پیگاسس پروجیکٹ:ریکارڈس دکھاتے ہیں کہ 2019 میں کرناٹک میں کانگریس-جے ڈی ایس گٹھ بندھن کی سرکار گرنے سے پہلے سابق نائب وزیراعلیٰ جی پرمیشور اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی اور وزیر اعلیٰ سدھارمیا کے پرسنل سکریٹریوں کے فون نمبر کو ممکنہ ہیکنگ کے ٹارگیٹ کےطورپر چنا گیا تھا۔
نئی دہلی: اسرائیل کےاین ایس اوگروپ کےنامعلوم ہندوستانی کلائنٹ کی دلچسپی والے فون نمبروں کے ریکارڈ کی دی وائر کے ذریعےکیے گئےتجزیے میں سامنے آیا ہے کہ کرناٹک میں اپوزیشن کی حکومت گرنے سے پہلےسابق نائب وزیراعلیٰ جی پرمیشور اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی اور سابق وزیر اعلیٰ سدھارمیا کے پرسنل سکریٹریوں کے فون نمبر کو ممکنہ ہیکنگ کے لیے ٹارگیٹ کے طور پرچنا گیا تھا۔
یہ نمبرفرانس کی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز کے ذریعےحاصل کردہ اور پیگاسس پروجیکٹ کے تحت کام کر رہے کئی انٹرنیشنل میڈیا اداروں کے ساتھ ساجھا کیے گئے ڈیٹابیس کا حصہ ہیں۔
ریکارڈس دکھاتے ہیں کہ سینئررہنماؤں کےنمبروں کو تب چنا گیا تھا جب سال 2019 میں کمار سوامی کی قیادت والی جےڈی ایس-کانگریس گٹھ بندھن کی سرکار اور بی جے پی کے اقتدارکی کھینچ تان چل رہی تھی اور مقتدرہ گٹھ بندھن کے 17ایم ایل اے نے اچانک استعفیٰ دےکراسمبلی کو اعتماد کے ووٹنگ کے لیے مجبور کر دیا۔
اتفاق سےیہ وہی وقت تھا جب راہل گاندھی نے اپنا پرانا نمبر،جو 2018 سے اسپائی ویئر کے نشانے والی فہرست میں تھا، کو بدل کر نیا نمبر استعمال کرنا شروع کیا تھا اور اسے بھی نشانے پر لیا گیا۔
فارنسک جانچ کے بنا یہ بتانا مشکل ہے کہ کرناٹک کی سیاست سےوابستہ نمبر والے فون میں اسپائی ویئرکامیابی کے ساتھ ڈالا گیا یا یہ ہیکنگ کی کوشش کا نشانہ بنے۔
حالانکہ سرولانس کے لیے ممکنہ امیدواروں کے طورپر ان کے انتخاب کاوقت اہم ہے، کیونکہ اقتدار کی کھینچ تان کے دوران کانگریس اور جےڈی ایس نے الزام لگایا تھا کہ مرکزی حکومت کے ذریعےفعال طریقے سےبی جے پی ان کی پارٹی کے ایم ایل اےکو خریدکر ان کے اتحاد کی سرکار گرانے کی کوشش کر رہی تھی۔
حالانکہ بی جے پی نے ان الزامات کی تردید کی تھی،لیکن یہ سچائی ہے کہ سبھی باغی ایم ایل اے، جنہیں نااہل قرار دیا گیا تھا، بعد میں بی جے پی میں شامل ہو گئے اور کمار سوامی سرکار گرنے کے بعد ہوئےضمنی انتخاب میں امیدوار کے بطور اتارے گئے۔
دی وائرنےلیک ہوئے ڈیٹا کےتجزیےمیں پایا کہ 2019 کے وسط میں کمارسوامی کے نجی سکریٹری ستیش سے جڑے دو نمبروں کو ممکنہ نگرانی کے لیے چنا گیا تھا۔یہ وہی وقت تھا جب کانگریس-جےڈی ایس باغی ایم ایل اے کو منانے کی کوشش میں لگی تھیں۔
جب دی وائر نے انہیں اس بارے میں جانکاری دی، تب انہوں نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے منع کر دیا۔ حالانکہ انہوں نے یہ تصدیق کی کہ لیک ہوئے ڈیٹابیس میں ملا نمبر 2019 میں ان کے ذریعےاستعمال کیا گیا تھا۔
اسی دوران کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ سدھارمیا کے پرسنل سکریٹری وینکٹیش کے فون نمبر کو بھی چنا گیا تھا۔سابق وزیر اعلیٰ کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ سدھارمیا کئی سالوں سے کوئی نجی فون استعمال نہیں کرتے ہیں اور بات چیت وغیرہ کے لیے ان کے قریبی لوگوں کے فون پر منحصر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پر اس لسٹ میں وینکٹیش کے نمبر کا پایا جانا بےحداہم ہے۔
سدھارمیا کے ساتھ 27سالوں سے زیادہ وقت سے کام کر رہے وینکٹیش نے دی وائر سے تصدیق کی ہے کہ لیک ڈیٹابیس میں پائے گئے نمبر کو وہ استعمال کرتے تھے، ساتھ ہی ممکنہ نگرانی کو لے کر انہوں نے حیرانی بھی ظاہر کی۔
انہوں نے کہا، ‘میں نہیں جانتا کہ میرا فون جاسوسی کے لیے نشانے پر تھا۔ میں بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کچھ غیر قانونی نہیں کیا ہے۔ اگر آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ سچ ہے تو یہ غلط ہے اور میں اسے لےکرشدید احتجاج ظاہر کرتا ہوں۔’
حالانکہ انہوں نے پرائیویسی کا حوالہ دیتے ہوئے دی وائر کے ان کے فون کی فارنسک جانچ کروانے کی تجویز سے انکار کر دیا۔دلچسپ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ اور جےڈی ایس کے سربراہ ایچ ڈی دیوگوڑا کی سیکیورٹی میں لگے ایک پولیس اہلکار منجوناتھ مڈیگوڑا کا نمبر بھی لیک ہوئے ریکارڈس میں شامل ہے۔
دی وائر کے رابطہ کیے جانے پرانہوں نے اس بارے میں بات کرنے سےمنع کر دیا۔ ان کے نمبر کو 2019 کے وسط میں ممکنہ ٹارگیٹ کے طورپر چنا گیا تھا۔
اسی طریقے سے کانگریس کے نائب وزیر اعلیٰ جی پرمیشور کو بھی اسی سیاسی اٹھاپٹک کے بیچ ممکنہ نشانے کے طورپر چنا گیا تھا۔ دی وائر کےرابطہ کرنے پر انہوں نے تصدیق کی کہ وہ 2019 میں اس نمبر کا استعمال کر رہے تھے، لیکن کئی مہینوں سے اس کا استعمال کرنا بند کر دیا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کیا سوچتے ہیں کہ ان کا نمبر کیوں چنا گیا ہوگا، انہوں نے کہا، ‘مجھے اسپائی ویئر کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے، لیکن اگر جیسا آپ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسے سرولانس کے لیے چنا گیا تو مجھے نہیں پتہ کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ میں اس وقت کسی پالیٹکل مینجمنٹ میں شامل نہیں تھا۔ نہ ہی میں اس وقت ریاستی کانگریس کمیٹی کا صدر تھا۔’
غورطلب ہے کہ مئی 2018 میں بنی کانگریس-جےڈی ایس سرکار 14 مہینے بعد جولائی 2019 میں لمبے سیاسی گھماسان کے بعد گر گئی تھی۔اسمبلی میں ہوئے اعتماد کی ووٹنگ میں بی جے پی کے 105 ووٹوں کے مقابلے کانگریس-جےڈی ایس کو صرف99 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
(سکنیا شانتا کے ان پٹ کے ساتھ)