تناؤبھرےماحول میں ہمیشہ تشددکاامکان رہتاہے۔ سمجھداری اس سے بچنے میں ہے۔ہر تشدد معاشرے میں برادریوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرتا ہے۔ بی جے پی کی سیاست کے لیے یہی مفید ہے۔
ملک میں بہت ہی خطرناک حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔مقتدرہ پارٹی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ذریعےپورے ملک میں تشدد کو ہوا دیا جا رہا ہے۔انتشار کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔زبان سے اور جسمانی تشدد بھی۔
اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔انہیں کسی بھڑکاوے میں آکر کسی ایسی سرگرمی میں شامل نہیں ہونا چاہیے جس میں تشدد کا ذرا بھی امکان ہو۔ بی جے پی یہی چاہتی ہے۔
مہاراشٹر کے کئی شہروں، جیسے امراوتی، ناندیڑ، مالیگاؤں،یوتمال میں تشددکی خبر ملی ہے۔امراوتی میں تو کرفیو بھی لگانا پڑا ہے۔
ان شہروں میں مسلمانوں کی تنظیموں نے تریپورہ میں ہوئےتشددکے خلاف غصہ کا اظہار کرنے کے لیے احتجاج کیے تھے۔ان مظاہروں میں پتھربازی ہوئی۔ اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس کے خلاف مظاہرے کیے اور اس دوران بھی تشدد کیا گیا۔
تشدد کیسے ہوا اور کون اس کے لیے ذمہ دار ہے، وہ جانچ کے بعد ہی معلوم ہو پائےگا، لیکن مہاراشٹر کے حکمراں اتحاد کے لیڈروں کے مطابق، یہ انہی کی سازش ہے جو طویل عرصےسے ریاستی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ رضا اکیڈمی نے تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشددکی مخالفت میں احتجاج کا اہتمام کیا۔ ریاستی حکومت سے جڑے لوگوں کا الزام ہے کہ اس تنظیم کی کوئی طاقت نہیں ہے اور اس کے پیچھےبی جے پی ہے۔ دوسری طرف، بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تریپورہ میں کوئی تشدد ہوا ہی نہیں تھا، پھر مسلمان کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔
لیکن بی جے پی لیڈرجھوٹ بول رہے ہیں اور اسے وہ جانتے ہیں۔تریپورہ کےتشدد کا سچ اس کے چھپانے کی تمام کوششوں کے ساتھ سامنےآ گیا ہے۔
ابھی کچھ روز پہلے، اکتوبر کے آخری ہفتے میں تریپورہ کے الگ الگ علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کیا گیا۔ یہ بی جے پی سے وابستہ تنظیموں کے ذریعے کیا گیا۔
مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں اور مسجدوں پر حملہ کیا گیا، ان کو منہدم کیا گیا، لوٹ پاٹ اور آگ زنی کی گئی۔اس خبر کو تریپورہ سرکار اور میڈیا بھی چھپا لینا چاہتا تھا۔ لیکن آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی وجہ سے دنیا کو سچ معلوم ہوا۔
ظاہر ہے اس کو لےکر مسلمانوں میں ناراضگی ہوگی۔ اس لیے بھی کہ اس تشدد کےسچ سے ہی انکار کیا گیا اور پھر تشدد کے بارے میں بات کرنے والوں پر ہی مقدمے دائر کر دیے گئے۔ ان لوگوں میں بھی زیادہ تر مسلمان ہیں۔
وفاقی حکومت ہو یا تریپورہ سرکار، کسی نے اس تشدد کی مذمت نہیں کی۔ تو فطری ہے کہ مسلمانوں کو برا لگے۔آخر وہ اس ملک کے لوگ ہیں اور اس ملک کی سرکار کا فرض ان کی حفاظت کرنا ہے اور ان کی عزت کرنا بھی۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
