وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دےکر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر انگیج کرکے ان کو باور کرایا جائے کہ ملک اور مدرسہ کو چلانے میں واضح فرق ہے۔
مجھے یاد ہے کہ دسمبر 2016میں پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر اسٹیج سے ہی پاکستان کی طرف سے 500ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اس سے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام لگانے کے لیے استعمال کریں۔
جس طرح کے تکبر کا مظاہرہ غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، شاید ہی سفارتی تاریخ میں اس کی مثال ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی ہندوستان نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، سرتاج عزیز کومیزبان ہندوستانی اور افغان مندوبین نے اچھوت بنا کر رکھ دیا تھا۔
سچ ہے کہ تکبر اور غرور کرنے والا دنیا میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ طالبان نے پیش قدمی کرکے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرلیا اس نے پوری دنیا کو حیران و پریشان کرکے تو رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی یہ فتح، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ان کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے انڈر کرنٹس کو پکڑنے میں یا تو ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکہ دیتے رہے۔ میڈیا کے تحقیقی ادراوں کو اس کا نوٹس لےکربطور مثال اس جانبدارانہ اور دھوکہ دینے والی رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کردینا چاہیے۔
دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔
خیر ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیموں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں ڈھ گئی۔ جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکہ ، ناٹو اتحادیوں اور ہندوستان نے کی تھی نے چند ہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے۔ افغانستان کے سابق وزیر داخلہ علی احمد جلالی کے مطابق آپریشنل اور ٹیکنیکل کوآرڈینیشن کی عدم موجودگی اور فوج کے اندر ہی اشرف غنی حکومت کے خلاف بڑھتی ناراضگی نے طالبان کا کام آسان کردیا۔
مشی گن یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی۔ ان کی کہنا تھا کہ جس طرح 2001میں شمالی اتحاد نے امریکہ کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، موجودہ افغان فوج جنگ میں ٹھہر نہیں پائے گی۔
ان کا استدلال تھا کہ دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزت کردیتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔
ان ہی آبادیوں سے طالبان کو نئے ریکروٹ بھی مل جاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ حامد کرزائی اور اشرف غنی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ کس طرح سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے ہیں، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں۔
اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلاب ثور کے ساتھ 1978میں شروع ہو گیا تھا، جس کے ایک سال بعد سویت فوجوں نے دھاوا بول دیا تھا، اب اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے43سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ہے۔
اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کرکے سفارتی سطح پر انگیج کریں۔ ابھی بھی چند دانشور اور مقتدر شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 23برس قبل 1998میں امریکہ کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کروادیا تھا۔ اس کے علاوہ طالبان نے ملک سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔
رائے گٹمیں اپنی کتاب ہاؤ وی مسڈ دی اسٹوری، اسامہ بن لادن، دی طالبان ، ایند دی یائی جیکنگ آف افغانستان میں رقم طراز ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور سیز فائر کرنے پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکہ سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔
پورے 20سال کی قتل و غارت گری اور 2.26ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکہ نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ اگر اسی پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا تھا، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کے اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائےگا؟
اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ 20سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب امریکہ کا رول ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے۔بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے مطابق امریکہ نے ایک طرح سے افغانستان کو چین کو پلیٹ میں سجا کر دیا ہے۔
چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر ملا عبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پر جوش استقبال کیا، اور اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔ حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔
سال 1989کے بعد روس افغانستان کے حوالے سے لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں یہ پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکہ اور ہندوستان سے فضائی مدد مانگی تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کیا۔
دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکہ اور ہندوستان تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائےگا۔ اس لیے آغاز میں امریکہ نے افغان فوج کو فضائی سپورٹ مہیا تو کروادیا تھا، مگر بعد میں اس کو روک دیا۔
اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ 1839میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لےکر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا گیا۔
حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔ 2001میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب اس کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دےکر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر انگیج کرکے ان کو باور کرایا جائے کہ ملک اور مدرسہ کو چلانے میں واضح فرق ہے۔
ان کو انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور جدید ضرورتوں سے آشنا کرکے بتایا جائے کہ افغانستان کے استحکام اور خوشحالی میں پورے خطے کے مفادات پوشیدہ ہیں۔ 1978سے اس ملک کے حالات سے نہ صرف پڑوسی ممالک بلکہ پوری دنیا متاثر ہوتی آرہی ہے۔
امید ہے کہ افغانستان کے حکمراں تاریخ و واقعات سے سبق لےکراس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے اور بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر