پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
سن 2018 کے بعد جب بھی وادی کشمیر کےحسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے یا رپورٹنگ کےلیےسری نگر جانا ہوتا تو پہلا پڑاؤ شہر کے قلب میں واقع اور پریس انکلیور سے تھوڑی دوری پر واقع پریس کلب ہوتا تھا۔
یہ تو طےہی ہوتا تھا کہ دوستوں سے وہاں نہ صرف ملاقات ہوگی بلکہ تازہ ترین صورت حال کے بارے میں مصدقہ جانکاری بھی ملے گی۔
کچھ نہیں تو گھومنے پھرنے کےلیےکچھ ٹپس ملیں گے ہی۔ یوں کہیں کہ مجھ جیسے باہر سےآئے کسی جرنلسٹ کےمتعدد مسائل اس کلب میں چائے ، پکوڑے اورکباب کھاتے ہوئےحل ہوجاتے تھے۔
تاہم سن2019 میں جب اس خطے کی خودمختاری کی منسوخی اور ہندوستانی یونین میں اس کو ضم کیے جانے کے بعد جب وہاں جانا ہوا تو کشمیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔
ہر موڑ پر پولیس یا فوج کےسپاہی تعینات تھے ۔ لوگ تناؤ کا شکار تھے۔ ٹیلی فون اب کام کر رہے تھے، مگر سگنل ایسے کہ انٹرنیٹ یا ڈیٹا کی ترسیل ممکن نہ تھی۔
مگر ان حالات میں بھی کشمیر کاپریس کلب گھر جیسا لگتا تھا۔ اس کے اندر قدم رکھتے ہی محسوس ہوتاتھا جیسے تناؤ ختم ہو گیا ہے۔ کچھ شناسا چہرےسگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میرے سابق ساتھی، اس کشیدہ ماحول میں ٹینشن کو کم کرنے کا وسیلہ بنتے تھے۔
مجھے بتایا گیاتھاکہ انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے والے صحافیوں کےلیےیہ ٹھکانہ ایک اسٹریس بوسٹر کا کام کرتا تھا۔ مجھے خود محسوس ہوا کہ باہرکے تناؤ کو کلب کے منتظمین اندر آنے نہیں دیتے تھے۔
اب جب معلوم ہوا کہ اس کو بند کردیا گیا ہے تومیں سوچ رہی ہوں کہ کس طرح صحافت کے اس ادارے کا سوگ مناکر اس کا مرثیہ لکھوں۔
میرے سرینگر کے دورہ کے دوران دو کشمیری ساتھی جو دہلی میں میرے ساتھ کام کرتے تھے، بتا رہے تھے کہ ملاقات، اور بات چیت کرنے کےلیے یہ ایک محفوظ پناہ گا ہ تھی۔ کیونکہ کسی بھی کافی شاپ میں بیٹھ کر بات کرنا اور وہ بھی موجودہ سیاسی صورت حال پر آبیل مجھے مارکے مترادف ہے۔
جیسے دیواروں کے کان ہوتے ہیں، ویسے ہی سرینگر میں کافی خانوں یا ریستورانوں میں حکومتی اہلکار بات چیت سنتے اور نوٹ کرتے رہتے ہیں۔
نہ صرف ملاقات بلکہ اس کلب میں عمدہ کشمیری کھانوں کا بھی انتظام تھا۔مجھے اس بات کا بھی بہ خوبی احساس ہوا کہ دہلی میں میرے کشمیری دوستوں کی اس بات کا کیا مطلب تھا کہ کشمیر میں صحافت دہلی اورہندوستان میں کسی بھی جگہ کی صحافت سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
کشمیر میں سڑک کی مرمت کا مطالبہ کرنےوالے مظاہرین کی اسٹوری لکھنے پر بھی ایک صحافی پر عتاب نازل ہوسکتا ہے۔ ایک ٹوئٹ بھی صحافی کو مہینوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال سکتا ہے۔
جیسا کہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ،جموں و کشمیر میں صحافت کبھی بھی آسان نہیں تھی اور ہمیشہ حکومت کےکنٹرول میں رہی ہے۔ لیکن 2019 کے بعد حکومت عدم برداشت کا شکار ہو گئی ہےاور تنقید کا ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ جس حکومت کو آزاد صحافت کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے تھا وہ آزادی صحافت کی سب سے بڑی مخالف ہے۔
بہرحال،نہ صرف مجھ جیسے باہرکےصحافیوں کے لیے،بلکہ کشمیری صحافیوں کےلیے بھی، جن میں سے اکثر ہندوستان اور بین الاقوامی اداروں کے لیے کام کرتے ہیں اور ان کے کشمیر میں دفاتر نہیں ہیں،کےلیے یہ پریس کلب ایک ایسا ادارہ تھا، جہاں بیٹھ کر وو اپنی اسٹوری پر کام کر سکتےتھے۔ ایک ایسی جگہ جہاں انہیں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔
یہ ایک ایسی جگہ بھی تھی جہاں صحافی اپنے ذرائع سے مل سکتے تھے کم سے کم ایک چھتری کے نیچے جمع ہو سکتے تھے۔
اپنی صحافتی زندگی میں مجھے یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ کسی بھی نئی یا نامعلوم جگہ جب ایڈیٹر صاحبان رپورٹنگ کےلیے بھیج دیتے تھے، جہاں کی الف بے بھی معلوم نہیں ہوتی تھی تو پہلی منزل اس شہر کا پریس کلب ہوتا تھا۔
مقامی صحافیوں کے کان زمین پرہوتےہیں۔ وہ مقامی پیش رفت کے بارے میں زیادہ باخبر ہوتے ہیں، اور باہروالے کو کسی موضوع کے پس منظر کو سمجھنے اور بعض اوقات دلچسپ مواد فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
مجھےیاد ہے کہ پاکستان کے حسن ابدال میں واقع گرودوارہ پنجہ صاحب کےدورے کے دوران بھی مقامی پریس کلب گرودوارے کے گیٹ کے بالکل سامنے تھا۔
اس وقت اگرچہ میں ذاتی دورے پر تھی لیکن پریس کلب کا بورڈ دیکھ کر اندرچلی گئی ۔ ایک دو کمروں کے چھوٹے سے دفتر میں میری ملاقات دو صحافیوں سےہوئی۔ وہ بیساکھی میلے پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔
ہم نے ایک دوسرے کو دعا سلام کیا، چائے پی اور کچھ گفتگو کی۔ لیکن ایک دوسرے ملک میں پریس کلب ملنے کی خوشی کچھ اور ہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر: کیا پریس کلب پر حملہ صحافت پر قدغن لگانے کا ایک ماڈل ہے…
اپنے قیام کےبعد سے وادی کشمیر میں صحافیوں کےلیے سرینگر کا پریس کلب ایک جزیرے کی طرح تھا۔ جبکہ ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں پریس کلب تین سے چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کام کر رہے ہیں، سری نگر میں پریس کلب دیر سے قائم کیا گیا تھا۔ حکومت نے اسے 2018 میں پولو ویو روڈ پر ایک عمارت الاٹ کی۔ کلب کے اراکین نے جولائی 2019 میں دو سال کے لیے اپناپہلا انتخاب کیا۔
تاہم جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کلب کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔ کلب نے جولائی2021 میں نئی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی اورتقریباً چھ ماہ بعد گزشتہ سال 29 دسمبر کو اسے منظوری مل گئی۔ دو ہفتےبعد 14 جنوری کو حکومت نے انٹلی جنس ایجنسیوں کی ایک منفی رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے رجسٹریشن منسوخ کر دی۔
دریں اثنا، 15 فروری کے لیے انتخابات کی تازہ تاریخوں کا اعلان کیا گیاتھا۔ تاہم حکومت کی شہہ پر صحافیوں کے ایک گروپ نے بھاری ہتھیاروں سے لیس پولیس اہلکاروں کے ساتھ کلب پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے رد عمل میں جب پریس کلب آف انڈیا اور متعددصحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا تو اگلے ہی دن صحافیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے خدشہ کا بہانہ لےکر حکومت نے اس بلڈنگ پر قبضہ کرکے کلب کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔
ویسے تو پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پرچھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
میڈیا واچ ڈاگ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 2019 سے اب تک کشمیرمیں تقریباً 12 صحافیوں کو حکومت کی جانب سے عارضی حراست اور پوچھ گچھ کاسامنا کرنا پڑا ہے، پولیس نے 6 صحافیوں کے گھر پر چھاپہ مارا ہے اور ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ کشمیر ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں دیگر جگہوں پربھی صحافیوں کو حکومت کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صحافیوں پر غداری اور مخالفت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، انہیں مہینوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ نئی دہلی میں صحافیوں کو اب سرکاری دفتروں تک محدود رسائی حاصل ہے، پارلیامنٹ ہاؤس تک ان کی رسائی کو سخت کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ صحافیوں کو بھی جانچ پڑتال میں رکھا گیا ہے۔ اور اگر کشمیرکے ماڈل کو ملک کے دیگر حصوں میں بھی نقل کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر