اتر پردیش پولیس نے یتی نرسنہانند کی معاون ادیتہ تیاگی کی شکایت پر محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ تیاگی نے الزام لگایا کہ زبیر نے 3 اکتوبر کو نرسنہانند کے خلاف تشدد بھڑکانے کے لیے کی ان کی ایک پرانی کلپنگ پوسٹ کی تھی۔
جموں و کشمیر بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ قابل اعتراض ریمارکس کے لیے غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے پجاری اور کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند کی مذمت کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا۔
کانگریس اگر ہندو بیلٹ میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ٹرم مکمل کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
مضامین اور کتابوں میں نورانی حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کر دیتے تھے کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل تھا۔ وہ اپنے پیچھے ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس کے لیے صدیوں تک ان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔
وفاتیہ: نورانی کے علم و تحقیق کا دائرہ بہت وسیع تھا، جس کا ادراک ان کی تصنیفات سے بخوبی ہوتا ہے۔ دراصل، چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات، جموں و کشمیر کا سوال، ہندوستانی آئین، برطانوی آئینی تاریخ، قانون، حیدرآباد، اسلام، انسانی حقوق، سیاسی مقدمے، جدوجہد آزادی، بابری مسجد اور ہندوتوا وغیرہ ایسے موضوعات ہیں، جو ان کے تبحر علمی کے وقیع اور گراں قدرحوالے کہے جا سکتے ہیں۔
بی جے پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی اور بعد میں اس کو واپس لے لیا، کیوں کہ نئے امیدواروں اور حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے لوگوں کے انتخاب پر پرانے قائدین میں عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سالوں میں امن قائم کیا ہوا ہے۔ مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟
گزشتہ چند دنوں میں مدھیہ پردیش، بہار، جھارکھنڈ، اتر پردیش اور جموں و کشمیر میں فلسطینی پرچم لہرانے پر متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا، حراست میں لیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ سری نگر میں محرم کے جلوس کے دوران فلسطین کی حمایت اور اسرائیل مخالف نعرے لگانے پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ بھی درج کیا گیا۔
جموں و کشمیر کے ایوارڈ یافتہ صحافی آصف سلطان کو 2018 میں دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا۔ تقریباً 3 سال بعد 2022 میں انہیں ضمانت ملی تو رہا ہونے سے پہلے ہی دوبارہ پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔ جب اس معاملے میں بھی ضمانت ملی تو ایک اور کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔
لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 26 اپریل کو آسام، بہار، چھتیس گڑھ، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، منی پور، راجستھان، تریپورہ، اتر پردیش، مغربی بنگال اور جموں و کشمیر کی کل 89 سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔ اس مرحلے میں نریندر مودی کابینہ کے تین وزراء، دو سابق وزرائے اعلیٰ، دو سابق وزرائے اعلیٰ کے بیٹوں سمیت کئی بڑے لیڈروں کی عزت داؤ پر ہے۔
جنوبی ہندوستان کو فتح کرنے کے لیے ان دنوں مودی مسلسل ان صوبوں کے دورے کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ وہ صرف شمالی ہندوستان کا لیڈر ہونے کا دھبہ مٹا کر ملک گیر لیڈر کے بطور اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنوبی ہندوستان کو فتح کیے بغیر وہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی وراثت کو تاریخ کے صفحات سے مٹا نہیں سکتے ہیں یا اپنے آپ کو نہرو ثانی کے بطور پیش نہیں کرسکتے ہیں۔
یہ کتاب مجموعی طور پر 1953 کے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، اس میں ان واقعات اور پالیسیوں کا ایک جامع تجزیہ کیا گیا ہے جو اس نازک دور میں کشمیر میں رونما ہوئے۔اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی ہندوستانی حکومت کشمیر میں پرانے آزمائے ہوئے طریقوں کو ہی آزما رہی ہے۔ یہ سبھی اقدامات بخشی دور کی ہی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔
راجستھان کے چتور گڑھ ضلع کا معاملہ۔ پولیس کے مطابق میواڑ یونیورسٹی کے بی فارما کے طالبعلم سہراب قیوم نے انسٹاگرام اسٹوری پر کچھ قابل اعتراض تبصرے پوسٹ کیے تھے۔ قیوم جموں و کشمیر کے راجوری علاقے کے رہنے والے ہیں۔ جموں کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے ان کے اقدامات کی ‘سخت مذمت’ کی ہے اور ان کے تئیں نرمی برتنے کی استدعا بھی کی ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کشمیری صحافی آصف سلطان پر لگے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو رد کر دیا ہے۔ نیوز میگزین ‘کشمیر نیریٹر’ کے رپورٹر آصف کو 2018 میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جنہوں نے اُسی سال سری نگر میں ایک انکاؤنٹر کے دوران ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔
دی وائر کے بانی مدیر نے ایل جی منوج سنہا کو ایک خط میں کہا ہے کہ پردھان منتری-جن آروگیہ یوجنا سے متعلق خبر کے لیے ادارے کے نامہ نگار جہانگیر علی کے خلاف ان کے ‘بے بنیاد الزام’ صحافی کے ساتھ ہی میڈیا کے لیے بھی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
کشمیر میں صحافیوں اور رپورٹنگ کی صورتحال پر بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں وادی کےبعض صحافیوں اور مدیران سے بات چیت کی ہے، جنہوں نے بتایا ہے کہ وہ واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سےحکام کی طرف سے پیدا کیے گئے ‘خوف اور دھمکی’ کے ماحول کی وجہ سے ‘گھٹن’محسوس کر تے رہے ہیں۔
ویڈیو: سری نگر واقع نیوز ویب سائٹ ‘دی کشمیر والا’ کو بلاک کر دیا گیا ہے اور اس کے ٹوئٹر اور فیس بک پیج کو بھی بلاک کیا جا چکا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد صوبے میں میڈیا کے حالات کیا ہیں، بتا رہے ہیں اجئے کمار۔
آزاد میڈیا آرگنائزیشن ‘دی کشمیر والا’ کے بانی مدیر فہد شاہ دہشت گردی کے الزام میں 18 ماہ سے جموں کی جیل میں بند ہیں، جبکہ اس کے ٹرینی صحافی سجاد گل بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جنوری 2022 سے اتر پردیش کی جیل میں بند ہیں۔ ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی اس کارروائی کے علاوہ انہیں سری نگر میں اپنے مالک مکان سے دفتر خالی کرنے کا نوٹس بھی ملا ہے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کو گزشتہ سال ٹرائل کورٹ نےٹیرر فنڈنگ کیس میں یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
گراؤنڈ رپورٹ : آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں ایک نئی صبح کے آغاز کا دعویٰ کیا تھا اور یہاں کی عوام پر امید تھی کہ اب ترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا، مگر تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہےاور لوگ آج بھی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں ہی متعدد لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
ویڈیو: 26 فروری کو کشمیری پنڈت سنجے کمار شرما کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے اچن گاؤں میں دہشت گردوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کشمیری پنڈتوں کی مسلسل ٹارگیٹ کلنگ کے خلاف یہاں کے لوگوں میں غصہ ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
شیخ عبداللہ کے دست راست ہونے کے باوجود، وہ میٹنگوں میں ان سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے تھے۔ میٹنگوں سے واک آؤٹ کرنے کے لیے وہ مشہور ہو گئے تھے۔تما م طبقہ ہائے فکر میں ان کی مقبولیت کی وجہ سے 1986میں جب مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا قیام عمل میں آیا، تو اس کا کنوینر ان کو بنایا گیا۔
اس شورش زدہ خطے میں سویلین ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے خوف و ہراس کے ماحول میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف انسداد دہشت گردی اور بغاوت کو کچلنے کے قوانین کا بے محالہ اور بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پریس شدید دباؤ کا شکار ہے۔
مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے ایک دن قبل سرکردہ ریاستی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا تھا، جن میں حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق بھی تھے۔ حریت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ریاستی حکام نے میر واعظ پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔
تین جولائی کو جموں و کشمیر پولیس نے ‘وانٹیڈدہشت گرد’ اور ‘لشکر طیبہ کا کمانڈر’ بتاتے ہوئے طالب حسین شاہ کو گرفتار کیا ہے، جنہیں گزشتہ مئی میں بی جے پی کے اقلیتی سوشل میڈیا ونگ کا انچارج بنایا گیا تھا۔ اب طالب کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ وہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوژ تھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن […]
کیا یاسین ملک اپنے اوپر عائد الزامات کے لیے قصوروار ہیں؟ یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ نہیں ہیں، لیکن جو حکومتیں برسوں سے جاری تنازعات کے پرامن حل کے لیے سنجیدہ ہیں، ان کے پاس اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے اور طریقے ہیں۔
یاسین ملک کو دو جرائم – آئی پی سی کی دفعہ 121 (حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنا) اور یو اے پی اے کی دفعہ 17 (دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا) – کے لیے قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 10 مئی کو ملک نے 2017 میں وادی میں مبینہ دہشت گردی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں سے متعلق ایک معاملے میں عدالت کے سامنے تمام الزامات کو قبول کر لیا تھا۔
