خبریں

کٹھوعہ ریپ کیس میں قصور وار پولیس اہلکار کی جلد رہائی پر متاثرہ خاندان نے کہا- خوف میں جی رہے

کٹھوعہ ریپ اور قتل معاملے میں قصوروار پولیس اہلکار کو ان کی پانچ سال کی جیل کی سزا مکمل  ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا اور عدالت نے ان کی باقی بچی سزا بھی رد کر دی ہے۔

کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی کی ریپ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی کی ریپ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

کٹھوعہ میں جنوری 2018 میں آٹھ سالہ بچی کےریپ اور قتل کے قصور وار پولیس افسروں میں سے ایک پولیس اہلکار کی بچی ہوئی سزا کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے رد کردیا ہے،اس سلسلے میں متاثرہ خاندان نے شدیدتشویش کا اظہار کیا ہے۔

متاثرہ خاندان نے قصور وار پولیس افسر کو ان کی  جیل کی سزا مکمل ہونے سے پہلے ہی  رہاکیے جانےپر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بتادیں  کہ اس معاملے میں ایک سب انسپکٹر آنند دتہ کو ثبوت کو ضائع کرنے کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

دتہ واقعہ کےوقت متعلقہ پولیس اسٹیشن کے تھانہ انچارج تھے۔ انہیں پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ عدالت نے دتہ کی بچی ہوئی  سزا کو ردکرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔

دتہ کے وکیل نے عدالت میں کہا تھا کہ ان کے موکل پر لگائے گئے الزاموں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

اس سے قبل16 دسمبر 2021 کو معاملے میں قصوروار ایک اور پولیس اہلکار ہیڈ کانسٹبل تلک راج کی سزا پرعدالت نے  روک لگا دی تھی۔

دتہ اور راج سمیت تین پولیس اہلکاروں کو ثبوت کو ضائع کرنے کا قصوروار  پایا گیا تھااور انہیں پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان میں سے دو پولیس اہلکاروں نےآدھی سے زیادہ سزا کاٹ  لی تھی۔

پٹھان کوٹ کی خصوصی عدالت نے تین دیگر ملزمین سانجی رام، دیپک کھجوریا اور پرویش کمار کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بچی  کو مسلسل بے ہوش رکھا گیا،  گلا دبا کر کیا گیاقتل

قابل ذکر ہے کہ آٹھ سالہ بچی کی مسخ شدہ لاش 17 جنوری 2018 کو معاملے کے کلیدی ملزم سانجی رام کے گھر کے قریب جنگل سے ملی تھی۔اس ریپ اور قتل کے واقعہ پر بڑے پیمانے پر غم و غصے اور احتجاج کے بعد اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت نے متاثرہ کے خاندان کی درخواست پر معاملے کی جانچ کرائم برانچ کو سونپ دی تھی۔

اس وقت کی حکومت کے دو وزیروں  چندر پرکاش گنگا اور چودھری لال سنگھ نے  سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے ملزمین کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ نکالی گئی ریلی میں شرکت  بھی کی تھی۔

کرائم برانچ نے اپنی جانچ میں کہا تھا کہ جائے وقوع پر جھوٹے ثبوت بنانے کی کوشش میں نابالغ لڑکی کے کپڑے فارنسک سائنس لیب میں بھیجےجانے سے پہلے پولیس اہلکاروں نے دھو دیے تھے۔

کرائم برانچ کی پندرہ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں کہا گیا ہے، لڑکی کو نشہ آور اشیا کھلائی گئی تھیں، جوایک مقامی دکان سے خریدی گئی تھیں۔ لڑکی کو بے دردی سے گلا دبا کر قتل کرنے سے چند روز قبل اسے رسانہ کے ایک مندر میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔

چارج شیٹ کے مطابق، ملزمین نے لڑکی کے ساتھ بار بار ریپ کیا جبکہ معاملے کی تفتیش کررہے مقامی پولیس افسران نے شواہد کو ضائع کیا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا،جانچ کے دوران پتہ چلا کہ سانجی رام رسانہ، کوٹہ اور دھامیال کے علاقوں میں بکروال(چرواہا برادری)کے بسنے  کے خلاف تھا اور اپنی برادری کے لوگوں سے بار بار کہتا تھا کہ وہ بکروالوں کو چرانے کے لیے زمین نہ دیں اور نہ ہی ان کی کسی طرح مدد کریں۔

کرائم برانچ نے ایک لڑکےسمیت آٹھ لوگوں کےخلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔ بچی کے ایک مندر کے اندر ریپ اور قتل پر ملک گیر غصے کے بعد سپریم کورٹ نے 2018 میں اس معاملے کو جموں و کشمیر سے باہر منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔

عدالت نے پٹھان کوٹ کی سیشن عدالت کو اس معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا حکم دیا تھا۔

