دہشت گردی یا فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیےخطرات تو ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں سے، اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ویسے دونوں ممالک کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔
اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت گلاسگو میں جہاں اس وقت 26ویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے، ہونا تو چاہیے تھاکہ جنوبی ایشیائی ممالک ماحولیاتی ایشوز کو لےکر کوئی مشترکہ حکمت عملی اپناتے، کیونکہ تقریباً اس پورے خطے میں ہر سال کہیں خشک سالی تو کہیں سیلاب،تپش، سمندری طوفان اور اب جاڑوں میں ہوائی آلودگی کی وجہ سےسینکڑو ں افراد لقمہ اجل ہو جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ 2009میں کوپن ہیگن میں اسی طرح کی کانفرنس سے قبل اس وقت کے ہندوستان کے وزیر ماحولیات جئے رام رمیش نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اقبال خان سے ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ دونوں ممالک ماحولیات سے متعلق مشترکہ موقف اپنائیں گے اور اس کے بعد اشتراک کی راہیں ڈھونڈیں گے۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ بجائے مشترکہ حکمت عملی کے2014کے بعد تو ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ مشترکہ دریاؤں کے پانی کو بھی روکنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
ماحولیات کے معاملے میں دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک اس لیے اشد ضروری ہے کیونکہ دریائے سندھ اور اس کی معان ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیر تیزی کے ساتھ پگل کر ختم ہو رہے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے کشمیر کے سب سے بڑے کلاہوئی گلیشیر کی ناک 22میٹر سے زائد پگل چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار2007کے ہیں۔ اس کے بعد تو مزید تباہی آگئی ہوگی۔
اس کے اطراف کے چھوٹے گلیشیر تو کب کے ختم ہو چکے ہیں۔ ہمالیہ خطے کے 15000گلیشیر دنیا کے چاربڑے دریاؤں سندھ، گنگا، میکانگ اور برہم پترا کے لیے منبع کا کام کرتے ہیں۔ تقریباً چار بلین افراد کی زندگیاں ان دریاؤں کے پانیوں کی مرہون منت ہے۔ ہندوستان کے ایک سینئر سائنسداں ایم این کول کے مطابق ان 15ہزار گلیشیروں میں 6500ہندوستان میں اور پھر ان میں3136کشمیر اور لداخ خطے میں ہیں۔ پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔
اس کی ایک شاخ کرگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادی کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرکے گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی سندھ تاس میں آباد ہے اور اس کی 80فیصد خوراک کی ضروریات سندھ اور اس کی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔
ان گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک و ٹوک آمد و رفت اور مذہبی یاتراؤں کو سیاست اور معشت سے جوڑنے سے ہے۔ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی ہندوستان کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری اس کی اہم مثال ہے۔
دو دہائی قبل تک کشمیر میں امرناتھ یاترا کےلیےمحدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔اور اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے،تاکہ ہندوستان کے دعویٰ کو مزید مستحکم بنایا اور جواز پیدا کرایا جاسکے۔ 1996 میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے اس علاقہ میں 200 سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔
اس حادثے کی انکوائری کے لیے ہندوستانی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ‘ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت والی‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میں کرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی جب کوشش کی تو بزعم خویش ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنماؤں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششو ں کو ناکام بنادیا۔
حدتو اس وقت ہوگئی جب 2005 میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر جنرل (ر)ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافہ کی تجویز پر اعتراض کیاتو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفیٰ پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میں مہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو امرناتھ کی یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔ اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح امر ناتھ کو بھی سیا حت اورہندوستان کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کی گئیں۔
پروفیسر کول کے مطابق اگر اس علاقے میں اسی طرح ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے ہندوستانی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔
ہندوستانی حکومت نے حالانکہ ملک کے بیشتردریاؤں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیں نظر آتی ہے۔ 2008میں ہی اتراکھنڈ صوبہ میں ماحولیات کے تحفط کے لیےوہاں کی اس وقت کی ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف 250سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبع گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔
اس کا موازنہ اگر آپ سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کلاہوئی گلیشیر کے ساتھ کریں تو وہاں ہر روز اوسطً20ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔
حکومت ہند کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غور کرے۔
ہندوستان کے ایک مؤخر ادارے دی انرجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بھی اپنی ایک اسٹڈی میں دعویٰ کیا تھا کہ دریائے چناب کے طا س کے گلیشیروں میں بھی21فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نجوان اکل گلیشیر تو پوری طرح پگھل چکا ہے۔ ماہرین نے مطابق تھجواسن، زوجیلا اور ناراناگ کے گلیشیر بھی بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ امرناتھ مندر کے غار کے اوپر کا گلیشیر، جس کی وجہ سے غار کے اندر برف کا شیو لنگ بنتا ہے،بھی تقریباً 100میٹر تک گھٹ چکا ہے۔ شمالی کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ کے نزدیک افروئٹ گلیشیر کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔جبکہ ایک وقت یہ 400میٹر طویل ہوتا تھا۔
اسی طرح جنوبی کشمیر کے ناگی نند، ہانجی پورہ اور وندرنند کے گلیشیر بھی ختم ہو چکے ہیں۔50 سال قبل چناب طاس میں8000 مربع کیلومیٹر کے قریب گلیشیر ہوتے تھے، جو اب صرف 4100 مربع کلومیٹر تک رہ گئے ہیں۔ سیاچن گلیشیر پر فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی کیا حالت ہو چکی ہوگی،اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ہندوستان میں گلیشیروں کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے،کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جئے رام رمیش نے اپنی وزارت کے دوران گلیشیروں کے سروے اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا حکم صادر کیا تھا، مگر وزارت دفاع نے ریسرچروں کو ان علاقوں تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔ لہذا ابھی بھی ہندوستان میں گلیشیروں کے حوالے سے معتبر ڈیٹا موجود ہی نہیں ہے۔
گلیشیروں کے علاوہ کشمیر میں گھنے جنگلاتی رقبہ بھی37فیصد سے گھٹ کر 11فیصد رہ گیا ہے۔ ایک نیوز ویب سائٹ تھرڈ پول کے مطابق پہلگام کے علاقے میں گھنے جنگلات کا رقبہ جو 1961میں 191مربع کلومیٹر تھا، 2010میں بس 3.9مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا۔ اب تو یہ اور بھی سکڑ گیا ہوگا۔ اسی طرح پانی کے سب سے بڑے ذخیرہ جھیل ولر کی قسمت بھی کشمیریوں کی قسمت کی طرح سکڑ گئی ہے۔ اس کا رقبہ بھی پچھلے تین دہائیوں میں 157مربع کلومیٹر سے گھٹ کر 86مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ دریائے جہلم کو پانی فراہم کرنے والا یہ ایک بڑا سورس ہے۔
دہشت گردی یا فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیےخطرات تو ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں سے، اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ ویسے دونوں ممالک کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔
سفارتی مؤرخ رچرڈ اولمین نے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی تشریح پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر کوئی چیز جس سے عوامی زندگی یا اس کا معیار متاثر ہوتا ہے، سلامتی کے زمرے میں آتا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کو چاہیے کہ گلاسگو کانفرنس کے موقع پر خطہ کشمیر کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے اور اس کے جنگلات، گلیشیر اور پانی کے ذخائر کو بچانے کا عہد کریں۔ اگر یہ ناپید ہوجاتے ہیں توہمالیہ، ہندو کش اور پھر نشیب میں ایک بڑی آبادی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ سے کم نہیں ہے۔