خبریں

’عوامی درخواست‘ نہیں، وزیر اعظم مودی کے ٹوئٹ کی وجہ سے بدلا گیا راجیو گاندھی کھیل رتن کا نام

خصوصی رپورٹ: ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں موصولہ دستاویز بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹوئٹ کیے جانے کے بعد وزارت کھیل کو راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر میجر دھیان چند کے نام پر رکھنا پڑا تھا۔وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹ میں‘اس بارے میں عوام سے درخواست ملنے’کی بات بھی کہی تھی، حالانکہ وزارت کھیل کے پاس ایسے کسی درخواست  کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

دہلی کے دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

دہلی کے دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: اس سال اگست مہینے میں جب ہندوستانی ٹیم اولمپک کھیلوں میں اچھا مظاہرہ کر رہی تھی، اسی دوران اچانک سے ایک خبر آئی کہ ‘راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ’کا نام بدل کر ‘میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ’کر دیا ہے۔ملک کو یہ خبر کسی اور سے نہیں، بلکہ براہ راست وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹوئٹ سے ملی تھی۔

اس معاملے کو لےکرہرطرف بحث چھڑ گئی تھی۔ کسی نے اس کو مودی سرکار کےذریعےکانگریس پریوار کی توہین کرنے اور ان کی حصولیابیوں کو مٹانے کی ایک نئی چال قرار دیا تھا توکسی نے اسے میجر دھیان چند کا احترام کہا تھا،وہیں کچھ لوگوں نے اس فیصلےکی کارروائی پر سوال اٹھایا اور پوچھا کہ آخر کس بنیاد پرمرکز نےیہ فیصلہ لیا ہے۔

اول تو میجر دھیان چند کے نام پر پہلے سے ہی ایک ایوارڈ دیا جا رہا تھا، لیکن چھ اگست کو وزیر اعظم مودی نے اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ ‘عوام نے ان سے یہ گزارش کی تھی کہ کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدل کر میجر دھیان چند کے نام پر کیا جائے۔’

حالانکہ وزیر اعظم کے اس دعوے کی تصدیق کے لیےوزارت کھیل کے پاس ایسے کوئی دستاویز نہیں ہیں، جس میں ایوارڈ کا نام بدلنے کو لےکرعوام کی درخواستوں کا کوئی ذکر ہو۔ عالم یہ ہے کہ وزارت نے وزیر اعظم مودی کے ٹوئٹ کے بعد ہی راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدلنے کا فیصلہ کیا تھا اور آناً فاناً میں حکام کے ذریعےاس کا سرکولر جاری کیا گیا تھا۔

دی وائر کوآر ٹی آئی قانون کے تحت ملے دستاویزوں سےیہ جانکاری سامنے آئی ہے۔

وزارت کھیل و امور نوجواں، حکومت ہند نے سے یہ قبول کیا ہے کہ ان کے پاس اس ایوارڈ  کا نام بدلنے کو لےکر عوام سے کوئی درخواست یا گزارش موصول ہونےکےسلسلے کوئی دستاویز نہیں ہیں۔

معلوم ہو کہ وزیر اعظم کو لکھے گئےخط کو اس کے موضوعات کے لحاظ سےمتعلقہ وزارت یا محکمہ کے پاس ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔

دی وائر نے آٹھ اگست 2021 کو ایک آر ٹی آئی دائر کی تھی، جس میں یہ پوچھا گیا تھا کہ اس ایوارڈ کا نام بدلنے کو لےکر سرکار کو کل کتنی  درخواستیں  موصول ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان درخواستوں کی فوٹوکاپی کی بھی مانگ کی گئی تھی۔

حالانکہ وزارت کی انڈر سکریٹری اور سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسرشانتا شرما نے کہا، ‘اس سلسلے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔’

اتنا ہی نہیں یہ فیصلہ لینے سے پہلے وزارت نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ بھی کوئی مشورہ نہیں کیا تھا اور صرف وزیر اعظم کے ٹوئٹ کی بنیاد پر ہی ایوارڈ کا نام بدلا گیا۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو پہلے مودی نے ٹوئٹ کیا اور بعد میں ایوارڈ  کا نام بدلا گیا۔

وزیر اعظم کے ٹوئٹ کو ‘سرکار کے فیصلے’ میں تبدیل کرنے کی افسروں کی بےچینی اور عجلت پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس فائل میں وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے یہ منظوری دی تھی، اس میں کئی جگہوں پر ‘اسپیلنگ’ جیسی بنیادی غلطیاں ہیں۔

اس فیصلے کی فائل میں منسلک دستاویزوں کی شروعات وزیر اعظم کے ٹوئٹ سے ہوتی ہے۔ اس میں ان کے تین سلسلےوار ٹوئٹس کی فوٹو لگائی گئی ہے، جس کی بنیاد پر ایوارڈ  کا نام بدلنےسے متعلق منظوری حاصل کرنے کے لیے فائل نوٹنگس تیار کی گئی تھی۔

اس پوری قواعد کے دوران وزارت کے افسروں کے سامنے تذبذب کا عالم تھا  کہ  میجر دھیان چند کے نام پر پہلے ہی ایک ایوارڈ‘دھیان چند ایوارڈ’دیا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا کیا جائے۔ بعد میں انہوں نے یہ فیصلہ لیا کہ آگے چل کر اس کا بھی نام بدل دیا جائےگا۔

Major DhyanChand Award Files by The Wire

چھ اگست 2021، جس دن مودی نے ٹوئٹ کیا تھا، کو سیکشن آفیسر(ایس پی IV) نے سریندر نےتجویز تیار کرتے ہوئے لکھا، ‘راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ، جس کاقیام1991-92 میں ہوا تھا، کا نام بدل کر میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ کرنےکی تجویز کی گئی ہے۔’

انہوں نے آگے لکھا، ‘یہ بھی تجویز دی جاتی ہے کہ چونکہ اسپورٹس میں لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے سال 2002 میں‘دھیان چند ایوارڈ’کاقیام کیا گیا تھا، تو اس کا بھی نام بدلا جائے۔ عزت مآب وزیر اعظم کے ٹوئٹ کی کاپی اور کھیل رتن ایوارڈ اور دھیان چند ایوارڈ اسکیموں کو فائل میں منسلک کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سرکولر جاری کرنے کے لیے منظوری دی جائے۔’

اس کے بعد اس کو منظوری دیتے ہوئے جوائنٹ سکریٹری اتل سنگھ اور وزارت کےاس وقت کے سکریٹری روی متل نے نوٹنگ پر دستخط کیا۔ دونوں سینئر افسروں نے اس پر اتفاق کیا کہ ‘دھیان چند ایوارڈ’ کا بھی نام بدلا جائے۔

اس کے بعد خود سکریٹری(اسپورٹس)روی متل نے ایک اور نوٹ تیار کیا، جس کو منظوری کے لیے وزیرکھیل  کے پاس بھیجا جانا تھا، اور اس میں راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدلنے کے علاوہ دھیان چند ایوارڈ کا بھی نام بدلنے کی منظوری مانگی گئی۔

دھیان چند ایوارڈ کا نام بدلنے کو لےکر تین متبادل دیےگئے تھے، جس میں اس ایوارڈ کا نام بدل کر ‘لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ان اسپورٹس اینڈ گیمس’ کرنے، یا اسے ‘ملکھا سنگھ ایوارڈ فار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ان اسپورٹس اینڈ گیمس’ کرنے یا پھر بعد میں اس پر فیصلہ لینے کا اختیار شامل تھا۔

وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سلسلے میں بعد میں فیصلہ لیا جائےگا اور راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدلنے کی منظوری دے دی۔

دستاویزوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس فیصلے میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرس جیسے کہ صوبوں/یونین ٹریٹری، نیشنل اسپورٹس فیڈریشن آف انڈیا، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا، انڈین اولمپک ایسوسی ایشن وغیرہ کے ساتھ کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا۔

اس ایوارڈ کا نام بدلنے کے تقریباً ایک مہینے بعد اس سے متعلق اسکیم کو نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس ایوارڈ کا مقصد پچھلے چار سالوں میں کھیل کےشعبے میں شاندار اور سب سے نمایاں مظاہرہ کرنےوالے کھلاڑی کو اعزاز دینا ہے۔ ہر سال کسی ایک کھلاڑی کو یہ اعزاز دیا جائےگا۔

اس میں یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ وزیر کھیل اس اسکیم کے کسی بھی اہتمام میں تبدیلی کر سکتے ہیں یا چھوٹ فراہم کر سکتے ہیں۔

معلوم ہو کہ تین بار کےاولمپک میڈل فاتح دھیان چند کوہندوستان  کا لیجنڈری  ہاکی کھلاڑی مانا جاتا ہے۔ 29 اگست کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر نیشنل اسپورٹس ڈے منایا جاتا ہے اور اسی تاریخ کو ہر سال کھیل کے لیے قومی ایوارڈ دیےجاتے ہیں۔

اس بار کے اولمپک کھیلوں میں جب ہندوستان کی ہاکی ٹیم شاندار مظاہرہ کر رہی تھی، اس دوران میجر دھیان چند کو بھارت رتن دینے مانگ کی ایک بار پھر سے زور شور سے اٹھی تھی۔

حالانکہ مودی سرکار نے ان مطالبات کوتسلیم نہیں کیا، لیکن انہوں نے ملک کے سب سے بڑے کھیل ایوارڈ‘راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ’ کا نام بدل دیا، جبکہ دھیان چند کے نام پر پہلے سے ہی ایک ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔

دی وائر نے اس سے پہلے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم دفتر(پی ایم او)نے اس سلسلے میں کوئی جانکاری دینے سے انکار کر دیا تھا اور آر ٹی آئی ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مانگی گئی جانکاری ‘انفارمیشن’ کی تعریف کے دائرے سے باہر ہے۔

اتنا ہی نہیں، دفتر نےعرضی گزار پر ہی الزام لگا دیا کہ وہ اس طرح کی اطلاع کی مانگ کرتے ہوئے گھما پھراکر کچھ جانچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دو سال پہلے سے چل رہی تھی بات

بتا دیں کہ کھیل رتن ایوارڈ کا نام بدلنے پر بات کم از کم پچھلے دو سالوں سے چل رہی تھی۔ فروری 2019 میں امور نوجواں اور وزارت کھیل کے ذریعے بنائے گئے ایوارڈ اورخصوصی(نقد)ایوارڈ،اسکیم کی نظرثانی کمیٹی کے ذریعے نام تبدیلی  کامشورہ  دیا گیا تھا۔

جسٹس(سبکدوش)اندرمیت کور کوچر کی قیادت والی کمیٹی میں شو کیشون، اشونی نچپا، موہن داس پئی، راجیش کالرا اور ایس پی ایس تومر (کھیلوں کی وزارت میں ڈپٹی سکریٹری اور اسپورٹس ایوارڈز کے انچارج) شامل تھے۔

کمیٹی نے کہا تھا کہ ‘راجیو گاندھی سیدھے طور پر کھیلوں سے نہیں جڑے ہیں، لیکن ان کے نام پر پچھلے 26 سالوں سے یہ ایوارڈ  دیا جا رہا ہے۔ اس کا نام بھارتیہ کھیل رتن رکھنا زیادہ سہی رہےگا۔’

حالانکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اتفاق رائے سے یہ بھی فیصلہ لیا تھا کہ ‘اس وقت کھیل ایوارڈ کی اسکیموں کے نام بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔’

کانگریس نے میجر دھیان چند کے نام پر کھیل رتن ایوارڈ کا نام رکھنے کے فیصلے کاخیرمقدم کیا تھا۔

لیکن ساتھ ہی نریندر مودی کے نام پر کرکٹ اسٹیڈیم کا نام رکھنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب سے مختلف اسٹیڈیموں کے نام پی ٹی اوشا، ملکھا سنگھ، میری کام، ابھینو بندرا، سچن تینڈولکر، پلیلا گوپی چند، سنیل گاوسکر، کپل دیو، ثانیہ مرزا اور لی اینڈر پیس جیسے لوگوں کے نام پر رکھے جائیں۔