سال 2021 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کے 101 ویں پائیدان پرپہنچنے کےلیےاپوزیشن پارٹیوں نے مرکز کی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ حکمرانوں کی کارکردگی پر سیدھا سوال ہے۔ وہیں سرکار نے اس گراوٹ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے رینکنگ کے لیے استعمال کیے گئے طریقہ کو ‘غیر سائنسی’ بتایا ہے۔
نئی دہلی: سرکار نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کا درجہ مزید کم ہوا ہے۔ ساتھ ہی سرکار نے رینکنگ کے لیےاستعمال کیے گئےطریقے کو ‘غیر سائنسی’ بتایا۔
واضح ہوکہ ہندوستان116ممالک کےگلوبل ہنگر انڈیکس(جی ایچ آئی)2021 میں پھسل کر 101ویں مقام پر آ گیا ہے۔اس معاملے میں وہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے پیچھے ہے۔ سال 2020 میں ہندوستان94ویں مقام پر تھا۔
رپورٹ پر شدید ردعمل دیتے ہوئے خواتین و اطفال کی ترقی کی وزارت نے کہا کہ یہ ‘چونکانے والا’ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ2021 نےغذائی قلت کی شکارآبادی کےتناسب پر فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(ایف اے او)کے تخمینے کی بنیاد پر ہندوستان کے رینک کو کم کر دیا ہے، جو زمینی حقیقت اور حقائق سے عاری ہے۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا،‘اس رپورٹ کی اشاعت ایجنسیوں،کنسرن ورلڈوائیڈاورویلٹ ہنگر ہلفےنے رپورٹ جاری کرنے سے پہلے مناسب محنت نہیں کی ہے۔’
وزارت نے دعویٰ کیا کہ اے ایف او کے ذریعہ استعمال کیا جانے والا طریقہ غیر سائنسی ہے۔
اس نے کہا،‘انہوں نے ‘چارسوالات’کی یک رائے شماری کے نتائج پر اپنا جائزہ لیاہے، جو گیلپ کے ذریعے ٹیلی فون پر کیا گیا تھا۔ اس مدت میں فی کس اشیائے خوردنی کی دستیابی جیسےغذائیت کی سائنسی پیمائش کے لیے کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہے۔ غذائیت کی سائنسی پیمائش کرنے کے لیے وزن اور اونچائی کی پیمائش کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ یہاں شامل طریقہ مجموعی طور پر ٹیلی فون کےتخمینوں پر مبنی آبادی کے گیلپ سروے پر مبنی ہے۔’
وزارت نے کہا کہ رپورٹ کووڈ 19مدت کے دوران پوری آبادی کی فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سرکار کی بڑے پیمانے پر کی گئی کوششوں کی پوری طرح سے ان دیکھی کرتی ہے، جس پرتصدیق شدہ ڈیٹا دستیاب ہے۔
وزارت نے کہا،‘سروے میں ایک بھی ایسا سوال نہیں ہے کہ کیاان کو سرکار یادیگر ذرائع سے خوراک کی کوئی مدد ملی ہے۔’
وزارت نے مزید کہا کہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ، اے ایف او کی رپورٹ ‘دی سٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹرشن ان دی ورلڈ 2021′ میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ اس خطے کے دیگر چار ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا، مہاماری کی وجہ سے نوکری/کاروبار کے نقصان اور آمدنی کی سطح میں کمی سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
وزارت نے کہا کہ 2017-19 کے مقابلے2018-20 کی مدت کے دوران یہ ملک‘غذائی قلت سے شکارآبادی کےتناسب’انڈیکس پربالترتیب4.3فیصد،3.3 فیصد،1.3فیصد اور 0.8فیصدپوائنٹس سے اپنی پوزیشن میں بہتر کرنے میں کامیاب تھے۔
رینکنگ پر سرکار کایہ ردعمل اس سچائی کےباوجودآیا ہے کہ دسمبر 2020 میں جاری قومی خاندانی صحت سروے -5(این ایف ایچ ایس-5)کے اعدادوشمار میں ملک میں غذائیت کے بحران کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔
گزشتہ جولائی میں مرکزی وزیراسمرتی ایرانی نےپارلیامنٹ میں بتایا تھا کہ پچھلے سال نومبر تک ملک میں چھ ماہ سے چھ سال کی عمر کے9.27 لاکھ سے زیادہ شدید غذائی قلت والے بچوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ان میں سے 3.98 لاکھ سے زیادہ بچے اکیلے اتر پردیش سے ہیں۔
اپوزیشن نے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی رینک میں گراوٹ کو لےکر سرکار کو نشانہ بنایا
کانگریس نے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی رینک میں گراوٹ کو لےکرجمعہ کو مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ یہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے بھروسےاورکارکردگی پر سیدھا سوال ہے۔
پارٹی کےترجمان رندیپ سرجےوالا نے ٹوئٹ کیا،‘اب بھوک مری میں نئے ریکارڈ!اگر ملک کے لوگ بھر پیٹ کھانا بھی نہ کھا سکیں تو تخت پر بیٹھے بادشاہ کے بھروسےاور کارکردگی پر سیدھا سوال ہے؟ کیا کوئی سنےگا؟’
अब “भुखमरी” में नए कीर्तिमान !
