ماہرین کا کہنا ہے کہ زبانوں کا تنوع جہاں ہندوستان کے لیے ایک قابل فخر بات ہے، وہاں یہ بھی سچ ہے کہ غلط ترجموں یا اس کی غلط تشریح کے بسا اقات مسائل کھڑے کیے ہیں اور کسی وقت توا س کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔
شمالی ہندوستان میں دہلی اور اس کے اطراف میں بولی جانے والی برج بھاشا میں ایک کہاوت ہے؛
کوس کوس میں بدلے پانی، چار کوس میں بانی۔
یعنی ہر کوس کے بعد پانی کا ذائقہ، اور ہر چار کوس کے بعد بولی اور زبان بد ل جاتی ہے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں122بڑی اور 1599دیگرزبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں آئینی طور پر 22کو شیڈیولڈ زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ہندوستان کے کرنسی نوٹوں پر ان تمام 22زبانوں کو اس نوٹ کی قیمت درج ہوتی ہے۔ اس طرح کے ملک میں جہاں ہر کوس پر زبان بدل جاتی ہو، ترجمہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
گزشتہ 30 ستمبر یعنی جمعرات کو عالمی ترجمہ دن کی مناسبت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ زبانوں کا تنوع جہاں ہندوستان کے لیے ایک قابل فخر بات ہے، وہاں یہ بھی سچ ہے کہ غلط ترجموں یا اس کی غلط تشریح کے بسا اقات مسائل کھڑے کیے ہیں اور کسی وقت توا س کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال تو دہلی یونیورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمان گیلانی ہیں، جن کو دہلی کی ایک عدالت نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر ہوئی بات چیت کی وجہ سے2001 میں ہندوستانی پارلیامنٹ پر ہوئے حملہ میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔ مگر بھلا ہو بعد میں دہلی ہائی کورٹ کا، جس نے کشمیر ی فلم ساز سنجے کاک اور ٹریڈ یونین لیڈر سمپت پرکاش کی معاونت سے ان کی گفتگو کا صحیح ترجمہ کرواکے ان کو بری کردیا۔ دونوں زبان دانوں نے عدالت کو باور کرادیا کہ پولیس کی طرف سے دائر کشمیر ی زبان میں ہوئی بات چیت کا ترجمہ غلط ہی نہیں بلکہ بالکل برعکس ہے۔
پولیس نے دہلی کی آزاد پور سبزی اور فروٹ منڈی میں ایک آٹھویں جماعت پاس فروٹ بیچنے والے شخص سے پروفیسر صاحب کی کشمیر میں ان کے برادر سے ہوئی بات چیت کا کشمیری سے ہندی میں ترجمہ کروایا تھا۔اور اس بات چیت کی بنیاد پر پولیس اور نچلی عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ13دسمبر2001کو ہوئے پارلیامنٹ پر حملہ کی پیشگی ان کو اطلاع تھی اور وہ اس کی پلاننگ کرنے والوں میں شامل تھے۔
ان کے برادر نے فون پر ان کو بتایا تھا کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟“ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا کہ ”دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟“ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ’کیا یہ ضروری تھا؟“پولیس نے اس کو لکھا ”یہ ضروری تھا“۔ بس اس ایک غلط جملے کا ترجمہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، کہ اگر کاک او ر پرکاش عدالت عالیہ میں آکر صحیح ترجمہ پیش نہ کرتےتو پروفیسر صاحب کو موت کی سزا پر عمل بھی ہو گیا ہوتا۔
یہ کوئی الگ تھلگ کیس نہیں ہے۔ دہلی میں پولیس اور دیگر ایسے اداروں نے درجنوں ایسے افراد کو جیلوں کی کوٹھریوں میں پچھلے دو دہائیوں سے زائد دھکیل دیا ہے، جن پر الزام ہے کہ ان کے پاس قبل ممنوع مواد یا مشتعل کرنے والا لٹریچر برآمد ہوا ہے۔ جب آپ اس مبینہ ممنوع یا اشتعال انگیز لٹریچر کا جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اردو کی نارمل میگزین یا کسی شاعر کا مجموعہ کلام ہوتا ہے۔
میں ایک ایسے کیس کے بارے میں جانتی ہوں، جس میں مہاراشٹرا صوبہ کی پولیس نے آٹھ نوجوانون کو کئی سالوں تک جیل میں بند کرکے رکھا ہوا تھا، جن کے پاس ایک پوسٹر بر آمد ہوا تھا جس میں اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر مرزا اسداللہ خان غالب کے چند اشعار لکھے ہوئے تھے۔ شعر یہ تھا۔
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا
یہ بھی پڑھیں: ترجمہ نگاری اور غلط ترجمے سے متعلق دلچسپ واقعات
جس کا آسان ترجمہ ہے کہ اگر خون کی لہر بھی میرے سر کے اوپر سے گزر جائے، پھر بھی میں محبوب کے دروازے سے اٹھ نہیں جاؤں گا۔مگر مہاراشٹر پولیس کے فاضل ترجمہ نگار نے عدالت میں حلف نامہ دائر کرکے اس کا ترجمہ کچھ یوں کیا تھاکہ یہ نوجوان خون کی ندیاں بہانے کی باتیں اور اس کی تشہیر کرکے عوام کو اکساتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مترجم کا کام کسی تنگ رسی پر چلنے سے کچھ کم نہیں ہے۔ غلط ترجمہ کس طرح کسی عام آدمی کو سالوں تک جیل کی کال کوٹھری میں بند یا پھانسی پر چڑھا سکتا ہے۔ ہندوستان میں حکومت کے پاس مترجمین کی ایک پوری فوج موجود ہے۔ وزیراعظم کے دفتر اور دیگر سرکاری محکمے کے علاوہ، پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر سو سے زائدمترجمین اپنےفرائض انجام دیتے ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے انگریزی اور ہندی ترجمے کے علاوہ، یہ تربیت یافتہ فورس پارلیامنٹ کے اجلاس کے دوران چل رہی بحث کا براہ راست ترجمہ کرتے رہتے ہیں۔ پارلیامنٹ کے پاس سبھی 22 شیڈیولڈ زبانوں میں مترجم دستیاب ہیں۔
راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کی ادارتی دفتر کے ایک عہدیدار نے مجھے بتایا کہ ایوان کی کارروائی کے دوران اگر اراکین کسی شیڈول زبان میں درج کسی بھی علاقائی زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پیشگی اطلاع دینی ہوتی ہے تاکہ اس زبان کا مترجم بکس میں حاضر رہے۔ ایوان کی کارروائی کے دوران ایک مترجم جب کسی تقریر کا ترجمہ کرتا ہے، اس وقت اسے وہا ں موجود راکین، سرکاری حکام اور گیلریوں میں بیٹھے صحافی سن رہے ہوتے ہیں اور وہا غلطی کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
مترجم جس دباؤ کے تحت کام کرتا ہے اسے فلسفی اور شاعر مشرق سر محمد اقبال کے ایک دلچسپ قصے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جب اقبال 1932 میں پیرس گئے۔ ان کے دوست سردار عمراؤ سنگھ جو کہ مشہور مصور امرتا شیرگل کے والد تھے، نے فرانسیسی فلسفی ہنری لوئس برگساں کے ساتھ ان کی ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔سنگھ نے ان دو عظیم فلسفیوں کی ملاقات کے مندرجات ریکارڈ کرنے کے لیے ایک ہندوستانی مترجم کا بھی اہتمام کیا تھا تاکہ یہ گفتگو آنے والی نسلوں کے لیے ریکارڈ رہے۔
اقبال نے اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے کہ ملاقات کے دوران انہوں نے مترجم کو مسلسل نوٹ لیتے ہوئے دیکھا اوروہ مطمئن تھے کہ باہر جاکر برگساں کی گفتگو کی روئداد ان سے لیں گے۔ مگر گفتگو ختم ہونے کے بعد جب انہوں نے مترجم سے نوٹس شیئر کرنے کے لیے کہا تو وہ مترجم اپنی تحریرہی نہیں پڑھ پا رہا تھا۔ ایک مترجم کی وجہ سے نسلیں دو بین الاقوامی شہرت یافتہ فلسفیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات سے محروم رہ گئیں۔
مترجم کئی خفیہ اور پوشیدہ ملاقاتوں اور مشاورتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ گو کہ صحافی اپنے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے کئی بار سربراہان کے درمیان ہوئی ملاقاتوں کی تفصیلات افشاء کرتے آئے ہیں، مگر کبھی بھی یہ تفصیلات مترجموں کے ذریعے ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔
میں نے بھی کئی بار سربراہان کی ملاقاتوں کے درمیان موجود مترجموں سے اسٹوری لینے کی کوششیں کی ہیں، مگر ان کے لب جیسے سیل بند کیے ہوتے ہیں۔صحافیوں کو دیکھ کر ہی وہ دور بھاگتے ہیں۔غالباً سبھی مترجم،انٹرنیشنل ا یسو سی ایشن آ ف انٹرپریٹرس کے ذریعے طے کیے گئے ضابطہ اخلاق اور سخت رازداری کے قوانین سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل بھی کرتے ہیں۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر