سال 2021 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان پچھلے سال کے 94 ویں نمبر سے پھسل کر 101 ویں پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔آئرلینڈ کی ایجنسی کنسرن ورلڈوائیڈ اور جرمنی کے ادارے ویلٹ ہنگر ہلفے کے ذریعےمشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو ‘تشویشناک’بتایا گیا ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان116ممالک کےگلوبل ہنگر انڈیکس(جی ایچ آئی)2021 میں پھسل کر 101ویں مقام پر آ گیا ہے۔اس معاملے میں وہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے پیچھے ہے۔ سال 2020 میں ہندوستان94ویں مقام پر تھا۔
بھوک اور غذائیت پر نظر رکھنے والے گلوبل ہنگر انڈیکس کی ویب سائٹ پر جمعرات کو بتایا گیا کہ چین، برازیل اور کویت سمیت اٹھارہ ممالک نے پانچ سے کم کے جی ایچ آئی اسکور کے ساتھ سر فہرست مقام حاصل کیا ہے۔
امدادی کاموں سےوابستہ آئرلینڈ کی ایجنسی کنسرن ورلڈوائیڈ اور جرمنی کے ادارے ویلٹ ہنگر ہلفےکے ذریعےمشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو ‘تشویشناک’بتایا گیا ہے۔
سال 2020 میں ہندوستان107ممالک میں 94ویں نمبر پر تھا۔ اب 116ممالک میں یہ101ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ہندوستان کا جی ایچ آئی اسکور بھی گر گیا ہے۔ یہ سال 2000 میں38.8 تھا، جو 2012 اور 2021 کے بیچ 28.8 – 27.5 کے بیچ رہا۔
جی ایچ آئی اسکور کاحساب چار اشاریوں پر کیا جاتا ہے،جن میں غذائی قلت، غذائیت کی کمی ، بچوں کی شرح نمو اور بچوں کی اموات کی شرح شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق،پڑوسی ملک جیسےنیپال(76)،بنگلہ دیش(76)،میانمار(71)اورپاکستان(92) بھی بھو ک مری کو لےکر‘تشویش ناک صورتحال’ میں ہیں، لیکن ہندوستان کے مقابلے اپنے شہریوں کو کھانا فراہم کرانے کو لےکر بہتر مظاہرہ کیا ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس بھوک کے خلاف جدوجہدکی بیداری اور سمجھ کو بڑھانے، ممالک کے بیچ بھوک کی سطح کا موازنہ کرنے کے لیے ایک طریقہ فراہم کرنے اور اس جگہ پر لوگوں کا دھیان کھینچنا، جہاں پر شدید بھوک مری ہے، کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ملک کی کتنی آبادی کو مناسب خوراک نہیں مل رہی ہے۔ یعنی ملک کے کتنے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اس میں اس بات کی بھی تفصیلات ہوتی ہے کہ ملک میں پانچ سال کے نیچے کے کتنے بچوں کی لمبائی اور وزن (چائلڈ ویسٹنگ)ان کی عمر کے حساب سے کم ہے۔ ساتھ ہی اس میں بچوں کے اموات کی شرح کے شمار کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
حالیہ رپورٹ کے مطابق،ہندوستان میں بچوں کی عمر کےحساب سے شرح نمو 1998-2002 کے بیچ 17.1فیصدتھی، جو 2016-2020 کے بیچ بڑھ کر 17.3فیصد ہو گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،‘ہندوستان میں لوگ کووڈ -19 اور مہاماری سےمتعلق پابندیوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، دنیا بھر میں سب سے زیادہ چائلڈ ویسٹنگ کی شرح یہیں ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، بھوک کے خلاف لڑائی خطرناک طریقے سے پٹری سے اتر گئی ہے۔موجودہ جی ایچ آئی اندازوں کی بنیاد پر پوری دنیا– اور خصوصی طورپر47ملک2030 تک ہدف کے نچلی سطح کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوڈ سیکورٹی پر کئی مورچوں پر حملے ہو رہے ہیں۔جدوجہد کی بگڑتی صورتحال، عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی سےمتعلق موسمیاتی تبدیلی اورکووڈ -19 مہاماری سے جڑےاقتصادی اور صحت کے چیلنجز سبھی بھوک مری کو بڑھا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،‘خطوں،ملکوں،ضلعوں اور کمیونٹی کے بیچ وسیع تفاوت ہے اور اگر اسے بے قابوچھوڑ دیا جاتا ہے، تو یہ دنیا کو پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کو پانے سے روک سکتی ہیں۔’
اگر میں جی ایچ آئی میں ہندوستان کے خراب مظاہرہ کی بات کریں تو یہ گزشتہ کچھ سالوں سے لگاتار جاری ہے۔ 2017 میں اس انڈیکس میں ہندوستان کا نمبر100واں تھا۔ سال 2018 کے انڈیکس میں ہندوستان119ممالک کی فہرست میں103ویں مقام پر رہا، وہیں2019 میں ملک117ممالک میں 102ویں مقام پر رہا تھا۔
جی ایچ آئی عالمی،علاقائی اور قومی سطح پر بھوک کی سطح کا اندازہ کرتا ہے۔ بھوک سے لڑنے میں ہوئی پیش رفت اور پریشانیوں کو لےکر ہر سال اس کا حساب کیا جاتا ہے۔
جی ایچ آئی کو بھوک کے خلاف جدوجہد کی بیداری اور سمجھ کو بڑھانے،ممالک کے بیچ بھوک کی سطح کا موازنہ کرنے کے لیےایک طریقہ فراہم کرنے اور اس جگہ پر لوگوں کا دھیان کھینچناجہاں پر شدید بھوک مری ہے، کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
انڈیکس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملک کی کتنی آبادی کو مناسب خوراک نہیں مل رہی ہے۔ یعنی ملک کے کتنے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اس میں اس بات کی تفصیلات بھی شامل ہوتی ہے کہ ملک میں پانچ سال کے نیچے کے کتنے بچوں کی لمبائی اور وزن ان کے عمر کے حساب سے کم ہے۔ساتھ ہی اس میں بچوں کی اموات کےشرح کے شمارکو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں