صحافتی ادارے اپنے وسائل کی وجہ سےمحدود ہوتے ہیں، اس لیے قومی اورعالمی سطحوں پرصرف حقیقی جانچ سے ہی پیگاسس کے استعمال کی صحیح سطح کا پتہ چلےگا۔
نئی دہلی:اپوزیشن پارٹیوں نے پیگاسس معاملے پر مرکزی حکومت کو گھیرنے کے لیےاتحادکامظاہرہ کیا ہے، لیکن بی جے پی ابھی بھی شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے ہوئی ہے۔ پارٹی یہ دلیل دے رہی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر معاملہ ‘فرضی’ ہے۔ ایسا تب ہو رہا ہے جب دنیا کے تمام ذمہ دار جمہوری ملک اسرائیل اور پیگاسس بنانے والے این ایس او گروپ پر دباؤ بناتے ہوئے عالمی انکشافات پر ان سے جواب طلب کر رہے ہیں۔
یہاں تک کہ خود اسرائیل نےبھی حال ہی میں این ایس او کا دورہ کیا تھا۔
نریندرمودی سرکار اب عالمی جمہوریتوں کے بیچ پوری طرح سے الگ تھلگ دکھ رہی ہے، کیونکہ اس نے پیگاسس کی وجہ سےانسانی حقوق اور جمہوریت پر حملے کے خدشات کو لےکر ایک بھی معاملہ نہیں اٹھایا ہے۔
اسے‘فرضی معاملہ’کہنے سےکوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ عالمی سطح پر عدالتیں اس معاملے کانوٹس لے رہی ہیں۔اصل میں ہندوستان چپ چاپ اسرائیلی کمپنی کے ساتھ کھڑا ہے، جس کی امیج اچھی نہیں ہے۔
اسرائیلی سرکارخودیہ کہنے کے لیے عالمی دباؤ میں آ گئی ہے کہ وہ سرکاروں کے ذریعےاسپائی ویئر کےممکنہ غلط استعمال کے معاملے کی جانچ کرےگی۔اسرائیل جواب دینے کے لیےمجبور ہے کیونکہ ملٹری گریڈ کےاسپائی ویئر اس کی سرکار کے ذریعے دیے گئے سخت ایکسپورٹ لائسنس کے تحت فروخت کیے جاتے ہیں۔
جہاں تک ہندوستان کا معاملہ ہے، تو یہاں آئین کے آرٹیکل 14،19اور 21 کے تحت پرائیویسی اور اظہار کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی مانگ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے۔
مودی سرکار کی جانب سے دی گئی ایک کمزور دلیل یہ ہے کہ پیگاسس پروجیکٹ کے تحت میڈیا میں جو نام عوامی ہوئے ہیں وہ ‘ممکنہ ٹارگیٹ’ تھے، پیگاسس سے ان کی نگرانی کرنے کی بات ثابت نہیں ہوئی ہے۔
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ٹورنٹو یونیورسٹی کی سٹیزن لیب کے ذریعےبنائے گئے پروٹوکال کے تحت ایمنسٹی سیکیورٹی لیب نے جتنے فون کی جانچ کی تھی، ان میں سے 50 فیصدی ہندوستانیوں پر پیگاسس کے ذریعے نگرانی ثابت ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مزید فون کی جانچ کی جا رہی ہے۔
کسی بھی عدالت میں اس ثبوت کو خارج نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ اسرائیل کے صحافی عمر کبیر،بی جے پی نے جن کی رپورٹ کا استعمال انکشافات کو خارج کرنے کے لیے کیا تھا، نے بھی ایمنسٹی کی فارنسک جانچ کی حمایت کی ہے، جس کے کام کرنے کے طریقے کو سٹیزن لیب نے منظوری دی ہے۔
بی جے پی نے شروع میں ہی لیک ہوئے ڈیٹا کو ‘فرضی’ بتانے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کومایوس کرتے ہوئے این ایس او گروپ نے فاربڈین اسٹوریز کو بھیجے ایک خط میں اس ڈیٹابیس کا نوٹس لیا، حالانکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس میں شامل سبھی نام پیگاسس کلائنٹ کے ذریعےہی چنے گئے ہوں، وہ‘دوسرے کاموں’ کے لیے بھی ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ کمپنی یہ نہیں بتایا کہ ‘دوسرے کام ’ کیا ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ این ایس او گروپ جس کا بنیادی کاروبارسائبر ہتھیار جیسی صلاحیتوں کےاسپائی ویئر کی فراہمی کرنا ہے، وہ اپنے کسی ہندوستانی کلائنٹ کو ایسی کیادیگر خدمات فراہم کر سکتی ہے جواپوزیشن رہنماؤں،صحافیوں، کارکنوں، فوج اورآئینی حکام کے نام بھیجتا ہے؟ یقینی طور پر اس خانے کے لوگوں کو صابن یا ٹوتھ پیسٹ خریدنے کے لیے این ایس او گروپ کے کسی ہندوستانی کلائنٹ کے ذریعے فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے!
