تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بی جے پی کی سیاسی ضرورت ہے۔ ایک تو انتخاب ہونے والے ہیں اور جانکاروں کا کہنا ہے کہ ہر انتخاب میں ایسےتشدد سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہندو سماج کا مزاج بنانے کے لیے ایسے تشددکی تنظیم ضروری ہے۔
تریپورہ پولیس نے دہلی کے کچھ وکیلوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بنائے قانون یو اے پی اے کے تحت نوٹس بھیجا ہے۔ یہ وکیل 3 دنوں تک تریپورہ کا دورہ کر رہے تھے تاکہ دنیا کو بتلایا جا سکے کہ تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کوئی افواہ نہیں ہے۔
انہوں نے اس درمیان ان لوگوں سے ملاقات کی، جن کے گھر اور دکانوں پر حملہ ہوا تھا اور ان کے ساتھ کی اپنی بات چیت کو سوشل میڈیا کےتوسط سے ہمیں دکھلایا۔ انہوں نے وہ تصویریں دکھلائیں جن سے معلوم ہوا کہ صحافی سمردھی ساکنیا، جو ہمیں لگاتار 10 دن سے بتلا رہی تھیں، وہ ان کے تخیل کی اڑان نہ تھی۔
کوئی 7 دنوں تک ہندوستان کےمین اسٹریم کے اخبار اس تشدد کو چھپانے کی یا کم کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ تو بھلا ہو سمردھی یا محمودالحسن جیسے نوجوان صحافیوں کا کہ ہمیں معلوم ہوتا رہا کہ تریپورہ کے الگ الگ ضلعوں میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کےمظاہرہ کے دوران مسجدوں پر حملے ہوئے، انہیں توڑا پھوڑا گیا، ان میں آگ زنی کی گئی، مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی اور لوٹ پاٹ کی گئی۔
ان صحافیوں کو پولیس اور دوسرے لوگوں کی جانب سےیہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی گئی کہ تشدد کے بارے میں افواہ پھیلانے پر قانونی کارروائی کی جائےگی۔ انہیں باربار کہا گیا کہ ان کے دعوے کی جانچ کی جا رہی ہے اور وہ سہی نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے اور کچھ اور لوگوں نے بھی ہمت کے ساتھ یہ خبر دینا جاری رکھا۔
اس کے باوجود ‘قومی’ میڈیا کےاس تشدد کی سنگینی کو کم کرنے کی تمام کوششوں کی ہمیں جانکاری ملتی رہی کہ لگ بھگ پورے تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشددکیا جا رہا ہے۔
اس سے انکار کرنا تب اور بھی ناممکن ہو گیا جب دہلی سے وکیلوں کی ایک ٹیم تریپورہ گئی۔ اس نے تشدد کا نشانہ بنائے گئے لوگوں سے ملاقات کی اور توڑ پھوڑ، بربادی اور آگ زنی کی تصویریں پیش کیں۔ اس نے اگرتلہ اور دہلی میں پریس کو بتلایا کہ تریپورہ میں کیا ہو رہا ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کی تنظیموں کے نمائندےبھی تریپورہ گئے اور انہوں نے بھی ہمیں بتلایا کہ تشدد واقعی میں ہوا ہے۔اس کے پہلےاپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے عوامی بیان دیا کہ تریپورہ میں مسلمانوں پر حملہ ہو رہا ہے۔ تریپورہ کی پارٹی‘دی انڈیجینس پروگریسو ریجنل الائنس’ کے رہنما پردیوت دیببرما نے بھی بیان جاری کیا کہ اس طرح کاتشدد تریپورہ کے لیے نیاہے اور اسے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہی نہیں، تریپورہ کانگریس نے اس تشدد کے خلاف احتجاج بھی کیا۔
لیکن تریپورہ پولیس تشدد کو ‘روٹین’ بتلاتی رہی۔ اس کا پورا زور اس بات پر تھا کہ کوئی مسجد نہیں جلائی گئی ہے۔ لیکن جیسا ہم نے پہلے لکھا ہے، اس کی یہ بات فوراًہی ثبوت کے ساتھ غلط ثابت ہو گئی۔
تریپورہ کےمسلمانوں کے خلاف تشدد کے بارے میں کچھ اورسمجھنا ضروری ہے۔ ہر جگہ کہا جا رہا ہے کہ یہ تشدداصل میں ایک ردعمل تھا۔ کس کا؟ کیا تریپورہ کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے خلاف تشدد کیا تھا جس کایہ ردعمل ہو؟ نہیں۔