अगर देश के लोग भरपेट खाना भी न खा सकें तो सत्ता के सिंहासन पर बैठे बादशाह की विश्वसनीयता व कुशलता पर सीधा सवाल है?
क्या कोई सुनेगा?#WorldHungerIndex pic.twitter.com/7oYVzW98Ji
— Randeep Singh Surjewala (@rssurjewala) October 15, 2021
راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملیکارجن کھرگےنے کہا کہ یو پی اےکی جانب سے بھوک کو ختم کرنے کے لیے کی گئی کوششوں، جیسے’رائٹ ٹو فوڈ’ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے اور غریبوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،‘حکومت ہند کو جلد ہی اپنی ناکامیوں کو خود ٹھیک کرنا ہوگا۔’
کانگریس کے سینئر رہنما کپل سبل نے بھی مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سبل نے سرکار پر طنز کرتے ہوئے کہا،‘مودی جی کو مبارکباد: 1) غریبی 2) بھوک 3) ہندوستان کو عالمی طاقت بنانا 4)ہماری ڈیجیٹل معیشت کے لیے5)… اور بھی بہت کچھ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس: 2020: ہندوستان 94ویں مقام پر ہے۔ 2021: ہندوستان101ویں مقام پر ہے۔’
اس کے علاوہ کانگریس ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا، ‘اب ہم اپنے پڑوسیوں بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان سے بہت پیچھے ہیں۔’
انہوں نے کہا،‘ہمارے نئے حریف افغانستان(103)،نائیجیریا(103)،پاپوا نیو گنی(102)،کانگو (105)،وغیرہ ہیں۔شکریہ، مودی جی!’
راشٹریہ جنتا دل کےرہنما لالو پرساد یادو نے کہا کہ مرکزی حکومت کی غریب مخالف اسکیموں کی وجہ سے ہندوستان کو انڈیکس میں116 میں سے 101واں مقام حاصل ہوا۔
Due to anti-poor policies of the central government, India has got 101 ranking out of 116 countries in the Global Hunger Index. At this stage India will now have to compete with a country like Somalia. Shameful!
On this Dussehra, let's burn the #Ravana of hunger. pic.twitter.com/rTuVElmSKx
— Lalu Prasad Yadav (@laluprasadrjd) October 15, 2021
انہوں نے ٹوئٹ کیا،‘مرکزی حکومت کی غریب مخالف پالیسیوں کی وجہ سے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کو 116ممالک میں سے 101واں مقام ملا ہے۔ اس سطح پر ہندوستان کو اب صومالیہ جیسےملک سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ شرمناک!’
وہیں، سی پی آئی ایم نے سرکارکو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کی پالیسیاں بری طرح ناکام رہی ہیں اور لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
The policies of Modi Govt have failed miserably and people continue to suffer. The unplanned lockdown has added to misery of the people. India slips to 101st spot in global hunger index despite the fact that food grains are rotting in Govt godowns. https://t.co/vlCkCMSOlx
— CPI (M) (@cpimspeak) October 15, 2021
اس نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘مودی سرکار کی پالیسیاں بری طرح ناکام رہی ہیں اور لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ غیرمنصوبہ بند لاک ڈاؤن نے لوگوں کے دکھ کو اور بڑھا دیا ہے۔اس سچائی کے باوجود کہ سرکاری گوداموں میں اناج سڑ رہا ہے، ہندوستان گلوبل ہنگر انڈیکس میں 101ویں نمرپر کھسک گیا ہے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں