خبریں

پانچ سو سے زائد افراد اور 23 تنظیموں نے آدھار-ووٹر آئی ڈی لنک کی مخالفت کی، کہا-بےحد خطرناک

الیکشن کمیشن  نے ووٹر لسٹ سے‘فرضی ووٹر’کو باہر نکالنے کا حوالہ دیتے ہوئے ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے لنک کرنے کی تجویز پیش کی  ہے۔ حالانکہ جانکاروں نے کہا کہ جب ووٹر لسٹ کے مقابلے آدھار ڈیٹابیس میں پہلے سے ہی زیادہ خامیاں ہیں تو اسے ووٹر آئی ڈی سے جوڑکر حل کیسے نکالا جا سکےگا۔

Aadhaar-1200x560-Illustration-by-The-Wire

نئی دہلی:تقریباً23تنظیموں اور لگ بھگ 500معروف افرادنے آدھار کو ووٹر آئی ڈی کارڈ سے جوڑ نے کے قدم کی نکتہ چینی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک‘ناقص سوچ، غیر منطقی  اور غیر ضروری قدم’ہے،جو ہندوستان کےانتخابی  جمہوری  ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ ایسا کرکے‘فرضی ووٹروں’کوووٹر لسٹ سے باہر کیا جا سکےگا۔حالانکہ اس دلیل کو خارج کرتے ہوئے جانکاروں نے کہا کہ یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کےووٹنگ کےحق کو متاثر کرےگا اور ووٹر فراڈ کو بڑھائےگا، اس لیے الیکشن کمیشن اس ‘خطرناک’تجویز کو واپس لے۔

اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں انتخابی اصلاحات کی سمت میں کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اےڈی آر)، شہری حقوق کےگروپوں جیسے کہ پیپلس یونین آف سول لبرٹیز(پی یوسی ایل)،مزدور کسان شکتی سنگٹھن(ایم کےایس ایس)،آدی واسی ویمنس نیٹ ورک، چیت نا آندولن اور این اے پی ایم جھارکھنڈ اور ڈیجیٹل رائٹس گروپ جیسے کہ ری تھنک آدھار،آرٹیکل 21 ٹرسٹ، دی انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن اور فری سافٹ ویئر موومنٹ آف انڈیا وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کئی سابق نوکرشاہوں، صحافیوں، سماجی کارکنوں، محققین اور طلبا نے بھی اس مانگ کے تئیں اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ غیرذمہ دارانہ طریقے سے ڈیٹابیس کو لنک کرنے اور خفیہ طریقے سے لوگوں کے پہچان کی‘تصدیق’ کرنے کی وجہ سے ووٹنگ کے حق کو متاثر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ذمہ دارانتظامیہ کی جگہ تکنیکی حل سے کام نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ ووٹرلسٹ کو اپ ڈیٹ کرنے اور ووٹنگ ڈیٹا کی درستگی کو یقینی بنانے کے لیےووٹرس بروقت گھر گھرتصدیق سب سے مؤثر طریقہ ہے۔’

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی یہ تجویز پٹاسوامی معاملے میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلےکی خلاف ورزی کی  ہے۔سپریم کورٹ نے آدھار کی تصدیق  کے استعمال کو صرف فلاحی پروگراموں اور انکم ٹیکس کے لیے پین نمبر سے جوڑ نے تک محدود کر دیا تھا۔

جانکاروں نے اپنے بیان میں مختلف شعبوں کے ممکنہ نقصان کو نشان زد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آدھار ووٹ دینے کے حق کا ثبوت نہیں ہے۔ آدھار شہریت  کا ثبوت نہیں ہے، یہی وجہ  ہے کہ آدھار نمبرتمام باشندگان کو جاری کی گئی تھی نہ کہ شہریوں کو۔

عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت صرف ہندوستان میں رہنے والے شہریوں کو ووٹ دینے کا حق ہے۔ اس طرح آدھار اور ووٹر آئی ڈی دونوں کو جوڑنا بےمعنی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کی تجویز لاگو کی جاتی ہے تو کئی لوگ ووٹ دینے کے حق سے محروم  ہو جائیں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت اس طرح کا کام کرنے جا رہی ہے۔ سال 2015 میں مرکز نے آدھار اور ووٹرآئی ڈی کو جوڑ نے کا کام شروع کیا تھا،لیکن آدھار معاملے کی شنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے اپنے ایک عبوری فیصلے کے تحت اس کارر وائی کو رد کر دیا تھا۔

جانکاروں نے کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے اس کی منظوری نہیں دی تھی، اس کےتحت اس تجویز کو لاگو کرنے کےکورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی  ہوگی۔

سرکار نے قبل میں کئی اسکیموں جیسے کہ منریگا، پی ڈی ایس وغیرہ  سے ‘فرضی لوگوں’کو باہر کرنے کے نام پر آدھار جوڑ نے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کا نتیجہ  کافی تشویش ناک رہا۔ملک بھر سے ایسے کئی معاملے  دیکھنے کو ملے جہاں آدھار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو فائدے سے محروم کر دیا گیا۔

مثال کے طور پر جھارکھنڈ کے ایک مطالعہ میں پایا گیا کہ آدھار لنکنگ کے دوران ‘فرضی’ قرار دیے گئے 90فیصد راشن کارڈ اصلی تھے۔

سال2018 میں آدھار بنانے والی ایجنسی یوآئی ڈی اےآئی کے سی ای او نے بھی قبول کیا کہ سرکاری خدمات کے لیے آدھار کی تصدیق کی ناکامی 12فیصد تک تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تجویز سے ووٹرفراڈ بڑھنے کازیادہ امکان ہے۔ آدھار کو لنک کرنے سے ووٹر آئی ڈی ڈیٹابیس کی سالمیت متاثر ہوگی۔آدھار ڈیٹا میں پائی جانے والی غلطیاں انتخابی ڈیٹابیس میں غلطیوں کے مقابلےمیں ڈیڑھ گنا زیادہ  ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ چونکہ آدھار میں ووٹر ڈیٹابیس کےمقابلےزیادہ غلطیاں ہیں، اس لیے ان دونوں کو آپس میں لنک کرنے سے ووٹر ڈیٹابیس شدید طور  پرمتاثر ہوگا، جس کا خمیازہ عام لوگ کوبھگتنا پڑے گا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ کے لیے بایومیٹرک تصدیق  کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ آدھار لنک کی کمی، بایومیٹرک کی ناکامیوں، مناسب انفراسٹرکچر کی کمی اور یو آئی ڈی اے آئی کے نفاذ میں شکایات کے ازالے کے طریقہ کار کی کمی کی وجہ سےصوبوں میں بھوک مری سے ہونے والی موتوں کی کئی رپورٹس ہیں، جو رائٹ ٹو فوڈ مہم نے اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب آدھار لنکنگ میں پہلے سے ہی اتنی پریشانیاں ہیں، تو یہ ووٹر آئی ڈی سے لنک کرنے میں کیسے کام کرےگا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان دونوں ڈیٹابیس کو جوڑنا پرائیویسی  کے حق پر حملہ ہوگا۔

جانکاروں نے کہا،‘ہمیں اس بات کی تشویش ہے کہ اس طرح کی تجویز سے پرائیویسی کے ہمارے آئینی اور بنیادی حق اور ووٹ کی رازداری کی خلاف ورزی  ہوگی۔ہندوستان میں اس وقت  کوئی ڈیٹا تحفظ قانون نہیں ہے اور موجودہ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل میں سرکار کو بڑے پیمانے پر چھوٹ ملی ہوئی ہے۔’

انہوں نے سال 2019 کے کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی مثال ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ووٹر آئی ڈی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا کس طرح سے جمہوریت  کو شدید طور پر متاثر کر سکتا ہے۔

تنظیموں نے مدراس ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں عدلیہ  نے پڈوچیری میں بی جے پی  کے ذریعےمبینہ طور پرآدھار ڈیٹا کے غلط استعمال کی جانچ کرنے کاحکم دیا تھا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)