ادبستان

بک ریویو: اس نے کہا تھا-ہمارے تعصب کی دبیز پرتوں کو تہہ در تہہ اور بڑے صبر وضبط کے ساتھ کھولتا ہے

ہم جنس پرستوں کے تئیں سماج کا تعصب بیش از بیش اس کا جنسی پہلو ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ جنس یا شہوت انسانی زندگی کا ایک لمحاتی حصہ ہے، بہت ہی محدود وقت کا کھیل ہے اصل چیز دو پیار کرنے والوں، خواہ وہ جنس مخالف ہوں یا ہم جنس ، کی ایک دوسرے سے محبت ہے ، قربت کی چاہ ہے نہ کہ جنس کا کھیل۔

Usne kaha tha

اچھا قاری پڑھتا ہے۔ کتاب اچھی نہ لگے تب بھی کوشش کرتا ہے کہ پڑھ تو لیا جائے۔ شاید کچھ کام کی بات مل جائے۔ اچھی کتاب اپنے کو پڑھواتی ہے۔ اگر آپ کسی وجہ سے نہ پڑھنا چاہیں تب بھی۔ اور کوئی کوئی کتاب تو ایسی ہے کہ اپنے کو بار بار پڑھواتی ہے۔ ’اس نے کہا تھا‘کو میں نے اسی طرح کی کتاب پایا۔ یعنی پہلے تو پڑھنے کا جی نہیں چاہا۔ جانتا تھا یہ ناول اس طبقے /طبقات کی زندگی پر ہے جس کو دیکھنے کے لیے میں اب تک کوئی مانوس نظر پیدا نہیں کر سکا، حامی ہونا تو دور کی بات ہے۔

پھر یہ خیال کہ ناول ہے ، کہانی ہے تو اس طبقے اور اس کےکرداروں کے بارے میں ہمدردی سے ہی غور کیا گیا ہوگا۔ یہ ادب ہی تو ہے جو سب کی داد رسی کرتا ہے۔ جنھیں مذہب نہیں مانتا، سماج نہیں تسلیم نہیں کرتا، قانون جس کی یاوری نہیں کرتا وہ ادب کی پناہ گاہ میں جگہ پاتے ہیں ، یہیں ان کے زخموں پہ مرہم رکھا جاتا ہے اور یہیں تو ان کی انسانی توقیر بحال ہوتی ہے۔ تو ظاہر ہے کہ جب موضوع اور مقصدمعلوم ہوتو اسے پڑھنے میں قیل وقال واجب ہے۔ لیکن کتاب سامنے ہو تو بودا سے بودا قاری بھی کچھ الٹ پلٹ کے دیکھتا ہی ہے۔

یوں الٹتے پلٹتے پڑھنے کا سفر شروع ہوا۔ اور اس طرح کہ ایک ایک لفظ پڑھا اور ہر ہر لفظ میں زندگی کے سرد و گرم کو محسوس کیا ۔ بیس پچیس صفحہ پڑھتے پڑھتے میں یہ بھول گیا کہ یہ اردو کا ناول ہے، کیونکہ اردو میں اب تک جتنا بھی فکشن لکھا گیا ہے، کسی نے ہم جنسی کے موضوع کو اس طرح انگیز نہیں کیا۔ اب تک ایسی کہانیاں لکھی گئیں جن میں اچانک منظر بے پردہ ہوتا ہے اور قاری ایک طرح کے صدمے میں آپ کو مبتلا پاتا ہے۔

لیکن یہاں ہم جنسی کی کم وبیش تمام شکلیں موجود ہیں ۔ کہانی کار نے ان بظاہر کج رو کرداروں کے ساتھ سائے کی طرح سفر کیا، ان کی باتیں، ان کی سر گوشیاں ، ان کی خود کلامیاں سنیں ، ان کے دل پر ہاتھ رکھ کر دھڑکنوں کو محسوس کیا، ان کو پہلو میں بٹھا کر اور شانے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی کہ اگر ہم غلط نہیں ہیں تو تم بھی غلط نہیں ہو ۔ بس یہ ہے کہ ہم نے تمھیں اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا، ہماری انگلیوں نے تمھاری روح کی نازکی کو نہیں چھوا تھا۔

چنانچہ میں وثوق سے کم از کم ایک بات تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناول اردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب تک جانے کتنی کتابوں کے بارے میں آپ نے یہ گھسا پٹا فقرہ سنا ہوگا ،تو واضح کر دوں کہ موضوع کے ساتھ وہ نقطۂ نظر بھی ہوتا ہے جو کسی متن کو موضوعی ندرت سے قطع نظر بلندی تک لے جاتا ہے۔ یہ فکری بالیدگی ہےاور عمومیت کا پردہ ہٹا کر زندگی سے نظر ملانے کی قوت ہے جو فن پارہ کو ارتفا ع اور احترام کے مقام تک لے جاتی ہے اور پھر تیسری اور آخری بات ماجرا سازی، کردار سازی ، بیانیہ یعنی فکشن کے بدیہی فنی عناصر ہیں ۔ یہ عناصر بھی ذرا کمزور بے ربط ، غیر منطقی اور مصنوعی معلوم ہوئے تو فن پارہ ارفع مقام تک نہیں پہچ پاتا۔

’اس نے کہا تھا‘ کو پڑھتے ہوئے قاری ان تمام مراحل سے یوں گزرتا ہے کہ شریانوں میں خون کی گرمی محسوس ہوتی ہے اور ذہن کرداروں کے دکھ کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے اور اور ذہن رد و قبول کی کشاکش سے لگاتار نبر د آزما رہتا ہے تا آنکہ جب ناول کا آخری لفظ بھی خرچ ہو چکا ہوتا ہے تب قاری کے فکر واحساس کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ تو یہ جو میں نے اضافہ کی بات کہی ہے تو مضبوط بنیادوں پر کہی ہے۔ سو ایک با ر اور اس فقرہ کو قبول کیجیے اور اپنے اپنے نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھیے۔ کم از کم اس بار آپ کو یہ فقرہ رائیگاں نہیں معلوم ہوگا۔

ناول ان کرداروں کی زندگیوں کے بارے میں ہے جن کے بارے میں سب سے سامنے کی اور سب سے موٹی بات یہ کہی یا سمجھی جاتی ہے کہ ان کی جنسی ترجیح غیر فطری ہے۔ ہم جنسی نظام فطرت کی نفی ہے یا کم از کم سماج اسے اسی طرح دیکھتا ہے۔ پھر یہ بھی غیر فطری بات سمجھی جاتی ہے کہ کوئی مرد زنانہ لباس پہنے یا لپ اسٹک لگائے یا کوئی عورت کسی عورت پر غالب ہو، یا کوئی مرد اپنی جنس ہی تبدیل کروالے۔ اس بات کا کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواز شاید نہ ہو کہ یہ معیوب کیوں ہے ۔

ہاں یہ کہ مفروضہ ہے اور اس میں کیا شک کہ سماج مفروضوں سے تشکیل پاتا ہے۔ مفروضوں ہی سے سماج کا پورا نظام قائم ہوتا ہے۔ اس کے نیک و بد، جائز نا جائز، سچ جھوٹ سب مفروضوں کی ہی تجسیم ہیں۔ اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ، کیونکہ مفروضے نہ ہوں تو سماج میں ابتری پھیل جائے گی۔ مگر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مفروضے ہی ہیں جو سماج کی گردن پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار ہو جاتے ہیں، تعصب میں بدل جاتے ہیں اور تعصب ایک ایسی چیز ہے جو کسی دوسرے زاویۂ نظر کو قبول کرنے نہیں دیتی۔

’اس نے کہا تھا‘ ہمارے تعصب کی دبیز پرتوں کو تہہ در تہہ اور بڑے صبر وضبط کے ساتھ کھولتا ہے ،یہاں تک کہ جب ہم اپنے تعصب سے پاک ہوتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اس عمل میں انسان کی انگلیاں کیسی لہولہان ہیں اور جان جاتے ہیں کہ ہمارے ہی کارن اس کا دل کیسا زخموں سے چور ہے۔

ہم جنس پرستوں کے تئیں سماج کا تعصب بیش از بیش اس کا جنسی پہلو ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ جنس یا شہوت انسانی زندگی کا ایک لمحاتی حصہ ہے، بہت ہی محدود وقت کا کھیل ہے اصل چیز دو پیار کرنے والوں، خواہ وہ جنس مخالف ہوں یا ہم جنس ، کی ایک دوسرے سے محبت ہے ، قربت کی چاہ ہے نہ کہ جنس کا کھیل۔ اور یہ بات ناول میں بکھری تمام کہانیوں میں ایک مشترک عنصر کی طرح ہے۔

یوں بھی جب موضوع جنس ہو تو لکھنے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی ذات کی تطہیر کر لے ورنہ قدم قدم پر لذتیت کے گڑھے میں گرنے کا ڈر رہتا ہے لیکن جب مقصود جنس ہے ہی نہیں بلکہ انسان کی روح کے زخم دکھانا ہے اس پر ہونے والے جبر اور تحقیر کو سامنے لانا ہے اور انسان کو اس کے انسانی مقام پر قائم کرنے کی سعی ہو تو اگر قلب مصفا نہ ہو تو ایک لفظ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ اور جب میں اس زاویہ سے سوچتا ہوں تو لگتا ہے ناول نگار یعنی ہمارے اشعر نجمی ایک عارف کی طرح ان تاریک راہوں سے بہ سلامت گزر گئے۔

ناول میں مختلف کرداروں اور مختلف زماں و مکاں میں سکونت پذیر لوگوں کی ایک بہت بڑی دنیا آباد ہے ۔ اس میں پیچ در پیچ، مربوط اور غیر مربوط ڈھیروں کہانیاں ہیں جنھیں آپ پڑھتے اور بھولتے جاتے ہیں کیونکہ جو کردار ابھی آپ کے سامنے سے گزرے ہیں وہ دوبارہ کہانی میں شامل ہوں گے کہ نہیں ،کہا نہیں جا سکتا کیونکہ پھر کسی اور کی کہانی شروع ہو جا رہی ہے۔

پھر وہ بھی اس طرح کہ کردار دھندلکے میں ہیں۔ اکثر دو کردار ہیں اور خلوت ہے اور کبھی کبھی تو خلوت کا یہ عالم کہ ایک کردار کے حافظہ میں اس کے ہمراہی دیگر کردار۔ اایسا لگتا ہے کہ ناول نگار اپنے کرداروں کو کوئی شکل دینے سے گریز کر رہا ہے، صرف ان کے سلہوٹ (silhouette) دکھا رہا ہے۔

شاید اس لیے کہ کہیں آپ ناک نقشہ، رنگ روپ، قد کاٹھ ، ہاڑ مانس کو پہچاننے کے چکر میں اس کی کہانی کا مرکزہ نہ کھو دیں جس میں از اول تا آخر ایک غیر روایتی محبت ہے( اگر چہ کمبخت اتنی ہی سچی، دلگداز اور وفا شعار ہے جتنی محبت کی کوئی اور داستان ہو تی ہے!(دنیا کی شرم ہے ، گھر اور سماج کاخوف ہے اور دوسری طرف اپنے فطری اور جبلی وجود کو عام انسانی شناخت دینے کی تڑپ ہے۔ )

ناول کے کردار ہر سماج ، ہر طبقے، ہر مذہب، ہر ملک، ہر خطے، ہرعمر اور ہر زمانے کے ہیں ماضی سے حال تک۔ مستقبل، ظاہر ہے اس کی کوکھ میں ہو گا ہی ۔ یہ کردار اپنی خلوت کی دنیا میں اپنے آپ سے سرشار ہیں اپنی اپنی محبتوں سے مخمور ہیں لیکن دنیا کے سامنے آتے ہی یہ پیچ در پیچ نفسیاتی الجھنوں کے بھی شکار ہیں۔ ان کے خواب بیشتر خوابوں کا کابوس بن جاتے ہیں۔ ان کے سپنے کبھی اپنی من چاہی لکیر پر سفر نہیں کر پاتے۔ سیدھے سچے سپنے ٹوٹ کر کرچیوں میں بکھر جاتے ہیں اور ہر کرچی میں خوابوں کی مسخ شدہ شکلیں نظر آتی ہیں۔

اس کے سارے ابواب اور سارے کرداروں اور وقوعات کی تشریح و تفہیم کا بار گراں کم از کم مجھ سے تونہیں اٹھایا گیا مگر ایک غیر مرئی دھاگہ ہے جس میں کتاب کا ہر فقرہ، ہر پیرا ، ہر صفحہ ابتدا سے اختتام تک ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔ ناول کی تکنیک بالکل غیر روایتی ہے ۔ کبھی غائب راوی کہانی سناتا ہے کبھی حاضر راوی ۔ کہیں کرداروں کی خود کلامی ہے۔ کہیں سنیما کی تکنیک کی طرز پر محض سلائیڈ ہیں۔ کہیں خواب کہیں واہمہ، کہیں زندگی اور موت کے درمیان معلق حافظہ جو دنیا کے شعور میں اپنا شعور آمیز نہیں کر سکتا مگر ایک پلڑے میں ماضی اور ایک میں حال کو رکھ کر تول سکتا ہے۔

خود مصنف نے کرداروں کے چہرے پر پردہ ڈال دیا ہے اور بعض مقامات پر تو آواز بھی اپنا راستہ بھٹک بھٹک جاتی ہے۔ دراصل یہ بہت ساری کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے جنھیں اگر الگ الگ ابتدا ،عروج اور اختتام والے پیٹرن پر لکھا جاتا تو درجنوں کہانیاں نکلتیں اور سینکڑوں صفحات لگ جاتے مگر پھر یہ ہوتا کہ ایک ایک تصویر دیکھتے اور اس کی محویت میں ان تمام کہانیوں کی مرکزیت تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس لیے مصنف نے تصویروں کا البم نہیں بنایا بلکہ کولاژ بنا کر رکھ دیا ہے۔

ناول کا مکانی پس منظر ہندوستان ہے اور اس کے مختلف خطے ہیں ، زمانہ آج کا ہے جب کہ عدالت نے ہم جنسی کو کم از کم مجرانہ فعل کے زمرے سے خارج کر دیا ہے ۔ اس سے کسی کو یہ گمان نہ گزرےکہ یہ کوئی آج کا ، مغربی مادیت کا پید ا کردہ فساد ہے۔ ناول بڑی صفائی سے یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ جو آج ہے اس کی پیٹھ پر ماضی کا مسہ بھی موجود ہے جس تک کوتاہ دست نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اب سے پہلے جانے کتنے سرمد ، سکھنڈی ، بابر ، خلجی ، معتصم گزر چکے۔

ادب کسی صداقت کو نہیں، تجربے کو بیان کرتا ہے اس لیے ادب کو کسی صداقت کے طور پر نہیں بلکہ صداقت کے ایک جزو کے طور پر پڑھنا چاہیے۔ ایک ایسا جز جس کی تشکیل اس کا سیاق و سباق کرتا ہے۔ اسی طرح ادیب کوئی سماجی کارکن نہیں ہوتا ۔ وہ کسی مسئلہ کے حق میں یا مخالفت میں کوئی ایسی دلیلیں نہیں دیتا جنھیں کسی عدالت میں حلف نامہ کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ ادیب نعرہ نہیں لگاتا، مناظرہ نہیں کرتا، جرح نہیں کرتا۔ وہ حق اور مخالفت دونوں ہی بحثوں کے درمیان سے گزر کر اس جگہ پہنچتا ہے جہاں دلیلوں کا شور مدھم ہو جاتا ہے اور انسان کی وہ آواز سنائی دیتی ہے جو پر شور بحثوں میں نہیں سنائی دے سکتی۔

اشعر نجمی نے یہ بار گراں اس قدر سبک روی سے اٹھا لیا کہ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی مصنف کا پہلا ناول ہے۔ ناول بھی ایسا کہ جس میں تاریخ، سماج ، مذہب، قومیت سب انسان کی ٹھوکر میں پڑے نظر آرہے ہیں اور انسان ہے کہ پتھروں کی بارش میں بھی محبت کو زندہ رکھنے کی کوشش کیے جا رہا ہے۔

’اس نے کہا تھا‘ہمارے تعصب کی دبیز پرتوں کو تہہ در تہہ اور بڑے صبر وضبط کے ساتھ کھولتا ہے یاں تک کہ جب ہم اپنے تعصب سے پاک ہوتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اس عمل میں انسان کی انگلیاں کیسی لہولہان ہیں اور جان جاتے ہیں کہ ہمارے ہی کارن اس کا دل کیسا زخموں سے چور ہے۔

پس نوشت: کسی کتاب پر لکھنے کا آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ کتاب سامنے ہو اور کھلی ہو۔ اور آپ نے اپنی پسند کے فقرے ٹکڑے، پیرا، مکالمہ، مشاہدہ، بیان جو نشان زد کر رکھے ہوں ا نہیں مضمون میں جوڑتے جائیں تاکہ حجت مدلل ٹھہرے۔ لیکن اس کتاب پر اپنے تاثرات لکھنے کا شست باندھاتو اس طرح کہ کتاب میرے سامنے تک نہیں تھی۔وجہ: یہ کتاب سامنے ہو تو اسےبس آپ پڑھ سکتے ہیں۔ لکھ نہیں سکتے۔ اسے پڑھنے کے نشے کے آگے لکھنے کا مزہ خاک نہیں۔

(مضمون نگار ماہنامہ ’آج کل‘،نئی دہلی کے سابق ایڈیٹر  ہیں۔)