راجیو کمار ستمبر 2020 سے الیکشن کمشنر کے طور پر الیکشن کمیشن سے وابستہ تھے۔ 12 مئی کو وزارت قانون نے نئے چیف الیکشن کمشنر کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا تھا۔ وہ سشیل چندر کی جگہ سنبھالیں گے، جو 14 مئی کو ریٹائر ہوئےہیں۔
یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اس کو 2024 کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔
وزارت داخلہ کی 2020-21 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 1990 اور 2020 کے درمیان جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی وجہ سے 14091 شہری اور 5356 سیکورٹی فورس اہلکار ہلاک ہوئے۔ کشمیری پنڈتوں کے علاوہ عسکریت پسندی کی وجہ سے کچھ سکھ اور مسلم خاندان کو بھی وادی سے جموں، دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں نقل مکانی کرنے کو مجبور ہونا پڑا۔
کشمیر یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالبعلم عبد العالا فاضلی نے تقریباً 11 سال قبل 6 نومبر 2021 کو آن لائن میگزین ‘دی کشمیر والا’ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مضمون انتہائی اشتعال انگیز تھا اور جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانے کی نیت سے لکھا گیا تھا۔ اس کا مقصد دہشت گردی کو بڑھاوا دینا اور نوجوانوں کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دینا تھا۔
گزشتہ 22 مارچ کو جموں و کشمیر کے سری نگر کے رہنے والے سید فیصل کو دہلی کے جہانگیر پوری واقع ایک ہوٹل میں ٹھہرنے سے منع کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کے مطابق ہوٹل کی ایک خاتون ملازمہ نے انہیں جموں و کشمیر سے ہونے کی وجہ سے ہوٹل میں ٹھہرنےسے منع کیا۔ فیصل نے کہا یہ پہلا موقع ہے کہ انہیں اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آر ٹی آئی کارکن پی پی کپور نے جموں و کشمیر پولیس اور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس دائر ایک درخواست میں کشمیری پنڈتوں کے خلاف تشدد، ان کی نقل مکانی اور بازآبادی سے متعلق جانکاری مانگی تھی ۔ اس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ تشدد یا تشدد کی دھمکیوں کی وجہ سے وادی چھوڑکر نقل مکانی کرنے والے 1.54 لاکھ افراد میں سے 88 فیصد ہندو تھے، لیکن 1990 کے بعد سے تشدد میں مرنے والے زیادہ تر لوگ دوسرے مذاہب سے تھے۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے اس ملک کو تقسیم کیا۔ آج ایک بار پھر ملک کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ لوگ (بی جے پی) ایک اور تقسیم چاہتے ہیں۔ انہوں نے ملک کےپہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو یاد کیا اور ان کے ‘سیکولرازم’ اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لے جانے کے لیےان کی تعریف کی۔
این آئی اے نے اپنےسابق سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اورآئی پی ایس افسر اروند دگوجے نیگی کو ممنوعہ دہشت گردتنظیم لشکر طیبہ کے ایک رکن کو خفیہ دستاویز لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ این آئی اے اسی معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ ان میں سے ایک کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کو این آئی اے نے گزشتہ سال گرفتار کیا تھا۔
کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبہ کو معیار بنایا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ چونکہ جموں کا رقبہ26293مربع کلومیٹر، کشمیر کے رقبہ 15940مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اس لیے اس کی سیٹیں بڑھائی گئیں ہیں۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور معتبریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے ہندوستان میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ بنائے جانے کے بعد سے اس کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اوریہاں کے باشندوں کو زمین اور ملازمت کے تحفظ کی ضمانت دینے کا مطالبہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔عام طور پر لداخ کےمسلم اکثریتی کارگل اور بودھ اکثریتی لیہہ کے علاقے ایک دوسرے سے بنٹے رہتے ہیں، لیکن اس بار لوگوں نے متحد ہو کر خطے کی آئینی سلامتی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
این آئی اے نےسوموار کو صوبے میں حقوق انسانی کے سرگرم کشمیری کارکن خرم پرویز کو گرفتار کیا ہے۔اس سے پہلےٹیررفنڈنگ سےمتعلق ایک معاملے میں رواں سال کی شروعات میں سری نگر میں ان کے گھر اور دفترکی تلاشی لی گئی تھی۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس قدم کی تنقید کرتے ہوئے حراستی تشدد کے خطرے کے مدنظرتشویش کا اظہارکیا ہے۔