خبریں

ممکنہ سرولانس کے نشانے پر تھے دنیا بھر کے چودہ رہنما

پیگاسس پروجیکٹ: این ایس او گروپ کے کلائنٹ-ممالک  کے ذریعے استعمال کیے گئے فون نمبروں کا لیک ڈیٹا بتاتا ہے کہ کم از کم ایک شاہی خاندان کے سربراہ اور موجودہ وقت کے تین صدر اور  تین وزرائے اعظم  کو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہونے والی ممکنہ ہیکنگ کے لیے چنا گیا تھا۔

(بائیں سے) برہم صالح، سرل رامافوسا، ایمانویل میکخواں ، عمران خان۔ (السٹریشن: دی وائر)

(بائیں سے) برہم صالح، سرل رامافوسا، ایمانویل میکخواں ، عمران خان۔ (السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی:این ایس او گروپ کے کلائنٹ-ممالک کے ذریعےاستعمال کیے گئے پچاس ہزار فون نمبروں کا لیک ڈیٹابیس بتاتا ہے کہ فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا سمیت کم ازکم 14 ممالک یا سرکاروں کےسربراہان مملکت کو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہیکنگ کے ممکنہ نشانے کے طور پر چنا گیا تھا۔

پیگاسس بنانے والااین ایس او گروپ، جو دنیا کے تقریباً 36ممالک کو اپناکلائنٹ  بتاتا ہے، کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹابیس کا کمپنی،اسپائی ویئر یا کمپنی کے کلائنٹس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

حالانکہ فرانس کی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے حاصل کیے گئے ان فون نمبروں کے چھوٹے سے حصہ کا پیگاسس پروجیکٹ کےتحت کام کر رہے دی وائر اور کئی بین الاقوامی  میڈیااداروں کے  ذریعےفارنسک ٹیسٹ  کروایا گیا تھا، جس میں37 فون میں اس مہلک  اسپائی ویئر کے نشان ملے ہیں۔

پیگاسس پروجیکٹ کی جانب سے بھیجی گئی فہرست  کے جواب میں گزشتہ منگل کی  شام کو بھیجے گئے ایک نئے بیان میں کمپنی نے کہا، ‘ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ آپ کی پوچھ تاچھ میں شامل کم از کم تین نام ایمانویل میکخواں، کنگ محمدششم اورڈبلیو ایچ اوکے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈنوم گیبریس کمپنی کے کلائنٹ کے ٹارگیٹ یا چنے ہوئے نشانوں میں نہ ہیں، نہ کبھی رہے ہیں۔’

اب تک دی  وائر اور اس کے میڈیا پارٹنروں نے بتایا ہے کہ کس طرح پیگاسس اسپائی ویئر کی مدد سےہندوستان  اور دیگر جگہوں پر صحافیوں  کے علاوہ قتل کر دیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی  بیوی  سے لےکر ہندوستانی اپوزیشن رہنما اور روانڈا کے مخالفین  کو جاسوسی کے لیے نشانہ بنایا گیا۔

حالانکہ اب اس فہرست میں سامنے آئے نئے نام دکھاتے ہیں کہ دنیا کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدیداروں کئی ممالک  کی نامعلوم  سرکاری ایجنسیوں کی دلچسپی کے دائرے میں رہے ہیں۔

جیسا کہ پیگاسس پروجیکٹ کی شروعات میں بتایا گیا تھا، دی وائر ان نمبروں کی پہچان کا انکشاف نہیں کرےگا جو دہشت گردی  کے مقابلے یا ملکوں کی جاسوسی سے جڑے معلوم  ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے پارٹنرس کے ساتھ دی وائر کئی ممالک  کے موجودہ  اور سابق سربراہوں  کی ممکنہ جاسوسی کی کوششوں کے بارے میں بتا رہا ہے۔

لیک ڈیٹابیس میں کم از کم ایک بادشاہ- مراکش کے کنگ محمدششم، موجودہ وقت میں کام  کر رہے تین صدر فرانس کےایمانویل میکخواں، عراق کے برہم صالح اورجنوبی افریقہ کے سرل رامافوسا اور تین وزرائےاعظم پاکستان کے عمران خان، مصر کے مصطفی مڈبولی اورمراکش  کے سعد الدین عثمانی کے فون نمبر شامل ہیں۔

ان کے علاوہ سات ایسےسابق رہنما ہیں، جن کا انتخاب تب کیا گیا تھا جب وہ  عہدے پر تھے۔ ان میں لبنان کے سعد حریری، یوگانڈا کے روہکانہ رگونڈا، الجیریا کے نوریدائن بیدو اور بیلجیئم کے چارلس مشیل شامل ہیں۔

پیگاسس ایک ایڈوانسڈاسپائی ویئر ہے، جو ملٹری گریڈ ٹکنالوجی سے لیس ہے، اور اگر اسے کسی اسمارٹ فون میں ڈال دیا جائے تو یہ اس فون کے فون، مائیکروفون، کال،پیغامات جیسے دیگر ڈیٹا کو بھی ایکسیس کر سکتا ہے۔ اسے کسی غلط لنک یا پھر ‘زیرو کلک’ اٹیک کے توسط سے ٹارگیٹ فون میں پہنچایا جا سکتا ہے۔

پیگاسس پروجیکٹ کو بھیجے گئے ایک مفصل جواب میں این ایس او گروپ نے کہا ہے کہ ‘وہ اپنے اسپائی ویئر کو صرف‘سرکاروں’ کو بیچتا ہے اور اس کے پاس اپنے کلائنٹس کے ‘ٹارگیٹ’ کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔

کمپنی نے باربارکہا ہے کہ اس کےاسپائی ویئر کا استعمال صرف دہشت گردی  اورجرائم کے خلاف کیا جاتا ہے اور اس نے اپنی خدمات کو ‘زندگی بچانے والے مشن’کے طور پر پیش  کیا ہے۔

فارنسک جانچ کے بنا یہ بتاناممکن نہیں ہے کہ ان نمبر والے فون میں اسپائی ویئر کامیابی کے ساتھ ڈالا گیا یا نہیں۔ ان میں سے کسی بھی شخص کے فون کی فارنسک جانچ نہیں کی جا سکی ہے۔ لیک ڈیٹابیس میں ان نمبروں کا ملنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ یہ کامیابی کے ساتھ نگرانی کے دائرے میں تھے۔ اس بارے میں متاثرہ  ڈیوائس کی فارنسک جانچ کے بعد ہی یقینی طور پرنتائج دیے جا سکتے ہیں۔

حالانکہ این ایس اوگروپ کے کلائنٹ کی فہرست میں ان نمبروں کا ہونا یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ ان میں این ایس او کی کلائنٹ نامعلوم  ایجنسیوں کی دلچسپی تھی اور یہ ممکنہ سرولانس کا نشانہ تھے۔

اس ڈیٹابیس میں پہچان کیے گئے عالمی رہنماؤں میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا نام بھی ہے، وہ ایسےواحدرہنما ہیں جن کے دو نمبر اس فہرست میں تھے۔

فرانس کے صدربھی2019 میں افریقہ کادورہ شروع کرنے سے ٹھیک پہلے 10000 سے زیادہ مراکش نشانوں کی فہرست میں شامل تھے۔

پیگاسس پروجیکٹ کے فرانسیسی ممبر لموند کو بھیجے اپنے ایک بیان میں صدر دفتر نے کہا، ‘اگر یہ بات درست ہے تو یہ صاف طور پر کافی سنگین ہے۔میڈیا کے ان انکشافات  پر روشنی ڈالی جائےگی۔ فرانس کے کچھ متاثرین نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں شکایت درج کروائیں گے اور اس کےلیے قانونی جانچ شروع کی جائےگی۔’

ممکنہ نگرانی فہرست میں ڈبلیوایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کا نام شامل ہے۔ اس میں مراکش کے کنگ محمد ششم  اور وزیر اعظم عثمانی  کا نمبر بھی ہے، جسےممکنہ مراکش کے سیکیورٹی فورسزکے ذریعےچنا گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مراکش نے 2019 میں امریکہ-ایران سودے پر ایک سابق چیف مذاکرات کار رابرٹ مالے میں بھی دلچسپی دکھائی تھی۔ حالانکہ این ایس او نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے سرکاری کلائنٹ کو تکنیکی طورپرامریکی فون نمبروں کی جاسوسی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

کل ملاکر لیک ہوئے ڈیٹابیس میں 34 ممالک کے 600 سے زیادہ سرکاری عہدیداروں  اور سیاستدانوں کے فون نمبر ہیں۔

جاسوسی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے مراکش نے ‘غلط الزامات’کی اشاعت پر ‘شدید حیرانی ’ کا اظہار کیا کہ اس نے کئی قومی  اور غیرملکی عوامی  ہستیوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے عہدیداروں  کے ٹیلی فون میں دراندازی کی ہے۔ ان کے بیان میں کہا گیا، ‘مراکشن  قانون کی حکومت کے ذریعے مقتدرہ ایک ملک ہے، جو آئین  کے ذریعےذاتی مکالمہ  کی رازداری کی گارنٹی دیتا ہے۔’

سوموارکو دی گارڈین نے بتایا تھا کہ ڈیٹابیس میں ایک نام ہندوستان  کے پڑوسی ملک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ہے۔ ریکارڈس کی مانیں تو ان کا نمبر سال 2017-2019 کے بیچ والے ہندوستانی  نمبروں کی فہرست میں 2019 کے وسط میں جوڑا گیا تھا۔ حکومت ہند نے ڈیٹابیس میں ملے کسی بھی نمبر پر سرولانس رکھنے کی بات سے انکار کیا ہے۔

یہ ایک حساس وقت  تھا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان نے 2019 کی شروعات میں آپس میں ہوائی حملے کیے تھے،دونوں طرف کشیدگی  بڑھ گئی  تھی اور سیاسی رشتوں میں گراوٹ آئی تھی۔ 26 فروری کو ہندوستانی فضائیہ  کے طیاروں نے خیبرپختونخواکے بالا کوٹ میں مبینہ دہشت گردوں کے کیمپ  پر حملہ کیا تھا، جس کے ایک دن بعد پاکستانی ہندوستانی خطے میں داخل ہوئے تھے۔

دنیا بھر میں ایٹمی طاقت رکھنے والے دو پڑوسیوں کے بیچ فوجی تصادم کے خطرے کو دیکھتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے امریکہ، یونائٹیڈ کنگڈم اور سعودی عرب اور یو اے ای سمیت اہم خلیجی ممالک  نے دخل اندازی  کی تھی۔

لیک ریکارڈس کے مطابق، عراق کے صدر برہم صالح سے جڑا فون نمبر 2018 اور 2019 کے دوران کے متحدہ عرب امارات اور سعودی کےنمبروں کےغلبہ والے لیک ڈیٹابیس کےدو الگ الگ گروپ  میں ملا ہے۔ پیگاسس پروجیکٹ کی جانب سے بھیجے گئے سوالوں پر دونوں ہی عرب ممالک  کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

اسی طرح جنوبی افریقہ کے صدر سرل راما فوسا کا نمبر روانڈا کے اکثر فون نمبروں کے گروپ  میں تھا۔

پیگاسس پروجیکٹ کو بھیجے جواب میں روانڈا نے پیگاسس کے استعمال سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا، ‘یہ جھوٹے الزام روانڈا اور دیگرممالک کے بیچ تناؤ پیدا کرنے اور گھریلو و بین الاقوامی  سطح پر روانڈا کے بارے میں غلط جانکاری پھیلانے کے لیے چل رہی مہم کا حصہ ہیں۔ بہت ہو چکا، یہ جھوٹ کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش ہے۔’

ان کے علاوہ پیگاسس پروجیکٹ نے ایسے چھ سابق وزرائے اعظم اور صدرکے نمبروں کی بھی پہچان کی ہے، جنہیں عہدہ پر رہتے ہوئے نگرانی والی اس فہرست میں رکھا گیا تھا۔ ان میں بیلجیئم کے چارلس مشیل، فرانس کے ایڈوارڈ فلپ، لبنان کے سعدحریری، یمن کے احمدعبید بن غر اور الجیریا کے بیدو شامل ہیں۔

ریکارڈس میں ایسے سابق رہنماؤں کے بھی نام بھی ہیں، جو ان کے دفترچھوڑنے کے بعد نگرانی کے لیے ممکنہ ہدف  ہو سکتے تھے۔

حالانکہ صحافی صرف آذربائجان کے سابق وزیر اعظم پنہ حسینوف اور میکسکو کے سابق صدر فلپ کالڈیروں کے نمبروں کی تصدیق کر سکے، جو ممکنہ طور پر انہی کے ملک کے این ایس او گروپ کے کلائنٹ کی دلچسپی کے دائرے میں تھے۔

میکسکو کے 63ویں صدر کے معاملے میں انہیں شاید ان کی بیوی  کے صدارتی انتخاب میں کھڑے ہونے کے سلسلے میں نگرانی کی اس لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ آخرکار ان کی بیوی نے اپنی امیدواری واپس لے لی تھی۔

پیگاسس پروجیکٹ کے ایک ممبر کی جانب سے بھیجے گئے سوال پر ردعمل دیتے ہوئے سابق صدرنے کہا کہ وہ اس پر حیران نہیں ہیں، لیکن یہ‘آزادی اور رازداری  کے بنیادی عناصر اورانسانی وقار کےبنیادی گارنٹی کی نامناسب خلاف ورزی ہے۔’

انہوں نے کہا،‘کسی بھی معاملے میں یہ قابل قبول نہیں ہے، یہ ایک جابرانہ علامت  ہے جو تاناشاہی اور غیرجمہوری کاموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہ آخری بار بھی نہیں ہے کہ میری جاسوسی کی گئی۔ ایک دوسرے موقع پر نام نہاد وکی لیکس نے انکشاف کیا تھا کہ میں امریکہ کے ذریعے جاسوسی کے نشانے پر تھا۔’