تریپورہ کے سرحدی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف جو تشدد ہوا، بتلایا جا رہا ہے کہ تریپورہ کاتشدد اس کا جواب تھا۔ یہ ردعمل غصے کا بے ساختہ اظہار نہیں تھا۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد ختم ہو گیا۔ وہاں کی حکومت اور پولیس نے مسلمان حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کی تھی۔
بنگلہ دیش کا میڈیا لگاتار اس تشدد کی رپورٹنگ کر رہا تھا اور اس کی تنقید کر رہا تھا۔ اس ملک کے ہندو مسلمان سب نے مل کر ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کیے۔ ہندوؤں کے ساتھ یکجہتی کا ا ظہار کیا۔
کیا تریپورہ کے مسلمانوں نے پڑوسی ملک میں ہندو مخالف تشدد کی حمایت کی تھی؟ کیا اس کے لیے خوشی منائی تھی؟ کیا وہ اس تشدد کو روکنے کے لیے کچھ کر سکتے تھے؟ ان سارے سوالات کا جواب ہے، نہیں۔ پھر تریپورہ کے مسلمانوں کے خلاف تشدد کیوں، ان پر حملہ کیوں؟
تریپورہ کےتشدد کی تیاری کی گئی۔ تریپورہ کی مقتدرہ پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی معاون تنظیموں نے، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل وغیرہ نے اس تشدد کو باقاعدہ انجام دیا۔
دی کوئنٹ نے ایک رپورٹ میں دکھلایا ہے کہ سوشل میڈیا کے توسط سےاشتعال انگیز، بھڑکاؤ اور مسلمان مخالف پیغامات کے ساتھ مسلمان کے خلاف احتجاج کے لیےصف بندی کی گئی۔ ہندوؤں کو للکارا گیا کہ اگر وہ ابھی نہ جاگے تو ان کے ساتھ وہی ہوگا جو بغل میں ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہی ہے کہ بنگلہ دیش کاتشدد تو صرف ایک بہانہ تھا اور اسے ایک موقع کی طرح استعمال کیا گیا۔ یہ اصل میں مسلمان مخالف تنظیموں کامنصوبہ بندتشدد تھا۔
تریپورہ کی سرکار نے کیوں ان مظاہروں کی اجازت دی؟ وہ سرکار اور پولیس، جو سیاسی اجلاس تک کی اجازت نہیں دے رہی ہے، اس نے کیوں یہ پرتشدد مظاہرےہونے دیے؟ اب صاف ہے کہ مظاہرہ کے ساتھ پولیس تھی اور اس نے تشدد کوروکنے کی مؤثر کوشش نہیں کی،اورتشدد کوہونے دیا۔
وکیلوں کی جانچ ٹیم نے اور اس کے پہلے سمردھی سمیت دوسرے صحافیوں نے بھی ثبوت دیے ہیں کہ یہ تشددمنصوبہ بند تھا۔ وکیلوں کو یہ بھی بتلایا گیا کہ مظاہرین جےسی بی مشین لےکر چل رہے تھے۔ آخر اس کا جلوس میں کیا کام تھا؟
اس تشددکی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس میں نیا کیا تھا؟ تریپورہ میں یہ کیوں ہوا؟ اس پر اس علاقے کے جان کار تجزیہ کر رہے ہیں۔
ایسا نہیں کہ یہ صوبہ تشدد سے آزاد رہا ہے۔ سیاسی تشدد وہاں ہوتا رہا ہے۔ لیکن ہندو مسلمان تشدد کبھی نہیں ہوا۔ پھر ابھی کیوں؟ کیوں تریپورہ نے ہی، کیوں آسام اور بنگال میں نہیں جو بنگلہ دیش کے قریبی صوبے ہیں؟
فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کمیونٹی میں درار پڑ جاتی ہے۔ دونوں میں ایک دوسرے کے خلاف شک اور خدشات بڑھتے جاتے ہیں۔ ایک تشدد دوسرےتشدد کو جنم دیتا ہے۔ دونوں کے بیچ وقفہ کچھ بھی ہو۔ اس سے بی جے پی کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
تریپورہ میں9فیصد سے بھی کم مسلمان آبادی ہے۔مقامی برادریوں کو اگر انہی کے صوبےمیں کسی نے اقلیت بنا دیا ہے تو وہ بنگلہ بولنے والے ہندو ہیں۔ پھر بھی ان کے بیچ ویسی نفرت نہیں جیسی قریبی آسام میں دیکھی جاتی رہی ہے۔
آسام میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما خود ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا پرچار کرتے ہیں۔ وہاں بی جے پی نے دونوں کے بیچ کھائی کھودنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ بنگلہ دیش کےتشدد کے بہانے تشدد سے انہیں اور فائدہ ہوتا لیکن مسلمانوں پر تشدد سرکاری طور پر، تجاوزات ہٹانے، این آرسی وغیرہ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اس لیے ابھی اس پر توانائی صرف کرنے کا بہت اور کوئی نیا فائدہ نہ ہوتا۔
بنگال میں بی جے پی نے پرتشدد بیان دیے، اور کوشش کی لیکن ابھی وہاں ترنمول کانگریس کافی فعال ہے اورحملہ آور بھی۔ اگر وہاں بی جے پی نے یہ کوشش کی ہوتی تو اسے اقتدار کی سختی کا سامنا کرنا پڑتا۔
ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ آر ایس ایس اور اس کی تنظیم تبھی تشدد کے لیے نکلتے ہیں جب انہیں حکومت کی طرف سے تحفظ کا بھروسہ ہو۔ بنگال میں انہیں خوف تھا اس لیے پرتشدد پرچار تو انہوں نے کیا لیکن جسمانی طور پر باہر آنے سے بچے۔ انہیں ممکنہ طور پر وہاں ترنمول کانگریس کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔
تریپورہ میں مسلمان کے خلاف تشدد بی جے پی کے لیےسیاسی ضرورت ہے۔ ایک تو انتخاب ہونے والے ہیں اور انتخابات کا مطالعہ کرنے والوں نے بتلایا ہے کہ ہر انتخاب میں مسلمان مخالف تشدد سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔ دوسرے، اس فوری وجہ کے علاوہ مسلمان مخالف نفرت اور تشدد کو ہندو سماج کا مزاج بنانے کے لیے ایسے تشدد کا نظم ضروری ہے۔
تشددکو کبھی تو شروع کرنا ہوتا ہے جس سے اس کو لےکر جو ہچکچاہٹ ہے، وہ ٹوٹ جائے۔ ایک بار شروع ہو جانے کے بعد آگے اسے کرتے رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی شروعات کے لیے اس سے اچھا موقع کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ ایسا موقع جب سمجھدار سے سمجھدار شخص اسے ردعمل کہہ کر اس کا جواز ڈھونڈلےگا، اسے مسلمان مخالف تشدد کہہ کر بیان نہیں کرےگا۔ یہی ہوا۔
تریپورہ کے وزیر اعلیٰ نے، وہاں کی مقتدرہ پارٹی نے اب تک اس تشدد کی مذمت نہیں کی ہے۔ حکومت ہند اور اس کے سربراہ سے اس کی امید رکھنا بیوقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جو خود مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار کے نئے نئے، ہوشیار طریقے نکالتا ہے، اس سے یہ امید!
اس تشدد کے بعد صوبے کے ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے سرکار سے رپورٹ مانگی۔ یہ بھی کہا کہ جو سوشل میڈیا کے توسط سے تشدد بھڑکا رہے ہیں، ان پر کارروائی کی جائے۔ دی کوئنٹ کی رپورٹ میں ان کی تفصیلات ہے۔
ان پر کارروائی کی جگہ تریپورہ پولیس دہلی کے وکیلوں اور صحافیوں کو دھمکا رہی ہے۔ یہ اتر پردیش کا آزمایا ہوا طریقہ ہے۔ ہم مسلمانوں پر تشدد کریں گے، ہونے دیں گے لیکن اس تشدد کی خبر دنیا تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ جو ایسا کرنے کی کوشش کرےگا ہم اسے مجرم قرار دیں گے۔
ہم سب کا جو تریپورہ کے باشندےنہیں ہیں،فریضہ یہ ہے کہ وہاں کے ہندوؤں کو بتائیں کہ کیسے انہیں نفرت اور تشدد میں شامل کیا جا رہا ہے۔عدالتوں کافرض ہے کہ وہ تریپورہ پولیس کی اس ڈھٹائی کے لیے اس کوسزادیں۔
تریپورہ کی سیاسی پارٹیوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمت اور ایمانداری کے ساتھ ہندوؤں کو اس مسلمان مخالف سیاست سےآگاہ کریں۔ وہ خود ڈر نہ جائیں۔نفرت اور تشدد کو نفرت اورتشدد کہنا اور اس کی عادت پڑے، اس کے پہلے محتاط ہونا ہی تریپورہ کو بچا سکتا ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر