پیگاسس پروجیکٹ: دی وائر کو ملے لیک نمبروں کے ڈیٹابیس میں مرکزی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والے ایسے لوگوں کے نمبر درج ہیں، جن پر ممکنہ سرولانس کامنصوبہ بنایاگیا تھا۔
نئی دہلی: پیگاسس پروجیکٹ کے ذریعےحاصل لیک ہوئے ڈیٹابیس میں ایسے کئی کاسٹ مخالف اورمعروف سماجی کارکنوں کے نمبر شامل ہیں، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےنگرانی کیے جانے کاامکان ہے۔
اس میں امبیڈکرکے پیروکار اور سماجی کارکن اشوک بھارتی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کےطالبعلم عمر خالد،انربان بھٹاچاریہ اور بنوجیوتسنا لاہری،نکسل متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی بیلا بھاٹیہ، ریلوے یونین کے رہنما شیو گوپال مشرا، دہلی واقع مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والےانجنی کمار، کوئلہ کان کنی کی مخالفت کرنے والے کارکن آلوک شکلا، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر سروج گری، بستر کے کارکن شبھرانشو چودھری اور جھارکھنڈ کی اپسا شتاکشی کے نمبر شامل ہیں۔
حالانکہ بنا ڈیجیٹل فارنسکس کے یہ بتا پانا مشکل ہے کہ ان کے فون کو ہیک کیا گیا تھا یا نہیں۔ لیکن فہرست میں ان کا نام ہونا یہ دکھاتا ہے کہ این ایس او گروپ کے نامعلوم کلائنٹ نے ان پر نظر بنانے کی تیاری کی تھی۔
این ایس او کا کہنا ہے کہ وہ اپنا اسپائی ویئر صرف ‘سرکاروں’ کو ہی بیچتے ہیں، جبکہ مودی سرکار نےابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ انہوں نے پیگاسس خریدا ہے یا نہیں۔
آل انڈین امبیڈکر مہاسبھا کے اشوک بھارتی نے ایس سی/ایس ٹی قانون کے بارے میں سپریم کورٹ کے ذریعےدیے گئے ایک فیصلے کے خلاف دو اپریل 2018 کو بھارت بند کا انعقادکرایا تھا۔ اس کے کچھ مہینے بعد انہوں نے نو اگست کو بھی ایک ملک گیر دھرنے کے لیے اپیل کی تھی۔ اسی دوران ان کے نمبر کو نگرانی کے لیےممکنہ نشانے کے طورپر چنا گیا۔
جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ حیران نہیں ہیں کہ ان کا نمبر اس فہرست میں ہے۔
بھارتی نے کہا، ‘لوک سبھا کے ذریعےانسداد مظالم ایکٹ میں ترمیم کو پاس کرنے کے بعد ہم نے 9 اگست کو ہڑتال واپس لے لی تھی۔ اس کے فوراً بعد میں نے آئندہ مدھیہ پردیش انتخابات میں کچھ سیٹوں پر انتخاب لڑنے کے لیے اپنی سیاسی تنظیم ، جن سمان پارٹی، کو تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔’
سال2019 میں وہاٹس ایپ نے بتایا تھا کہ چار کارکن سروج گری، بیلا بھاٹیہ، آلوک شکلا اور شبھرانشو چودھری پیگاسس حملے سے متاثر ہوئے تھے۔ وہاٹس ایپ نے اس کے خلاف امریکہ میں کیس دائر کر رکھا ہے۔
اس فہرست میں سبھی لوگ سال 2017 سے 2019 تک نگرانی کے لیےممکنہ ٹارگیٹ تھے۔
وہیں جے این یو کے سابق طالبعلم بنوجیوتسنا اور انربان نے دی وائر سے کہا کہ احتجاج کی آواز کودبانے کے لیے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نام نگرانی فہرست میں درج ہیں۔
انربان کہا، ‘یہ سب اتنے چونکانے والے معاملے ہیں، پھر بھی لوگ چونک نہیں رہے ہیں۔ ان دنوں اس ملک کی جمہوریت کی یہ سطح ہو گئی ہے۔ پرامن احتجاج اور آواز اٹھانے کے لیےیہ قیمت چکانی پڑتی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ان کے دوست عمر خالد کو مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے لیے جیل میں ڈالا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،‘جہاں تک جے این یو سیڈیشن معاملے کا سوال ہے، ہم نے قانون کےساتھ مکمل تعاون کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں اور یہاں تک کہ سرکار بھی جانتی ہے کہ وقت آنے پر قانون ہماری بےگناہی ثابت کرےگا اور بے نقاب کرےگا کہ کیسے یہ سب احتجاج کی آواز دبانے کی ایک چال تھی۔’
اسی طرح بنوجیوتسنا نے کہا، ‘ہم ہیٹ کرائم ، ماب لنچنگ اور فرقہ وارانہ تشددکے واقعات پر نظر رکھ رہے تھے۔ اس دوران ہم نے متاثرین کے لگ بھگ تمام گھروالوں سے ملنے کے لیےسفر کیا اور کئی لوگوں کو قانونی مدد بھی فراہم کی۔’
انہوں نے پرائیویسی کے حق پر سال 2017 کے سپریم کورٹ کےتاریخی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اتنے اہم فیصلے کے بعد بھی اقتدار کی نظر میں پرا ئیویسی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
نکسل متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی کارکن بیلا بھاٹیہ نے دی وائر کو بتایا کہ وہ لمبےوقت سے ماؤنوازتحریک پر کام کر رہی ہیں، جہاں بستر جیسی جگہوں پر انہیں ایک محقق کے بجائے ایک ہیومن رائٹس کارکن،قلمکار اور وکیل کے طور پر کام کرنا ہوتا ہے۔ ایسی جگہوں پرانسانی حقوق کی پامالیوں بالخصوص فرضی انکاؤنٹر،جنسی استحصال اور من مانی گرفتاری کے معاملے آئے دن سامنے آتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘میرے موکل ان دوردرازعلاقوں کے زیادہ تر غریب آدی واسی ہیں جو سنگین معاملوں میں پھنسائے گئے ہیں، کئی پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اس لیے نکسلی کسی نہ کسی طرح اب 25 سال سے میری زندگی کا حصہ ہیں۔’
وہیں سروج گری نے کہا کہ ان کےنظریات کے بارے میں لوگوں کو پتہ ہے اور وہ یہ جان کر حیران ہیں کہ ان کا بھی نام نگرانی فہرست میں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تحریکوں میں حصہ لیتا رہا ہوں اور پولیس اور اقتدار کی زیادتیوں کے خلاف آواز بھی اٹھائی ہے۔ میں اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا حصہ تھا جس نے مغربی بنگال سرکار کی پولیس کارروائیوں کی جانچ کی تھی۔ ساتھ ہی گڑگاؤں کے مانیسر کے مزدورتحریک کا حصہ رہا ہوں۔’
بستر میں کمیونٹی ریڈیو چلانے والے شبھرانشو چودھری نے کہا کہ یہ شدید طور پرقابل اعتراض ہے کہ شہریوں کے فون پر نگرانی کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا، ‘میرایہ ماننا ہے کہ اگرآپ بستر جیسی جگہوں پر امن وامان قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تو آپ کو سرکار اور ماؤنواز دونوں کی جانب سے نشانہ بنایا جائےگا۔’
اسی طرح چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن کے آلوک شکلا کا ماننا ہے کہ ان کی فعالیت کی وجہ سے ان پر نگرانی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالخصوص تب جب وہ اڈانی گروپ کے ذریعےکوئلہ کان کنی کی مخالفت کر رہے ہیں۔