شخص عدالتی حراست میں ہے اور اس کے لگاتار حراست میں رہنے کی ذمہ داری عدلیہ کی بنتی ہے۔ کیا ہر انڈرٹرائل قیدی کو آہستہ آہستہ مارا جانا ضروری ہے؟
صحت کی بنیادپرعبوری ضمانت کے ساتھ ساتھ مستقل ضمانت عرضی کے خارج ہونے سے مایوس ہوکر اسٹین سوامی نے بامبے ہائی کورٹ کے سامنے اپیل دائر کی۔مستقل ضمانت کی ان کی عرضی 4 مارچ، 2021 کو شنوائی کے لیے آئی اور میڈیکل رپورٹ وغیرہ حاصل کرنے کے لیے چار بارملتوی ہوئی۔
یہ صحیح ہے کہ عزت مآب جج صاحب خود ڈاکٹر نہیں ہوتے ہیں، لیکن میڈیکل رپورٹس کو پڑھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ اسٹین سوامی واضح طور پر کسی نوجوان کی طرح تندرست نہیں تھےبلکہ کئی ایسی پریشانیوں سے گھرے ہوئے تھے، جس کا 80 سال سے زیادہ کی عمر کےافراد میں پایا جانا فطری ہے۔
میڈیکل رپورٹس کے رہتے ہوئے بھی عزت مآب جج صاحبان نے اسٹین سوامی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ درج کیا: ‘ہم نے پایا کہ ان کو سننے میں کافی دقت ہے اور وہ جسمانی طور پرکافی کمزور ہیں۔ بہرحال، ہم نے ان کے پاس بیٹھے شخص کی مدد سے ان سے بات کی ہے۔ حالانکہ کورٹ کے ساتھ ساتھ ہی عرضی گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ نے عرضی گزار سے اس بابت پوچھا ہے کہ کیا وہ جے جے اسپتال یا ہولی فیملی سمیت ان کی پسند کے کسی دوسرے اسپتال میں اپنا علاج کروانا چاہتے ہیں، مگرانہوں نے یہ واضح طور پر کہا ہے کہ وہ کسی اسپتال میں اپنا علاج نہیں کروانا چاہتے ہیں اور وہ کسی اسپتال میں بھرتی کرائے جانے سے بہترجیل میں مر جانا زیادہ پسند کریں گے۔ انہوں نے کورٹ کو بتایا ہے کہ تلوجہ اسپتال لائے جانے کے بعد ان کی صحت پوری طرح سے بگڑ گئی ہے اور جیل میں کافی ‘لین دین چلتا ہے۔’ اس لیے انہوں نےعبوری ضمانت دیے جانے کی گزارش کی ہے۔’
اسٹین سوامی نے اپنی پوری زندگی کو اپنے لفظوں میں بیان کر دیا جبکہ ہماری عدلیہ دھیرے دھیرے اپنے گیت سے ان کا قتل کر رہی تھی۔
ویڈیو کانفرنس کےسیشن کے دوران لائیولاء ویب پورٹل کا ایک صحافی وہاں موجود تھا اور رپورٹس کے مطابق اسٹین سوامی نے ہائی کورٹ کو یہ بتایا کہ جب انہیں تلوجہ جیل لایا گیا تھا تب ان کے جسم کا بنیادی طور پرکام کرنے والا حصہ کام کر رہا تھا۔ ‘لیکن دھیرے دھیرے میرے جسم کی بنیادی کام کاج کرنے کی صلاحیت میں لگاتار گراوٹ آئی ہے۔ میں خود سے چل سکتا تھا، میں خود سے نہا سکتا تھا۔ میں لکھ بھی سکتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے یہ کام اب مجھ سے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ جہاں تک کھانے کا سوال ہے، میں ڈھنگ سے کھا پانے میں معذور ہوں۔ کل مجھے جے جے اسپتال لے جایا گیا۔ وہاں مجھے اپنی ضرورتیں بتانے کا موقع ملا۔ میری صحت میں آ رہی گراوٹ ان کے ذریعے دی جا رہی چھوٹی گولیوں کے مقابلے کہیں زیادہ بڑی ہے۔’
کورٹ: کیا تلوجہ جیل میں آپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جا رہا ہے؟ کیا آپ کو تلوجہ جیل کے خلاف کوئی شکایت ہے؟ کیا آپ جے جے اسپتال میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں؟
اسٹین سوامی: نہیں میں ایسا نہیں چاہتا۔ میں وہاں تین بار گیا ہوں۔ وہاں کے نظام کو جانتا ہوں۔ میں وہاں بھرتی ہونا نہیں چاہتا ۔ اس کی جگہ میں مر جانا پسند کروں گا۔
موصولہ جانکاری کے مطابق انہوں نے یہ بھی جوڑا تھا کہ وہ اپنے ساتھ رہنا پسند کریں گے۔ لیکن اگلے دن انہیں ان کے اپنے خرچ پر جے جے اسپتال جانے کے لیے منا لیا گیا۔
کیاا سٹین سوامی کو اپنی موت کاپہلے سےاحساس ہو گیا تھا؟ کیا یواے پی اے کےاہتمام ہندوستان کےآئینی اہتماموں،بالخصوص آرٹیکل21 کے اہتماموں کے مقابلے زیادہ اہم ہیں؟ کیا ملک میں اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لیے زیادہ حساس ، انسان دوست، مہربان اور پروقارہونا نہیں ممکن ہے۔ یا ہر کوئی اقتدارمیں بیٹھے لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ورسواہونے کے لیے ملعون ہے؟
یہ پورا معاملہ ہمیں اس احساس سے بھر دیتا ہے کہ اسٹین سوامی کے خلاف کوئی الزام طے کیے بغیر اور ان پر کوئی مقدمہ چلائے بنا انہیں ایک طرح سےسزائے موت دے دی گئی۔میرے دل میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا ان کی روح کو سکون ملے گا، حالانکہ میں اس کی امید کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے، ‘فادر، انہیں معاف کر دینا، کیونکہ وہ نہیں جانتے وہ کیا کر رہے ہیں۔’
(مدن بی لوکور سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کےلیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر