اپنی اسیری کے دوسرے سال کے آخر میں جب ٹموتھی ویکس نے اسلام قبول کرکے نماز وغیرہ ادا کرنا شروع کیا تو طالبان گارڈ پھر بھی ان کو تشد کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کو شاید یقین نہیں آریا تھاکہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔
نو اگست، 2016…افغانستان کے دارالحکومت کابل کی امریکی یونیورسٹی میں آسٹریلیا کے پروفیسر ٹموتھی ویکس دیر رات آٹھ بجے تک افغان پولیس افسران کو انگریزی سکھا رہے تھے۔ اس دن کلاس کچھ زیادہ ہی دیر تک چلی تھی اور اب و ہ کسی طرح جلد ازجلد اپنی رہائش گاہ تک پہنچنا چاہ رہے تھے۔ شہر میں حالات بھی خاصے مخدوش تھے۔
کتابیں اور دیگر چیزیں ہاتھوں میں لےکر وہ عجلت میں و ین میں سوار ہوئے۔ پچھلی سیٹ پر ان کے ساتھی امریکی پروفیسر کیون کنگ بھی اپنے فربہ جسم کے ساتھ بیٹھ چکے تھے۔گاڑی یونیورسٹی سے ذرا سا ہی دور پہنچی تھی اور ٹموتھی سیٹ پر ابھی بھی بیگ میں سامان سیٹ کر رہے تھے کہ یکایک ڈرائیور نے بریک لگائی، جس کی وجہ سے ان کا سر سامنے والی سیٹ کے ڈنڈے سے ٹکرایا اور چند لمحوں کے لیے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئے۔
جب وہ واپس ہوش میں آئے اور ڈرائیور سے گاڑی کے روکنے کی وجہ دریافت کرنی چاہی تو ماحول میں خاموشی اور تناؤ صاف محسوس ہورہا تھا۔ کنگ کی طرف سر گھما کر معلوم ہوا کہ وہ بالکل گنگ ہو چکا ہے اور اس کی پتلون گیلی تھی۔ اندھیرے میں ہی کھڑکی کے باہر مسلح ہیولے دکھائی دے رہے رہے تھے۔
جلد ہی ٹموتھی اور ان کے ساتھی کو باہر لےجا کر دوسری گاڑی میں سوار کرکے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔پروفیسر ٹموتھی اور اس کے ساتھی کی طویل ترین آزمائش کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اگلے 1192دن یعنی تین سال سے زائد عرصہ تک وہ طالبان کی قید میں رہے۔
مگر شاید اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ یہ شام ایک طویل ترین آزمائش کے بعد ان کی زندگی میں ایک نئی صبح لےکر آئےگی۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ کی ایک یخ بستہ شام کو جب اپنے کولیگ شفیق احمد نے اپنی رہائش گاہ پر افغانی ٹوپی پہنے دراز قد گورے آسٹریلین سے متعارف کرایا، تو میں نے چھوٹتے ہی پوچھا، پروفیسر ٹموتھی، آخر طالبان کی قید میں اذیتیں سہنے کے باوجود آپ ان کے حمایتی کیوں ہیں؟
تو لاغر جسم والے پروفیسر نے تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے تنبیہ کی کہ وہ ٹموتھی نہیں بلکہ بار جبرائیل، عمر سراقہ خالد ہیں۔ ٹموتھی کو انہوں نے افغانستان کے پہاڑوں اور طالبان کے ٹھکانوں کی اندھیری کوٹھریوں میں دفنا دیا ہے۔
اپنا پاسپورٹ دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا؛ انہوں نے اپنا نام سرکاری طور پر بھی تبدیل کرلیاہے۔ ان تین سالوں کی قید نے ا ن کے جسم پر کئی نشان چھوڑے ہیں۔ پیر کے زخم، جلد کے امراض کے علاوہ پروسٹیٹ کینسر کی وجہ سے دس ماہ میں ان کی سات بار سرجری ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود اذیت دینے اور قید کرنے والوں کے خلاف ان کے دل و دماغ میں غصہ کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ہے۔
وہ سجدہ شکر بجا لا تے ہیں کہ اس قید میں ان کو دین اسلام کی روح کو پہچاننے اور اس کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا،ورنہ وہ شاید اس کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے۔
‘نام لمبا ہے، مگر آپ مجھے جبرائیل کہہ کر بلا سکتے ہیں۔ بار میری والدہ کا نام ہے، جو میری اسیری کے دوران انتقال کر گئی تھی۔ حضرت عمر کے ساتھ والہانہ عقیدت کی وجہ سے میں نے یہ نام اختیار کیا ہے، سراقہ بن نوفل، جس نے انعام کے لالچ میں پیغمبر حضرت محمد کو مدینہ ہجرت کرنے سے روکنے کی کوشش کی، مگر ا سکی کوشش بے سود رہی اور پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس کو ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے کنگن ملیں گے۔ اور فلسطین میں رہتے ہوئے میں نے خالد بن ولید کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ اس لیے خالد بھی نام کا حصہ ہے۔
ٹموتھی گویا اپنا نام بتاتے ہوئے، پوری اسلامی تاریخ پلٹ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے روابط افغانستان آمد سے قبل فلسطین، سعودی عرب، متحدہ امارات اور دیگر ممالک میں ہوچکے تھے اور عربی کے ساتھ بھی کچھ شد بد تھی، مگر اسلام کے ساتھ رابطہ طالبان کی قید میں ہی ہوا۔
خاصی اذیتیں سہنے اور موت کو قریب سے دیکھنے کے بعد اپنی قید کے دوسر ے سال میں اپنے آپ سے سوال کررہا تھا کہ آخر میں زندہ کیوں ہوں؟ اسی دوران عمر نام کا ایک نیا گارڈ بھی متعین ہوا تھا، جو اپنے دیگر ساتھیوں کے مقابلے رحم دل تھا۔ ہاں یاد آگیا، میرے نام میں عمر اس کی وجہ سے بھی ہے۔ میں نے وقت کاٹنے کے لیے کتابوں کا کئی بار مطالبہ کیا تھا۔اس دوران اب مجھے انگریزی میں کراچی کے اردو بازار میں شائع شدہ اسلام سے متعلق کتابیں ملنی شروع ہوگئیں۔ تو ایک دنیا کھلتی گئی۔ پھر میں نے قران کا براہ راست مطالعہ کرنا شروع کیا۔ کچھ عربی آتی تھی اور کچھ انگریزی کے ترجمہ سے سمجھنے کی کوشش کی۔
ٹموتھی یا جبرائیل کا کہنا ہے کہ کئی بار ان کو محسوس ہوتا تھا کہ رات کو اندھیری کوٹھری میں ان کے اردگر ایک نور کا ہالہ سا موجود رہتا تھا، جو فجر کے وقت غائب ہو جاتا تھا۔ ایک پرچھائی سی قریب محسوس ہوتی تھی۔جس سے میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتا تھا۔ لگتا تھا کہ کوئی فرشتہ میری حفاظت پر مامور ہے۔ جس کی وجہ سے میں نے اپنے نام کے ساتھ جبرائیل رکھا۔ایک ایونجیلیکل مسیحی ہونے کے ناطے جبرائیل کے بارے میں بچپن سے ہی معلومات تھیں۔
سال 2019میں انس حقانی سمیت تین طالبان کمانڈروں کے عوض رہائی کے بعد، جب آسٹریلیا میں ان کی فیملی اور دوستوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے وہ شاک کی کیفیت میں چلے گئے۔ اکتوبر 2021کو جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کی مذاکرتی ٹیم کابل پر قبضہ کے بعد پہلی بار امریکی وفد سے روبرو تھی تو ٹموتھی کو بھی دوحہ آنے کی دعوت دی گئی، جہاں انس حقانی نے ایر پورٹ آکر ان کا استقبال کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان بتدریج تکثیریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ طالبان کے خوف سے سکھ اقلیتی فرقہ کے جو افراد بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے، وہ اب واپس آنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کوششوں سے سابق سکھ ممبر پارلیامنٹ نریندر سنگھ خالصہ نے حال ہی میں کابل میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی۔
میں دنیا کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ طالبان اور افغانستان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں نے انڈونیشیا کے قریب مشرقی تیمور میں بھی کام کیا ہے۔ اس علاقہ کے آزاد ہونے کے بعد دہائیوں سے انڈونیشیا کے ساتھ بر سر پیکار عیسائی گوریلا گروپوں کو جب اقتدار ملا تو وہ بھی اسی طرح کے مسائل کے شکار تھے، جو طالبان کو درپیش ہیں۔
جس طرح دنیا نے مشرقی تیمور کے گوریلا گروپوں کر وقت دیا، تاآنکہ وہ حکومت کرنے کے قابل اور اہل ہوگئے، اسی طرح طالبا ن کو بھی وقت دینے کی ضرورت ہے۔ ابھی ان سے غیر ضروری توقعات رکھ کر جانچنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
ٹموتھی کا کہنا ہے کہ قید کے دوران ایک بار کسی علاقہ میں انہوں نے روشندان سے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھاتو ان کے اندر کا استاد جاگ اٹھا۔ وہ سوچنے لگے کہ 12یا 13سال کی عمر میں یہ بچے بندوق اٹھائیں گے اور اگر زندہ رہے تو 19یا 20سال کی عمر میں ان کی شادی ہوجائےگی اور پھر کسی دن ہلاک ہو کر یتیموں اور بیواؤں کی آبادی میں اضافہ کریں گے۔ افغانستان کے وسیع تر علاقہ کی یہی کہانی ہے۔
