برہمن برادری کے اشونی نےسال 2009 میں ایک دلت خاتون سے شادی کی تھی، لیکن ان کے اہل خانہ نے اب تک ان کی بیوی کو قبول نہیں کیا ہے اور ان پر لگاتار طلاق دینے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اشونی نے اپنے رشتہ داروں پر زہر دینے اور زندہ جلانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
جموں وکشمیر کے ادھم پور میں دلت خاتون سے شادی کرنے سے خفا برہمن برادری سےتعلق رکھنے والے ایک شخص کو اس کے والد اور گھر کے دوسرے افرادنےمبینہ طور پرزندہ جلانےکی کوشش کرنے کے لگ بھگ سات مہینے بعد بھی متاثرہ جوڑے انصاف کی امید میں ہیں۔
اس معاملے میں جھلسے اشونی شرما کو ٹرک ڈرائیور کے طور پر اپنا کام چھوڑنا پڑا، جس کے بعد ان کی بیوی لکشمی دیوی گھریلوخادمہ کے طور پر کام کرکےگھر چلا رہی ہیں۔ وہ ہر مہینےمحض 1200روپے کی کمائی سے اپنا گھر چلا رہی ہیں۔ ان کے دو بچے بھی ہیں۔
اشونی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ادھم پور کے سیال سلان گاؤں کے ایک کمرے کے کچے مکان میں جنوری2021 سے رہ رہے ہیں۔
برہمن برادری کےاشونی نےسال 2009 میں دلت برادری کی لکشمی سے شادی کی تھی۔یہ لگ بھگ ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے سے ساتھ رہ رہے ہیں ،لیکن ان کے گھر والوں نے ابھی بھی لکشمی کو قبول نہیں کیا ہے۔
نوجوان کے گھر والے اس کولکشمی کے ساتھ رہنے کو لےکر لگاتار نتیجہ بھگتنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔
جوڑے کےمطابق، اشونی کے والد اور اس کی پھوپھی نے جنوری 2021 میں اشونی کو مبینہ طور پرزندہ جلانے کی کوشش کی تھی اور یہ ان پر اس طرح کا دوسرا حملہ تھا۔
اشونی کا الزام ہے کہ ان کی پھوپھی نے انہیں لکشمی سے طلاق لینے کی دھمکی دی تھی اور ایسا نہ کرنے پر پچھلے سال انہوں نے انہیں زہر دے دیا تھا۔
جوڑے کے وکیل کا کہنا ہے کہ اشونی کوزہر دیے جانے کے معاملے میں درج کرائی گئی شکایت کو پولیس نے پچھلے سال جبراً بند کر دیا تھا جبکہ زندہ جلائے جانے کے معاملے کی جانچ اب بھی زیر التوا ہے۔
دلتوں کےحقوق کےلیے کام کرنے والےسماجی کارکن منموہن تھاپا نے دی وائر کو بتایا کہ جموں وکشمیر میں اکثر آنر کلنگ کے واقعات درج ہی نہیں ہو پاتے۔ اگر انہیں درج بھی کیا جاتا ہے تو یہ خفیہ طریقے سےبند کر دیا جاتا ہے۔
پولیس کا منفی کردار
ہندوستان میں ہر سال سینکڑوں نوجوان اپنی کاسٹ سے باہر پیار کرنے اور شادی کرنے کی ہمت دکھاتے ہیں لیکن انہیں اسی طرح کے پرتشددحملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں سے اکثر حملے ان کے گھر والوں کی طرف سے ہی کیے جاتے ہیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ اجے کمار مشرا کے مطابق، ملک میں سال 2017 اور 2019 کے بیچ آنر کلنگ کے145واقعات رونما ہوئے۔
انہوں نے اس سال 11 اگست کو پارلیامنٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہندوستان میں2017 میں آنر کلنگ کے 92 واقعات رونماہوئے۔ 2018 میں 29 اور 2019 میں آنر کلنگ کے24 واقعات رونما ہوئے۔
مشرا کے مطابق، جھارکھنڈ میں2017 اور 2019 کے بیچ آنر کلنگ کے50واقعات رونما ہوئے۔اسی مدت میں مہاراشٹر میں 19 اور اتر پردیش میں 14واقعات رونما ہوئے۔
این سی آربی کی رپورٹ کے مطابق، 2019 میں جموں وکشمیر میں آنر کلنگ کا صرف ایک واقعہ رونما ہوا۔
اشونی کو انصاف دلانے کے لیےاحتجاجی مظاہروں کاانعقاد کرکےاورمختلف شہری اور پولیس افسروں سے مل کر پوری کوشش کر رہے تھاپا نے کہا کہ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جموں وکشمیر میں آنر کلنگ کے اس مبینہ جرم کے معاملے کم ہیں۔
انہوں نے کہا،‘اگر معاملے درج بھی کیے جاتے ہیں تو جانچ افسر ملزم پرسخت دفعات نہیں لگاتے اس لیےاکثر معاملوں میں جس میں متاثرہ کمزوربرادری سے ہیں، ان کی شنوائی نہیں ہو پاتی اور ملزم کو اس سے بڑھاوا ملتا ہے۔’
تھاپا اشونی کو زہر دیے جانے کے معاملے میں لکشمی کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کےبعد معاملے کو جبراً ختم کرنے کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر میں عام طور پر ذات پات پر مبنی جرائم کےمعاملوں میں یہی ہوتا ہے۔
بتا دیں کہ 20 اگست 2020 کو لکشمی نے اشونی کےوالد ست پال، چاچی رام پیاری اور اشونی کے چاچا پورن چند(مقامی بی جے پی رہنما)سمیت آٹھ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی لیکن پولیس نے معاملے کو بند کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقوں نے عدالت کے باہر معاملے کو سلجھا لیا ہے۔
حالانکہ نہ ہی لکشمی اور نہ ہی اشونی نے سمجھوتے کے اس دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
تھاپا نے کہا،‘اشونی کو زہر دیےجانے کے بعد سینئرپولیس افسروں نے اشونی پر دباؤ بنایا کہ وہ بیوی کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت کو واپس لے لے۔اس امر کے باوجود کہ اشونی اور اس کی بیوی نے اس دستاویز پر آج تک دستخط نہیں کیے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ معاملے کو عدالت کے باہرسلجھا لیا گیا ہے۔اس طرح کے معاملوں میں پولیس کے منفی رول کی جانچ کیے جانے اور کرپٹ افسروں کو سزادیے جانے کی ضرورت ہے لیکن جموں وکشمیر میں ایسا نہیں ہو رہا۔’
قتل کی پہلی کوشش
سال 2009 میں اشونی نے اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر طلاق شدہ دلت خاتون لکشمی سے شادی کی تھی۔
اشونی جانتے تھے کہ اس شادی کو ان کے گھر والے کبھی قبول نہیں کرےگیں، اس وجہ سے وہ اپنی بیوی لکشمی کے ساتھ جموں کے سامبا ضلع کے کرایہ کے گھر میں رہنے لگے تھے لیکن جلد ہی یہ ادھم پور شفٹ ہو گئ اور وہاں رون ڈومیل علاقے میں کرایہ کے مکان میں کچھ مہینوں کے لیے رہے۔
اس بیچ اشونی اکثر رتھیان دنا گاؤں اپنے گھروالوں سے ملنے جاتے اور ان سے اپنی بہو (لکشمی)کوقبول کرنےکو کہتے۔ اس پر اشونی کے گھر والےاسے ہر بار کہتے کہ ‘یہ چما٭ ہیں اور ہم اسے اپنے پڑوس میں نہیں رہنے دیں گے۔’
اس بیچ 16 مارچ 2020 کو اشونی کی ماں سشما دیوی اور بھائی راہل شرما کی سڑک حادثے میں موت ہو گئی۔
اشونی نے کہا،‘اس دوران میں لگ بھگ دو سے ڈھائی مہینےاپنے والد کےساتھ رہا جبکہ لکشمی اور میرے بچہ رون ڈومیل میں ہی رہے۔ سات جون 2020 کو میری چاچی رام پیاری نے مجھے زہر دے دیا۔ دلت خاتون سے شادی کرنے کو لےکر وہ اکثر مجھے کوستی رہتی تھی۔’
اشونی نے کہا،‘میں جان گیا تھا کہ مجھے زہر دیا گیا ہے کیونکہ میں خون کی الٹیاں کر رہا تھا۔اس کی تصدیق کے لیے میں ضلع اسپتال گیا۔’
اشونی کا کہنا ہے کہ لیکن اسپتال اور علاج کے ان کے میڈیکل ریکارڈ غائب ہو گئے۔
اشونی نے کہا کہ ان کی چاچی نے انہیں دھمکی دیتے ہوئے کہا، ‘اگر میری بیوی اور میں دوبارہ رتھیان دنا گاؤں میں ہمارے گھر آئے تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔’
قتل کی دوسری کوشش
اشونی کا کہنا ہے کہ 13 جنوری 2021 کو ان کےوالد ست پال نے انہیں لوہڑی کے موقع پر اپنے گھر بلایا۔
اشونی نے کہا، ‘چونکہ میرے والد نے مجھے اکیلے بلایا تھا تو میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ نہیں لے گیا۔ 14 جنوری کو میں اور میرے والدجائیداد سےمتعلق کسی معاملے پر چرچہ کر رہے تھے کہ تبھی میری چاچی نے مجھ پر کیروسین ڈال دیا اور میرے والد کی طرف ماچس پھینکی۔ جیسے ہی میرے والد نے مجھے آگ لگائی، میری چاچی اور دادی اپنے کمرے میں چلی گئیں اور کمرے کے دروازے سے مجھے جلتا دیکھنے لگیں۔’
اشونی کا کہنا ہے کہ انہوں نے گھر سے باہر بھاگ کر اور زمین پر لیٹ کر آگ بجھانے کی کوشش کی۔ وہاں پاس کے کھیت میں کام کر رہے کچھ لوگ چیخ و پکار سن کر مدد کے لیے دوڑے اور اسپتال لے گئے۔
اشونی کو بہتر علاج کے لیے ادھم پور کے ضلع اسپتال سے جموں کے شری مہاراجہ گلاب سنگھ اسپتال ریفر کیا گیا۔ وہ اگلے پندرہ دنوں تک جموں اسپتال میں رہے۔
اشونی کہتے ہیں،‘جب میری جمع پونجی ختم ہونے لگی تو میں اسپتال سے بھاگ گیا۔’
ادھم پور کے ایک نیوز پورٹل نے اشونی کی اسٹوری شائع کی تو پاس کے گاؤں میں رہنے والی ایک مسلم خاتون ، جو پیشہ سے نرس تھیں، نے روزانہ اشونی کے گھر جاکر ان کے گھاؤ بھرنے تک مفت مرہم پٹی کی۔
اشونی کہتے ہیں،‘وہ فرشتہ تھی۔ میں آج تک ان کا نام نہیں جان پایا۔’
‘وہ خودسوزی تھی’
اشونی اور لکشمی کا دعویٰ ہے کہ ست پال اور رام پیاری نے اشونی کو زندہ جلانے کی کوشش کی لیکن ست پال کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے نے خوداپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔
ست پال کہتے ہیں،‘لوہڑی کے موقع پر وہ رتھیان دنا ہم سے ملنے آیا۔ اگلے دن اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا اور یہ دھمکی دی کہ اگر ہم اس کی بیوی کو قبول نہیں کرتے ہیں تو وہ اپنی جان لے لےگا۔ میں نے اسےسمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے خود کو ہی آگ لگا لی۔’
انہوں نے کہا، ‘میں نے کسی طرح بند دروازہ توڑا لیکن وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں اس نے خودکشی کی کوشش کی۔’
ست پال اب بھی لکشمی کو اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں،‘وہ طلاق شدہ ہے اور دلت ہے۔اگر ہم اسے قبول کر لیں گے تو اس سے سماج میں ہماری عزت پر بڑا داغ لگےگا۔ میں پہلے ہی اپنے ایک بیٹے کو کھو چکا ہوں۔ میں اشونی کو پیار کرتا ہوں، میرے پاس جو کچھ بھی ہے، میں اسے دینے کو تیار ہوں لیکن جس عورت سے اس نے شادی کی ہے، میں اسے قبول نہیں کر سکتا۔’
ایف آئی آر درج کرانےکی جد وجہد
اشونی کے مطابق،ادھم پورپولیس نے جنوری2021 میں ہوئے جرم کے لگ بھگ چار مہینے بعد مئی2021 تک اشونی کے گھروالوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی۔
اشونی نے کہا، ‘میرے گھاؤ بھرنے کے بعد میں نے ادھم پور پولیس میں شکایت درج کرائی۔ میں لگ بھگ ڈھائی مہینے تک روزانہ تھانے جاتا تھا اور اس وقت کے ایس ایچ او سے منت کرتا تھا کہ وہ میرےوالد اور گھرکے دوسرےافراد کے خلاف ایف آئی آر درج کریں لیکن وہ مجھے ہمیشہ کل آنے کو کہتے۔’
اشونی کا الزام ہے کہ پولیس ان کے چاچا کے اشارے پر ایف آئی آر درج نہیں کر رہی تھی۔
بتا دیں کہ اشونی کے چاچا پورن چند مقامی بی جے پی رہنما ہیں، جو جموں وکشمیر اور دہلی میں بی جے پی کے کئی سینئر رہنماؤں کے قریبی مانے جاتے ہیں۔
اشونی اور لکشمی وکیل کا خرچہ اٹھانے کی حالت میں نہیں تھے اس لیے انہوں نے گلشن سنگھ نام کے ایک وکیل سے مفت کیس لڑنے کی گزارش کی۔
اشونی نے کہا، ‘میں نے گلشن سنگھ سے سیدھے کہا کہ میرے پاس ان کی فیس بھرنے کے لیے پیسے نہیں ہے اور ان سے مفت میرا کیس لڑنے کی درخواست کی۔ وکیل نے میری بات مان لی اور عدالت کا رخ کرکے مارچ 2021 میں میرے گھروالوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔’
ایف آئی آر میں ان کے والدست پال شرما، چاچی رام پیاری اور دادی مایا دیوی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ307(قتل کی کوشش) ، 156 کے تحت الزام لگائے گئے۔
جب دی وائر نے ادھم پور کے ایس ای پی سرگن شکلا سے پوچھا کہ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے میں چار مہینے کیوں لگے؟ اس پر انہوں نے کہا، ‘میں تمام حقائق کا پتہ لگائے بغیر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔’
انصاف کے لیے اشونی اور لکشمی کی امیدیں اب عدلیہ سے ہی بندھی ہیں۔
اشونی نے کہا، ‘اگر عدلیہ نہیں ہوتی تو ادھم پور پولیس میرے والد اور گھر کے دوسرے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔’
حالانکہ اشونی کے وکیل گلشن سنگھ کو زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘ادھم پور پولیس نے اس معاملے میں اب تک کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔ ان کی جانچ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ملزمین کو بچانے کے لیے یقیناً کسی بااثرشخص کے اشارے پر ایسا کر رہے ہیں۔’
(بی ویک ماتھر آزاد صحافی ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)’
Categories: حقوق انسانی, خبریں