پٹھان کوٹ کےڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تیجویندر سنگھ نے اپنے 432 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اس جرم کو ’شیطانی اور وحشیانہ‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس  جرم کوانتہائی شرمناک، غیر انسانی اور وحشیانہ طریقے سے انجام دیا گیا۔

اب گھر والے پریشان، بولے- ڈر میں جی رہے

میر(بدل ہوا نام)نے اپنی بہن سےاس  بچی(متاثرہ)کو گود لیا تھا۔ اس وقت بچی کی عمر محض چھ ماہ تھی۔

میر نے دی وائر کو بتایا کہ تینوں ملزم پولیس اہلکاروں کو پانچ سال کی جیل کی سزا کاٹنی تھی  اور 50000 روپے جرمانہ بھی ادا کرناتھا۔

میر نے کہا، صرف دو سال ہوئے  اور وہ پانچ سال جیل کی سزا کاٹنے سے پہلے ہی رہا کردیے گئے۔ ہم نے ہمیشہ مطالبہ کیا تھا کہ تمام قصور واروں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔

میر نے کہا، یہ لوگ (قصور وار پولیس اہلکار)اب باہر ہیں اور ہمیں دوبارہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ گھر والے غمزدہ اور مایوس ہیں کیونکہ وہ جیل سے باہر ہیں اور ہمیں دوبارہ خطرہ محسوس ہورہا ہے۔

میر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ قصور وار پولیس اہلکار کم از کم اپنی پانچ سال جیل کی سزا پوری کریں۔ انہوں نے کہا، اگر قصوروار پولیس اہلکاروں کو اپنی پوری سزا کاٹنے سے پہلے دو سال کے اندر رہا کر دیا گیا ہے تو ہماری بچی کے ساتھ ریپ اور قتل کے کلیدی ملزم کو بھی جیل سے رہا کیا جا سکتا ہے۔

متاثرہ کے ایک اور رشتہ دار نے کہا کہ ،ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ عدالت کی طرف سے دی گئی پانچ سال کی جیل  کی سزا پوری کرنے کے بجائےقصوروار  پولیس اہلکاردو سال کے اندر کیسے باہر آ گئے۔

اہل خانہ  کی اپیل

پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں متاثرہ خاندان کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ مبین فاروقی نے کہا کہ کرائم برانچ کی چارج شیٹ کے مطابق قصوروار پولیس اہلکار مجرمانہ سازش میں ملوث پائے گئے تھے اور وہ ریپ اور قتل سے پہلے اس بھیانک جرم سے واقف تھے۔

ایڈوکیٹ فاروقی نے دی وائر کو بتایا،اہل خانہ کی جانب سے سزائے موت کے مطالبے کے لیےپنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے، جو فی الحال زیر التوا ہے ۔لیکن سزائے موت کے لیے ہماری اپیل کی سماعت سے پہلے ہی قصور وار پولیس اہلکاروں کورہا کر دیا گیا۔

فاروقی نے کہا کہ، اگر قصور واروں کی ضمانت عرضی پر سماعت سے قبل متاثرہ خاندان کی اپیل کی سماعت کی جاتی تو امکان تھا کہ اس طرح ضمانت ملنے کے بجائے قصور واروں کی سزا میں اور اضافہ ہوجاتا۔

پنجاب میں عدالت کی جانب سے پولیس اہلکاروں کوضمانت دیے جانے کے فوراً بعد اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ انصاف کا پہیہ ٹوٹ  گیا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا اور کہا تھا کہ ، پریشان ہوں کہ کٹھوعہ ریپ کیس میں ثبوت کوضائع  کرنے کے قصور وار پولیس اہلکاروں کو ضمانت مل گئی ہے اور ان کی جیل کی سزا رد کر دی گئی ہے۔ جب ایک بچی کے ساتھ ریپ اور قتل کے معاملے میں انصاف نہیں ہوتا  ہےتو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انصاف کا نظام پوری طرح سے تباہ ہو چکا ہے۔

غور طلب  ہے کہ کٹھوعہ ضلع میں جنوری 2018 میں آٹھ سالہ بچی کاریپ کرکے اس کاقتل کر دیا گیا تھا۔پنجاب کے پٹھان کوٹ کی ایک عدالت نے اس معاملے میں 10 جون 2019 کو فیصلہ سنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر یہ کیس پنجاب منتقل کیا گیا تھا۔

عدالت نے اس معاملے میں کلیدی ملزم سانجی رام سمیت چھ لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔سانجی رام، برطرف خصوصی پولیس افسران دیپک کھجوریا اور پرویش کمار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، جب کہ تین دیگر برطرف پولیس اہلکاروں ؛آنند دتہ، تلک راج اور سریندر ورما کو ثبوت مٹانے پر پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

(اس  رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)