اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ بنائے جانے کے بعد سے اس کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اوریہاں کے باشندوں کو زمین اور ملازمت کے تحفظ کی ضمانت دینے کا مطالبہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔عام طور پر لداخ کےمسلم اکثریتی کارگل اور بودھ اکثریتی لیہہ کے علاقے ایک دوسرے سے بنٹے رہتے ہیں، لیکن اس بار لوگوں نے متحد ہو کر خطے کی آئینی سلامتی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ کے لیہہ اور کارگل خطے کی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک آواز میں خطے کے لیے آئینی تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے اور اس کے باشندوں کو زمین اور ملازمت کی گارنٹی دی جائے۔ 13 دسمبر کو ان مطالبات کو لےکر ہوئےاحتجاجی مظاہروں کی وجہ سے لداخ کے کئی حصے بند رہے۔
بند کی کال کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) اور پیپلز موومنٹ فارسکستھ شیڈول فار لداخ (پی ایم ایس ایل)نے مشترکہ طور پر دی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ سڑکوں اتریں گے۔
واضح ہو کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد مودی حکومت نے ریاست کو دویونین ٹریٹری میں تقسیم کر دیا تھا، جن میں سے ایک لداخ ہے۔
تنظیموں نے کارگل اور لیہہ اضلاع کے لیے لوک سبھا کی نشستوں اور لداخ کے علاقے کے لیے الگ راجیہ سبھا سیٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے لداخ انتظامیہ کے مختلف محکموں میں 10000 سے 12000 خالی آسامیوں کو فوری طور پر پر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عام طور پرمسلم اکثریتی کارگل اور بودھ اکثریتی لیہہ کے علاقے بنٹے رہتے ہیں، لیکن اس بار لیہہ اپیکس باڈی(ایل اے بی)، تاجروں، ٹرانسپورٹرز، ہوٹل مالکوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا ایک گروپ -نے اس بند کی حمایت کی۔
ایل اے بی کے صدر تھوپستان چیوانگ نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ، بند کے دوران فوج کی گاڑیوں، فلائٹ اٹینڈنٹ اور امتحانات میں شریک ہونے والے طلباکو نہیں روکا گیا۔ اس کے ساتھ دواخانوں کو بھی کھولنے کی اجازت دی گئی۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراورپچھلے سال پارٹی چھوڑنے والے لداخ بی جے پی کے سابق صدر چیرنگ دورجےنے دی وائر کو بتایا،بند کا انعقاد پرامن ماحول میں کیا گیا تھا اور اسے دونوں خطوں میں بڑے پیمانے پر ردعمل ملا ۔ جن پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں شدید غصہ ہے۔ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو ہم سڑکوں پر آنے کو مجبور ہوں گے۔
سابق ایم ایل اے نے کہا کہ پارلیامنٹ میں لداخ کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ خطہ ملک کی سیاسی بحثوں سے کٹ سا گیا ہے۔انہوں نے کہا، ایک طرف سے پاکستان اور دوسری طرف چین سے گھرے ہونے کی وجہ سے ہمیں مرکزی حکومت کی طرف سے بھیجے گئے بابوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
پانچ اگست، 2019 کومودی حکومت کی طرف سےآرٹیکل 370 کے اکثر اہتماموں کو ردکیے جانے اورصوبے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے پہلےتک جموں و کشمیر کے چھ ارکان کو ایوان زیریں اور چار کو پارلیامنٹ کے ایوان بالا میں بھیجاجاتا تھا۔ اس وقت لداخ، جس کی چار اسمبلی سیٹیں اور ایک لوک سبھا سیٹ تھی، بھی جموں و کشمیر کا حصہ تھی۔
جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت اسمبلی کوتحلیل کیے جانےاور پی ڈی پی کے راجیہ سبھا ممبران نذیر لاوے اور فیاض میر کے استعفیٰ کے بعدسے راجیہ سبھا میں یہ چاروں سیٹیں فی الحال خالی پڑی ہیں۔
دورجے نے کہا، آئینی تحفظات کے علاوہ، لداخ کو ماحولیات اور ماحولیاتی تحفظات کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن مرکزی حکومت لداخ کا نظم و نسق اپنی مرضی سے چلا رہی ہے جس کی وجہ سے عوام بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں میں غصہ بڑھ گیا ہے۔ جب تک ہمارے تمام مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔
رپورٹس کےمطابق ،بند کےدوران علاقے کے کسی بھی حصے سے تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور سب کچھ پر امن رہا۔
لداخ سے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے والے کے ڈی اے کے رکن سجاد کارگل نے کہا، یہ لداخ کے لیے ایک غیرمعمولی دن تھا، کیونکہ لیہہ اور کرگل دونوں اضلاع کی تمام سیاسی، سماجی اور ثقافتی تنظیموں نے بند کی حمایت کی۔
سوشل میڈیا پر ایک کارکن کی طرف سے شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں مسلم اکثریتی علاقے کارگل کے مرکزی شہر میں پورے طور پر بند کا اثردکھائی دیا۔ لداخ کی آئینی حیثیت کو کمزور کرنے کے مرکزی حکومت کے من مانے قدم کے خلاف لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔
ماضی میں لیہہ کا علاقہ روایتی طور پر بی جے پی کا حمایتی رہا ہے، جو لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل (ایل اے ایچ ڈی سی)- لیہہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ پچھلے سال ہوئے ایل اے ایچ ڈی سی- لیہہ کے انتخابات میں، بی جے پی کی تعداد 2015 کے انتخابات میں 17 سے گھٹ کر 15 پر آگئی، حالانکہ اس نے 26 رکنی ایوان میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھا ہے۔
لیکن اب چینی فوج کی طرف سے تجاوزات کی حالیہ رپورٹس، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور خطے کی پوری سیاسی صورتحال کو کمزور کرنے کی وجہ سےبی جے پی کے خلاف ایک لہربن رہی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)