خبریں

طالبان نے کہا-افغانستان میں جمہوری نظام نہیں، صرف شرعی قانون نافذ ہوگا

طالبان کے قبضہ میں آنے کے بعدافغانستان کو اب ایک شوریٰ کونسل کے ذریعےچلایا جاسکتا ہے، جس میں اسلامی گروپ کے رہنماہیبت اللہ اخون زادہ سپریم لیڈر  ہوں گے۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرتے طالبانی کمانڈر انس حقانی۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@AnasMallick)

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرتے طالبانی کمانڈر انس حقانی۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@AnasMallick)

کابل:طالبان کے قبضے میں آنے کے بعد افغانستان کواب ایک شوریٰ کونسل کے ذریعےچلایا جاسکتا  ہے جس میں اسلامی گروپ  کے رہنماہیبت اللہ اخون زادہ سپریم لیڈر ہوں گے۔ طالبان کے ایک سینئر ممبر نے اس کی جانکاری دی۔

خبررساں ایجنسی رائٹرس کےمطابق، طالبان کے فیصلے لینے والے گروپ  تک پہنچ رکھنے والے وحیداللہ ہاشمی نے ایک انٹرویو میں کہا، ‘طالبان کے افغانستان پرحکومت کرنے کے طریقوں کو لےکر ابھی بھی کئی مدعوں پر حتمی  فیصلہ ہونا باقی ہے۔’

انہوں نے مزید کہا،‘لیکن افغانستان ایک جمہوری نظام نہیں رہےگا۔ ہم اس بات پر تبادلہ خیال نہیں کریں گے کہ افغانستان میں ہمیں کس طرح  کاسیاسی نطام نافذ کرنا چاہیے کیونکہ یہ واضح  ہے۔یہاں شرعی قانون نافذ ہوں گے اور یہی ہے۔’

انہوں نے کہا، جمہوری نظام بالکل نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔’ہاشمی نے کہا کہ وہ طالبان کی قیادت  کی ایک بیٹھک میں شامل ہوں گے جہاں اس ہفتے  کے اواخرمیں گورننس کے امور پر تبادلہ  خیال کیا جائے گا۔

اقتدار کا ڈھانچہ

ہاشمی نےاقتدار کے ڈھانچے کے جس خاکہ کو بتایا ہے، وہ اسی طرح  ہوگا جس طرح سے افغانستان کو پچھلی بار 1996 سے 2001 تک طالبان کے اقتدار میں آنے پر چلایا گیا تھا۔

وحیداللہ ہاشمی نے آئندہ حکومت میں اقتدار کے ڈھانچے کا ایک خاکہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہت کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ سن 1996سے سن 2001 کے درمیان افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران تھا۔ سپریم لیڈر ملا عمر بالعموم پس پردہ رہتے تھے اور کاروبار مملکت کے حوالے سے فیصلہ کونسل کرتی تھی۔

ہاشمی نے کہا، ‘اخون زادہ کونسل  کےسپریم لیڈرکا رول نبھا سکتے ہیں جوملک کےصدر کےمساوی  ہوگا۔’انگریزی میں بات کرتے ہوئے ہاشمی نے کہا، ‘ہو سکتا ہےوہ(اخون زادہ)نائب صدر کارول نبھائیں گے۔’

بتا دیں کہ طالبان کے سپریم لیڈر کےنائبین ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب، حقانی نیٹ ورک کےرہنما سراج الدین حقانی اور گروپ کے بانی ممبر اور دوحہ  میں سیاسی دفتر کے سربراہ  عبدالغنی برادر ہیں۔

نئی قومی فورس کی تشکیل

ہاشمی نے کہا، ‘طالبان اپنے رینک میں شامل ہونے کے لیے افغان مسلح افواج کے سابق  پائلٹوں اورفوجیوں  سے بھی رابطہ  کرےگا۔’

معزول  افغان حکومت کے لیے لڑنے والے فوجیوں اور پائلٹوں کی بھرتی پر ہاشمی نے کہا کہ طالبان نے ایک نئی قومی فورس کی تشکیل  کا منصوبہ  بنایا ہے جس میں اس کے اپنے ممبر اور شامل ہونے کے خواہش مندسرکاری فوج  شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا، ‘ان میں سے اکثر نے ترکی، جرمنی اور انگلینڈ میں تربیت حاصل کی ہے۔ اس لیے ہم ان سے اپنے عہدوں پر واپس آنے کے لیے بات کریں گے۔ بےشک ہم کچھ بدلاؤ کریں گے،فوج میں کچھ اصلاحات  ہوں گے، لیکن پھر بھی ہمیں ان کی ضرورت ہے اور ہم انہیں اپنے ساتھ شامل ہونے کے لیے بلائیں گے۔’

حالانکہ،یہ بھرتی کتنی کامیاب ہوگی یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ پچھلے 20 سالوں میں طالبان جنگجوؤں  کے ہاتھوں  ہزاروں فوجی  مارے گئے ہیں۔

طالبان کے ترجمان نے کہا کہ طالبان کو توقع ہے کہ وہ تمام ممالک افغانستان کے طیارے واپس لوٹا دیں گے جو ان کے یہاں اترے تھے۔ ان کا اشارہ بظاہر ان 22 فوجی طیاروں، 24ہیلی کاپٹروں اور سینکڑوں افغان فوجیوں کی جانب تھا جو گزشتہ ہفتے بھاگ کر ازبکستان چلے گئے تھے۔

کرزئی نے طالبان کے سینئر رہنما سے ملاقات کی

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے طالبان کے ایک گٹ کے طاقتور اورسینئر رہنما سے ملاقات کی ہے جسے ایک وقت  جیل میں رکھا گیا تھا اور جس کے گروپ  کو امریکہ نے دہشت گردتنظیم کے طور پر لسٹ کیا ہے۔

سابق صدر کرزئی اورمعزول  سرکار میں اعلیٰ عہدے پر رہے عبداللہ عبداللہ نے انس حقانی سے شروعاتی بیٹھکوں کے تحت ملاقات کی۔ کرزئی کے ترجمان نے بتایا کہ اس سے آخرکار طالبان کے سینئر رہنما عبدالغنی برادر سے بات چیت کی بنیاد تیار ہوگا۔

امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو سال2012 میں دیشت گرد تنظیم قراردیا تھا اور ان کے مستقبل کے سرکار میں رول سے بین الاقوامی پابندی  لگ سکتی ہیں۔

طالبان نے ‘جامع  اسلامی حکومت’بنانے کا وعدہ کیا ہے لیکن قبل میں اسلام کی سخت گیر تشریح سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیےعدم برداشت  کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں خدشات  بنے ہوئے ہیں۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)