قانونی طور پر لیک ہوا ڈیٹا ہی عالمی جانچ کا موضوع ہونا چاہیے۔ بھلے ہی ڈیٹابیس کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیگاسس متاثرہ ثابت ہو پایا ہے، اس بنیاد پر فطری طور پر پورے ڈیٹابیس کی جانچ کی جانی چاہیے۔ اس لیے ڈیٹا اپنے آپ میں ہی قانونی ماخذ موادکی شکل میں کافی اہم ہے۔
قومی اورعالمی دونوں سطحوں پر صرف حقیقی جانچ سے ہی پیگاسس کے استعمال کی صحیح سطح کا پتہ چلےگا۔ صحافتی ادارے اپنے وسائل کی وجہ سےمحدود ہوتے ہیں اور اس کے تفتیشی شواہد کی بنیادپر کسی بڑے جرم کااشارہ دیتے ہیں۔
قابل اعتماداور مضبوط ارادے والی سرکاروں سے اس معاملے کی جانچ کرنے کا چیلنج قبول کرنے امید کی جا رہی ہے، جوجمہوریت اور انسانی حقوق کی بنیاد کو ہی متاثر کرتا ہے۔ کئی جمہوری سرکاریں سہی قدم اٹھا رہی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار اپنے ہی چھوٹے سے بلبلے میں مطمئن ہے اور اسے ‘فیک نیوز’ قرار دے رہی ہے۔ یہ سرکار حقیقت سے اتنی دور ہے کہ اس نے ابھی تک یہ قبول نہیں کیا ہے کہ اس نے اسرائیلی کمپنی سے پیگاسس اسپائی ویئر خریدا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ کسی دن کوئی سیکیورٹی افسر ہندوستان کے پیگاسس کے استعمال کو لےکر انکشاف کر دےگا۔ اس کے استعمال کوتسلیم کرنے کاسچ سرکاری رازداری ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ سرکار نے خود پارلیامنٹ میں کہا ہے کہ کچھ ملک اسپائی ویئر کا استعمال کرتے ہیں، جواگر قانونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو یہ جرم نہیں ہوگا۔
بےشک بی جے پی کے روی شنکر پرساد بس اتنا ہی کہنے سے رک گئے تھے کہ ہندوستان نے بھی اسپائی ویئر کا استعمال کیا تھا، نہیں تو یہ ایک کھلا راز معلوم ہوتا ہے۔
بھلے ہی بی جے پی اس معاملے کو ملک میں دبا دے، لیکن عالمی سطح پر بات کافی آگے نکل چکی ہے۔ اسرائیل اور این ایس اوگروپ کے خلاف سیاسی اور قانونی دباؤ بڑھتا ہی جائےگا۔ جیسے جیسےعالمی سطح پر پیگاسس کے استعمال کو لےکر آوازیں بلند ہوں گی، ویسے ویسےوزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سرکار پرجمہوری ساکھ کے بادل پہلے سے کہیں زیادہ گھرتے جائیں گے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)