خبریں

انفارمیشن کمشنرکی جانب سے بی جے پی کے نظریے کو فروغ دینے والے ٹوئٹ پر آر ٹی آئی کارکن فکرمند

بنا درخواست دیے ہی سابق صحافی ادے مہر کر کی سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں تقرری ہوئی تھی۔ انہوں نے مودی ماڈل پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی تقرری کو لےکربھی تنازعہ ہوا تھا۔ حال کے دنوں میں مہر کر نے اپنے کچھ ٹوئٹس میں آر ایس ایس  اور بی جے پی کی پالیسیوں  کو لے کر اپنی حمایت کا اظہار کیاہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سینٹرل انفارمیشن کمشنر ادے مہرکر۔ (فوٹو: فیس بک)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سینٹرل انفارمیشن کمشنر ادے مہرکر۔ (فوٹو: فیس بک)

نئی دہلی:‘مودی ماڈل’پر دو کتابیں لکھنے والے صحافی  سے سینٹرل انفارمیشن کمشنر بنے ادے مہر کر ایک بار پھر سے تنازعات میں گھر گئے ہیں۔

ایک ایسےعہدے پر فائز ہونے کے باوجود، جہاں شفافیت کے لیے اعلیٰ سطح پرغیرجانبداری  برتنے کی ضرورت ہوتی ہے، حال کے دنوں میں انہوں نے کچھ ایسے ٹوئٹس کیے ہیں جو واضح طور پر انہیں اقتدارکا قریبی بناتے ہیں۔ اس تناظر میں اپوزیشن نے ان کی تقرری پر پھر سے سوال اٹھایا ہے۔

مہر کر نے اپنے ٹوئٹس میں آر ایس ایس جو کہ بی جے پی کی مربی تنظیم  ہے، کے لیے بھی اپنی حمایت کا اظہارکیاہے۔ انہوں نے گزشتہ26 جون کو ایک ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے آر ایس ایس چیف  موہن بھاگوت کے ان کے گھر آمد کی تصویریں شیئر کی تھیں۔

سینٹرل انفارمیشن کمشنر نے یہ بھی کہا تھا کہ بھاگوت سے ملنا ان کے لیےخوش قسمتی  کی بات تھی۔ پچھلے مہینے مہر کر نے آسام کے وزیر اعلیٰ  ہمنتا بسوا شرما کے اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے بھاگوت کی تعریف  کی تھی۔

پچھلے مہینے27 جولائی کو انہوں نے یکساں سول کوڈ پر بھی ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے ذکر کیا کہ پاکستان ‘ہندوستانی مسلمانوں’کو دیا گیا تھا۔

آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج نے اس معاملے پر دی وائر سے کہا، آر ٹی آئی  ایکٹ کے تحت لوگوں کے انفارمیشن  کے بنیادی حق کے تحفظ اور سہولت کے لیےانفارمیشن کمیشن  کا قیام کیا گیا ہے۔ انفارمیشن کمشنروں کو بڑے اختیاردیے گئے ہیں، جس میں سرکاری افسروں  کوشہریوں  کو جانکاری فراہم  کرنے کی ہدایت دینا شامل ہے، بھلے ہی سرکار مانگی گئی جانکاری کو ساجھا کرنے کی خواہش مند نہ ہو۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘اس لیے یہ اہم  ہے کہ کمشنرآزاد ہوں اور وہ کسی بھی سیاسی پارٹی ، بالخصوص مقتدرہ  پارٹی کے قریبی نہ ہوں۔ تاکہ وہ  بنا کسی ڈر یاجانبداری کے جانکاری حاصل کرنے کے لوگوں کےحق کو قائم رکھ سکیں۔نگرانی اورسرکاری کام کاج میں شفافیت کو یقینی بنانے والے ایک انفارمیشن کمشنر کے ذریعے کیے گئے یہ ٹوئٹ بےحدتشویش ناک  ہیں۔’

معلوم ہو کہ انفارمیشن کمشنر بنائے جانے سے پہلے ادے مہر کر انڈیا ٹو ڈے میگزین کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے۔ ریکارڈ کے مطابق،ان کا صحافت میں36 سالوں کا تجربہ ہے۔ سال 1983میں انڈین ایکسپریس کے سب ایڈیٹر کے طورپر کام شروع کرنے والے مہر کر نے ‘مودی ماڈل’پر دو کتابیں مارچنگ ود  بلین اور سینٹراسٹیج لکھی ہیں۔

سی آئی سی کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ مہر کر‘مودی ماڈل گورننس’میں ایکسپرٹ ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں میں پی ایم مودی کے وژن کو بخوبی دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں‘شدت پسند اسلامی تحریک  اور سماج پر اس کے اثرات ’جیسےموضوعات پر مہارت حاصل کرنے والا بتایا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ادے مہر کر کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے ‘انقلابی ویر ساورکر کو لےکر ایک نیا نیریٹو تیار کیا، جو کہ انہیں ہندوستان کی قومی سلامتی کے محافظ کے طور پرپیش کرتا ہے۔’

خاص بات یہ ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں مہر کر کی تقرری درخواست کیے بنا ہی ہوئی تھی۔

پچھلے سال نومبر مہینے میں چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنروں،جس میں سے ایک ادے مہر کر ہیں، کی تقرری ہوئی تھی۔

دی وائر نے رپورٹ کرکے بتایا تھا کہ کس طرح اس سے جڑے دستاویز دکھاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود سرچ کمیٹی نے بنا واضح  عمل اوراسٹینڈرڈ کے ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا اورانتخابی عمل میں من مانا رویہ برتا گیا تھا۔

چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنروں کی تقرری میں بے ضابطگیوں کا الزام  لگاتے ہوئےسلیکشن کمیٹی  کے ایک ممبر کانگریس رہنما ادھیر رنجن چودھری نے اپنا ڈی سینٹ نوٹ دیا تھا۔ چھ پیج کے اس خط  میں سرچ کمیٹی کے کام کرنے کےطریقے سمیت کئی بنیادی باتوں پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

چودھری نے اپنے خط  میں کہا تھا کہ آر ٹی آئی ایکٹ،2005 ایک بےحداہم  قانون ہے جو کہ سرکار میں جوابدہی اور شفافیت  کو یقینی بناتا ہے۔ اس لیے انفارمیشن کمیشن  میں بڑھتے زیر التوا معاملوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اہل انفارمیشن کمشنر کی تقرری کرنا اور اہم کام ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا، ‘لیکن جس طریقے سے سرچ کمیٹی نے کام کیا ہے، وہ محض خانہ پری  سے زیادہ  کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ آر ٹی آئی ایکٹ کے بنیادی مقصد کے ہی بالکل برعکس  ہے۔ یہ بےحد تشویش ناک ہے کہ سرچ کمیٹی اس بات کی  کوئی وجہ یا دلیل  نہیں دے پائی کہ کیوں دوسرے کے مقابلے شارٹ لسٹ کیے امیدوار زیادہ اہل  ہیں۔’

مہر کر کی تقرری کو لےکرحیرانی کا اظہارکرتے ہوئے ادھیر رنجن چودھری نے اپنے خط میں کہا تھا کہ آخر ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے درخواست  ہی نہ کی ہو اور اس کی تقرری کی سفارش کر دی جائے۔ ایسا کرنا درخواست  منگانے کے پورے مقصد کو ہی فوت کر دیتا ہے۔

اسے لےکر چودھری نے کہا کہ سرچ کمیٹی کا صدر ہونے کے ناطے کابینہ سکریٹری کو یہ بتانا چاہیے کہ آخر انہوں نے ادے مہر کر کا نام کیوں شارٹ لسٹ کیا، جبکہ یہ بالکل صاف ہےکہ وہ  مقتدرہ پارٹی اور اس کےنظریے  کے حامی  ہیں۔

پچھلے مہینے سپریم کورٹ میں بھی مہر کر کی تقرری کا مدعا اٹھا تھا، جب عدالت سی آئی سی میں زیر التوا تقرری کے معاملوں پرشنوائی کر رہی تھی۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)