یہ فطری ہوگا کہ جب کوئی اس تشدد کے خلاف نہ کھڑا ہو تو مسلمان اپنی ناراضگی ظاہر کریں۔ لیکن ایسے تناؤ بھرے ماحول میں ہمیشہ تشدد کاامکان رہتا ہے۔ سمجھداری اس سے بچنے میں ہے۔
ہر تشدد معاشرے میں برادریوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرتا ہے۔بی جے پی کی سیاست کے لیےیہی مفید ہے۔
اسی بیچ دہلی کے پاس غازی آباد میں ایک تقریب میں ایک کتاب جاری کی گئی۔ یہ وسیم رضوی نے لکھی ہے۔ اس میں محمد صاحب، قرآن اور اسلام کے خلاف قابل اعتراض باتیں کی گئی ہیں۔
پروگرام میں کھلے عام مسلمانوں کو جہادی کہہ کر ان کےقتل کی بات کی گئی۔ اس کتاب اور پروگرام کی خبر سے بھی مسلمانوں میں کافی غصہ ہے۔ کئی جگہ احتجاج اور مظاہروں کااعلان بھی کیاگیا ہے۔
قرآن، پیغمبر اور اسلام کی توہین سے ناراضگی فطری ہے۔ لیکن یہ دھیان رہنا چاہیے کہ ابھی مقتدرہ پارٹی ہر موقع کو تشدد میں بدل دیتا ہے۔ وہ جو شکایت کرنے کے لیے سڑک پر اترے ہیں،تشدد کے بعد مجرم قراراور ثابت کر دیے جاتے ہیں۔اس کے بہانے اور تشدد بھڑکانا آسان بھی ہو جاتا ہے۔
اس کتاب اور پروگرام کی جانکاری پولیس کو ہوگی ہی۔ اتر پردیش پولیس کو فوراً اس بھڑکاؤ حرکت کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
مسلمانوں کے خلاف تشدد،قتل کی اپیل کوئی مذاق نہیں ہے۔ یہ جرم ہے۔ اس کی مخالفت کرنے کا کام مسلمانوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کام پولیس اور انتظامیہ کا ہے۔ اسے اب تک اس کے لیے ذمہ دار لوگوں پر کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ اب بھی وہ یہ کر سکتی ہے۔ پھر کسی مظاہرہ کی ضرورت نہیں رہ جائےگی۔
یہ صاف ہے کہ جان بوجھ کر ملک میں تشدد کا اکساوا دیا جا رہا ہے۔ کچھ وقت پہلے دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کے نعرے کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔ ہریانہ میں ایسے ہی اجلاس ہوئے۔ گڑگاؤں میں اب جمعہ کی نماز میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ یہ سب کیا جائے اور مسلمان خاموشی سے بے عزتی برداشت کرتا رہے؟ اس کا غصہ جائز ہے۔ لیکن اس کے پہلے سارے سیاسی پارٹیوں کو غصہ ہونا چاہیے۔ انہیں اس تشدد کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
ابھی مسلمانوں کے لیےضروری ہوگا کہ وہ عدالتوں پر دباؤ ڈالیں۔ اپنے سیاسی نمائندوں پر بھی جنہیں انہوں نے ووٹ دیے تھے۔ مسلمانوں کی توہین اور ان کے خلاف تشددجمہوریت کے سوال ہیں، قومی سوال ہیں اور ان پر سارے سیاسی پارٹیوں کو کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ یہی تہذیب کا تقاضہ ہے۔ جیسا ہم نے پہلے کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کہ ذمہ داری نہیں ہے۔
ابھی ہر قدم بڑے احتیاط اور ٹھنڈے دماغ سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سماج میں لگاتار تناؤ، بھرم ،ایک دوسرے کے لیے شک اور تشدد سے صرف ایک سیاسی پارٹی بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔ وہی اس ماحول کو بنائے رکھنا چاہتی ہے۔
ہمیں انصاف کی جد وجہد اجتماعی طور پر کرنی ہوگی۔ امن کے ساتھ۔ کیونکہ سچ کے راستے پر ہم ہیں۔ پھر کسی اشتعال کے شکار کیوں ہوں؟ بےچین کیوں ہوں؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر