دی وائر اور دوسرے میڈیاپارٹنرس کے ذریعے ہزاروں ایسےفون نمبروں،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کی جانب سے نگرانی کامنصوبہ بنایا گیاتھا، کےتجزیہ کے بعد سامنے آیا ہے کہ ان میں کم از کم نو نمبر ان آٹھ کارکنوں، وکیلوں اور ماہرین تعلیم کے ہیں، جنہیں جون 2018 اور اکتوبر 2020 کے بیچ ایلگار پریشد معاملے میں مبینہ رول کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
ممبئی: سال 2017 کے وسط میں دہلی یونیورسٹی(ڈی یو)کےایسوسی ایٹ پروفیسر ہینی بابو ایم ٹی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیرل کے کولم میں ایک ٹرپ پر گئے تھے۔ان کی بیوی جینی رووینا، جو دہلی یونیورسٹی کے ہی مرانڈا ہاؤس کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، نے اپنا بچپن یہیں بتایا تھا۔ رووینا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،‘وہ ایک لمبی، فرصت والی ٹرپ تھی۔’
یہاں ہینی بابو اور رووینا دہلی کےاپنے پرانے دوست رونا ولسن سے بھی ملے، جو کولم کے رہنے والے ہیں۔ رووینا نے کہا، ‘ہم سب ایک ریزارٹ میں گئے تھے۔ ایک دوسرے سے مل کر اچھا لگا تھا۔ ہم نے سیاست سے لےکر کیرل میں ہماری زندگی تک کئی چیزوں کے بارے میں بات کی۔’
لیکن وہ اس وقت یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی چھٹیوں کے دوران ہینی بابو اور رونا ولسن کے فون نمبروں کو ایک نامعلوم ہندوستانی ایجنسی کے ذریعہ نگرانی کے لیے ممکنہ نشانے کے طور پر چنا گیا تھا، جو اسرائیل کے این ایس او گروپ سے جڑی ہوئی تھی۔
ایک سال بعد قیدیوں کےحقوق کےلیے کام کرنے والے کارکن رونا ولسن کوایلگار پریشدمعاملے میں‘کلیدی ملزم’ بتاتے ہوئے چھ جون، 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تب سے وہ حراست میں ہیں۔بعد میں کیرل کی یہ ٹرپ قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے)کے ذریعے ہینی بابو کےساتھ پوچھ تاچھ کا مرکزبن گئی، جو 28 جولائی،2020 کو ان کی گرفتاری سے پہلے ایک ہفتے سے زیادہ تک چلی تھی۔
یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ کیا ان کے فون کو حقیقت میں پیگاسس اسپائی ویئر سے ہیک کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے تل ابیب واقع ایک فرم کا اہم پروڈکٹ ہے اور یہ اس کے آپریٹروں کو صارفین کے موبائل ڈیوائس اور کاموں تک غیرقانونی رسائی حاصل کرا دیتا ہے، وہ بھی بنا کسی ڈیجیٹل فارنسک تجزیے کے۔
ہینی بابو اور ولسن دونوں فی الحال عدالتی حراست میں ہیں، ان کے فون جانچ ایجنسی نے ضبط کر لیے ہیں۔
حالانکہ دی وائراوردوسرےمیڈیا پارٹنرس کے ذریعے ہزاروں نمبروں، جن کی نگرانی کرنے کامنصوبہ بنایا گیا تھا، کے ریکارڈ کا تجزیہ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 9 نمبر ان 8 کارکنوں، وکیلوں اور اکیڈمک دنیاسے جڑے لوگوں کے ہیں، جنہیں جون 2018 اور اکتوبر 2020 کے بیچ ایلگار پریشد معاملے میں ان کے مبینہ رول کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
ولسن اور ہینی بابو کےعلاوہ نگرانی کے لیےممکنہ نشانے کے روپ میں چنے گئے دوسرے لوگوں میں کارکن ورنان گونجالوس، اکیڈمک اور شہری آزادی کے کارکن آنند تیلتمبڑے،سبکدوش پروفیسر شوما سین(ان کا نمبر پہلی بار 2017 میں لیا گیا ہے)،صحافی اور کارکن گوتم نولکھا، وکیل ارون فریرا اور سماجی کارکن سدھا بھاردواج شامل ہیں۔
سال 2018 کے بعد سے ملک کے 16 کارکنوں، وکیلوں اورماہرین تعلیم کو اس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ان میں سے 83سالہ جھارکھنڈ میں آدی واسی حقوق کے کارکن اورپادری اسٹین سوامی بھی شامل تھے، جن کا گزشتہ پانچ جولائی کو ممبئی کےاسپتال میں انتقال ہو گیا۔تمام سنگین بیماریوں کے باوجود انہیں ضمانت نہیں دی گئی تھی۔ این آئی اے نے انہیں پچھلے سال اکتوبر میں گرفتار کیا تھا، تب سے وہ جیل میں تھے۔
فرانس واقع میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکیورٹی لیب نے ان دستاویزوں کوحاصل کیا ہے، جسے انہوں نے دی وائر اور دنیا بھر کے 15دیگر میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ ایک مشترکہ تفتیش اور رپورٹنگ پروجیکٹ کے طور پر ساجھا کیا ہے۔
حملے کی سطح
ایلگارپریشد معاملے میں سیدھے طور پر ملزمین کے علاوہ گرفتار کیے گئے لوگوں کے ایک درجن سے زیادہ قریبی رشتہ دار، دوست، وکیل اور معاون اس نگرانی کے دائرے میں معلوم ہوتے ہیں۔دی وائر نے ان کےنمبر اور پہچان کی تصدیق کی ہے۔ ان میں سے اکثر سےمہاراشٹر کی پونے پولیس اور بعد میں2018 اور 2020 کے بیچ این آئی اے کے ذریعے پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔
لیک ہوئے ریکارڈ میں تیلگو شاعراورادیب ورورا راؤ کی بیٹی پونا، وکیل سریندر گاڈلنگ کی بیوی مینل گاڈلنگ، ان کےمعاون وکیل نہال سنگھ راٹھوڑ اور جگدیش میش رام، ان کے ایک سابق کلائنٹ ماروتی کرواٹکر(جنہیں یواے پی اے کے تحت کئی معاملوں میں ملزم بنایا تھا اور وہ چار سال سے زیادہ تک جیل میں رہے تھے اور بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے تھے) بھاردواج کی وکیل شالنی گیرا، تیلتمبڑے کے دوست جیسن کوپر، کیرل کے ایک کارکن، نکسلی تحریک کے دانشور اور بستر کی وکیل بیلا بھاٹیہ، ثقافتی حقوق کے اور کاسٹ مخالف کارکن ساگر گورکھے کی پارٹنر روپالی جادھو، آدی واسی حقوق کے کارکن مہیش راوت کے قریبی معاون اور وکیل لال سو ناگوٹی کے نمبر بھی شامل ہیں۔
اس فہرست میں ایلگار پریشد معاملے کےایک ملزم کےاہل خانہ کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔ حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ سائبر حملہ آور ان کے فون تک پہنچنے میں کامیاب رہے یا نہیں۔کیرل کے رہنے والے کوپر،جن پر کئی سال پہلے یواے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا، نے دی وائر کو بتایا کہ وہ جب بھی کیرل جاتے تھے تو تیلتمبڑے سے ملتے تھے۔
انہوں نے کہا،‘لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ پر یا تیلتمبڑے پر نگرانی کیوں رکھی جا رہی تھی۔ میں ایک کارکن ہوں، سماجی مدعوں پر کام کر رہا ہوں۔ میرا کام پوری طرح سے عوامی ہے۔’زیادہ تر لوگوں کی نگرانی کے لیےان کے نمبروں کو سال 2018 کے وسط میں چنا گیا تھا، جو کئی مہینوں تک جاری رہا۔ کچھ معاملوں میں ایسے لوگوں کو چنا گیا۔ جو اہم واقعات سے متعلق ہیں۔
مثال کے طور پر ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ کےحکم پر جب ورورا راؤ کو اگست 2018 میں نظربند رکھا گیا تھا، اسی وقت پونا کے نمبر پر نگرانی شروع کی گئی تھی۔ بعد میں پونے پولیس نے راؤ کو حراست میں لے لیا تھا۔ تقریباً27 مہینے جیل میں بتانے کے بعد 81 سالہ راؤ کو اس سال فروری میں مشروط ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔
بھاردواج، گونجالوس، سین اور فریرا کے معاملے میں ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے فون ضبط کیے جانے اور انہیں گرفتار کیے جانے کے مہینوں بعد بھی لیک ہوئے ڈیٹا میں ان کے فون نمبر دکھائی دیتے رہے ہیں۔
مثال کے طورپربھاردواج کو 28 اگست، 2018 کو نظربند کیا گیا تھا اور آخر میں26 اکتوبر، 2018 کو انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن لیک ہوئے ڈیٹا سےپتہ چلتا ہے کہ ان کی نظربندی اور پونے پولیس کے ذریعےان کا نمبر لیے جانے کے بعد تک ان کی نگرانی جاری رہی۔
دوسرےلفظوں میں کہیں تو ڈیجیٹل شواہد کے روپ میں فون لیے جانے کے بعد سیل کیا جاتا ہے اور اسے سوئچ آن نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بدلاؤ بھی ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے برابر مانا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مینل گاڈلنگ کا فون ان کے شوہر کی گرفتاری کےمہینوں بعد نگرانی کے لیے چنا گیا تھا۔ مینل گھریلو خاتون ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں ان کے شوہر کی قانونی اور سماجی سرگرمیوں کے بارے میں پتہ ہے، لیکن انہوں نے کبھی اس میں حصہ نہیں لیا ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘میں شاید ہی کبھی عوامی زندگی میں رہی ہوں۔ مجھے تعجب ہے کہ آخر مجھے کیوں نشانہ بنایا گیا۔’مینل کے اینڈرائیڈ ڈیوائس فون کا فارنسک تجزیہ فیصلہ کن نہیں نکلا اور یہ صاف نہیں ہے کہ ان کے فون کی جاسوسی کرنے کی کوشش کامیاب رہ پائی یا نہیں۔
اس مہینے کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے میساچوسیٹس کی ڈیجیٹل فارنسک کمپنی آرسینل کنسلٹنگ کے ذریعےکی گئی جانچ میں پتہ چلا تھا کہ ایلگار پریشد معاملے میں حراست میں لیے گئے 16لوگوں میں سے ایک وکیل سریندر گاڈلنگ کے کمپیوٹر کو 16 فروری 2016 سے ہیک کیا جا رہا تھا، جو کہ 20 مہینے سے زیادہ تک چلا تھا اور اس میں انہیں ملزم ٹھہرانے والے دستاویز پلانٹ کیے گئے تھے۔
اس فارنسک فرم کی یہ تیسری رپورٹ تھی۔اس سے پہلے کی دو رپورٹ آٹھ فروری2021 اور 27 مارچ 2021 کو شائع ہوئی تھیں، جو ایلگارپریشدمعاملے میں گاڈلنگ کے ساتھ گرفتار کارکن رونا ولسن کے لیپ ٹاپ سے جڑی تھیں، جس میں بتایا گیا تھا کہ ولسن کی تقریباً 22 مہینے نگرانی کی گئی تھی۔
معاملے میں گرفتار کئی لوگوں کی نمائندگی کر رہے سینئروکیل مہر دیسائی نے کہا کہ اس سائبر حملے کو ‘معمولی نگرانی’ کے روپ میں نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘یہ نگرانی سے آگے کی بات ہے، یہ اصل میں فردکی زندگی میں دخل اندازی ہے۔ مالویئر اس شخص کے ڈیٹا اور زندگی پرکنٹرول پانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔’
دیسائی نے کہا کہ ڈیٹا تحفظ قانون نہیں ہونے کی وجہ سے عدالت میں ان معاملوں کادفاع کرنابرا خواب بن گیا ہے۔
معاملے میں جن دوسرے گواہوں سے پوچھ تاچھ کی گئی تھی، انہیں بھی اس طرح کی نگرانی کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں بستر کی آدی واسی حقوق کی کارکن سونی سوری، ان کے بھتیجےاورصحافی لنگارام کوڈوپی، بھاردواج کے قریبی قانونی معاون انکت گریوال، وکیل،کاسٹ مخالف کارکن اور پیپلس یونین فار سول لبرٹیز(پی یوسی ایل)کے چھتیس گڑھ کے ریاستی صدرڈگری پرساد چوہان اور شری رام کالج آف کامرس کے اسسٹنٹ پروفیسر راکیش رنجن شامل ہیں۔
کوڈوپی کو چھوڑکر باقی سبھی سے این آئی اے نے کئی گھنٹوں پوچھ تاچھ کی ہے۔
سوری کے فون کا فارنسک تجزیہ، جو ایک اینڈرائیڈ ڈیوائس تھا، بھی فیصلہ کن نہیں نکلا اور یہ صاف نہیں ہے کہ ان کے فون کی جاسوسی کرنے کی کوشش کامیاب رہی یا نہیں۔سوری نے دی وائر کو بتایا کہ این آئی اے کی ایک ٹیم 2020 کے وسط میں ان سے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے ممبئی سے جگدلپور گئی تھی۔
انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘لیکن میں کووڈ 19سے متاثر تھی اور باہر نکل نہیں سکتی تھی۔ این آئی اے فون کال پر مجھ سے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔’سوری کےمطابق، این آئی اےافسر چاہتے تھے کہ وہ سدھا بھاردواج کے بارے میں خصوصی جانکاری دیں، جس میں ان کی قربت اور مختلف تحریکات میں شامل ہونے کے بارے میں بتایا جائے۔
سوری سے پونے کے شنیوارواڑا علاقے میں31 دسمبر، 2017 کو منعقد ایلگار پریشدپروگرام میں حصہ لینے کی وجہ کے بارے میں بھی پوچھ تاچھ کی گئی تھی۔‘برہمنوادی ریاستی نظام’کی مخالفت میں منعقد اس پروگرام میں ملک بھر سے کئی سیاسی مفکرین ، فن کاروں اورماہرین تعلیم نےحصہ لیا تھا۔
اس میں شامل ہونے والے سدھیر دھاولے، جیوتی جگتاپ، ساگر گورکھے، رمیش گائیچور جیسے کچھ لوگوں کو بعد میں حراست میں لیا گیا اور اب وہ جیل میں ہیں۔
اکتوبر2019 میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے منک اسکول آف گلوبل افیئرس اینڈ پبلک پالیسی میں واقع ایک لیب ‘سٹیزن لیب’نے 120 سے زیادہ انسانی حقوق کے محافظوں کی ایک فہرست جاری کی تھی، جو ہندوستان میں نگرانی کے لیے پیگاسس کے ممکنہ ہدف تھے۔
ویسے تو اکثر صوبوں اورمرکزی حکومت نے معاملے پر چپی بنائے رکھی، لیکن کانگریس کی قیادت والی چھتیس گڑھ سرکار نے ان الزامات کی جانچ کے لیے ایک پینل کا قیام کیا تھا۔اس وقت عوامی کی گئی فہرست میں صوبے کے کچھ کارکنوں کے ناموں کا ذکر تھا۔ الزام ہے کہ این ایس او کے نمائندوں نے صوبے میں بی جے پی سرکار کے سابق عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔
چھتیس گڑھ سرکار کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جانچ میں ضروری سنجیدگی کا فقدان تھا اور بعد میں عوامی رابطہ کے اس وقت کے ڈائریکٹر اور اب راجناندگاؤں ضلع کے کلکٹر ترن سنہا کے پیش پینل رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سٹیزن لیب کے ذریعے کیے گئے دعووں میں ‘کچھ بھی اہم’ نہیں پایا گیا۔
سبھی ریاستی محکموں کو الزامات پر غور کرنے اور پینل کو رپورٹ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہر محکمہ نے دعویٰ کیا کہ یہ ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں ملا کہ اسرائیل کے این ایس او گروپ اور ریاستی سرکار کی کوئی بیٹھک ہوئی تھی۔