یہ ایک ایسا موڑ تھا، جب میں نے سوچا کہ مجھے ان بچوں اور افغانستان کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان بچے بھی ایک بہتر تعلیم اور زندگی کے مستحق ہیں۔
ایام اسیری کے بارے میں جب ان سے سوال کیاتو معلوم ہوا کہ ان کے جسم اور پیر پر تشدد کے کئی نشانات ہیں۔ ان کے ساتھی امریکی پروفیسر کنگ چونکہ عمر رسیدہ اور معذور تھے تو ان کے حصے کی مار بھی ان کو ہی پڑتی تھی۔ تین سالوں میں ان کو 33بار منتقل کیا گیا۔ چونکہ یہ منتقلی اچانک ہوتی تھی، اس لیے ان کو تیاری کے لیے بس چند سیکنڈ ہی ملتے تھے۔ اس سے زیادہ وقت لینے پر پٹائی ہوتی تھی۔
کسی وقت امریکی پروفیسر اپنا پاجامہ بند کر نا بھول جاتے تھے تو طالبان ان کے بدلے ٹموتھی کو ہی پیٹتے تھے کہ وہ ان کا خیال کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ ایک بار ان کے جسم پر خارش نکل گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ اپنی قمیص اتار کر رکھتے تھے، مگر اس پر طالبان گارڈ خاصے ناراض ہوتے تھے اور بھر پور پٹائی کرتے تھے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی جیلوں میں موجود طالبان کے قیدیوں نے بھی اسی طرح کے تشدد کا سامنا کیا ہے۔ نہایت سست رفتاری کے ساتھ پلیٹ سے جب وہ چاول اور چکن کھارہے تھےتو میں نے ٹموتھی سے پوچھا کہ ایام اسیری میں کھانے کا کیا انتظام تھا ، اس پر ان کا کہنا تھا کہ کئی کئی ماہ کسی وقت بس ایک ہی طرح کا سالن ملتا تھا۔
جب ایک بار دو ماہ تک لگاتار بینگن ہی کھانے میں ملتے رہے تو ایک دن تنگ آکر امریکی پروفیسر نے سبزی لیٹرین میں رکھی، جس کی وجہ سے گارڈ ناراض ہوگئے، بس انہوں نے پھر مجھے ہی پیٹ ڈالا۔ جب کھانے کی شکایت کرتے تھےتو وہ کہتے تھے کہ وہ خود بھی ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں۔
اپنی اسیری کے دوسرے سال کے آخر میں جب انہوں نے اسلام قبول کرکے نما ز وغیرہ ادا کرنا شروع کیا تو طالبان گارڈ پھر بھی ان کو تشد کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کو شاید یقین نہیں آریا تھاکہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔
اپنی قید کے دوران خوفناک ترین واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018میں امریکی افواج نے ان کا پتہ لگا کر طالبان کے ٹھکانہ پر دھاوا بول دیا۔ یہ شدید سرد رات تھی اور وہ کمبل میں لیٹے تھے کہ طالبان گارڈ نے ان کو اٹھایا اور ٹوائلٹ کا کموڈ اٹھا کر ان کو اندر جانے کا حکم دیا۔ وہ ابھی پس و پیش میں ہی تھے کہ مشین گن کے ایک برسٹ نے دیوار کو چھلنی کردیا۔ طالبان گارڈ نے ان کو دھکا دےکر نیچے خلا میں پھینک دیا۔
وہ قلابازیاں کھاتے ہوئے تقریباً 40فٹ نیچے گر گئے اور ان کا ٹخنہ تقریباً پیر سے الگ ہو گیا تھا۔ نیچے معلوم ہوا کہ ٹنلوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ پیٹ کے بل کئی میل تک ٹنل میں رینگنا پڑا۔ اوپر شدید بمباری ہو رہی تھی۔ ٹنل کے دو و دیوار ہل رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ زمیں بس ابھی نیچے آکر ہمیں زندہ درگور کر دے گی۔
بعد میں معلوم ہوا کہ امریکی فوج بس ہم سے 30سیکنڈ کی دوری پر تھی، جب ہمیں ٹنل میں پھینکا گیا۔
ٹموتھی کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریوں کی ایک خصوصیت تھی کہ وہ رات کو بغیر کسی ٹارچ وغیر ہ کے بلی یا چیتے کی طرح بغیر کوئی آواز کیے نقل و حرکت کرتے تھے۔ محض دو فٹ کی دوری سے بھی اس نقل و حرکت کو محسوس کرنا مشکل ہوتا تھا۔ چونکہ امریکی یا افغان فوج کی کارروائیاں بھی رات کو ہی ہوتی تھیں، اس لیے رات بھر سونا ناممکن ہوتا تھا۔ ان ٹھکانوں پر صبح فجر کی اذان کے بعد ایک سکوت سا چھا جاتا تھا۔ یہ ابھی ایک وجہ تھی جس کی وجہ سے میں صبح کی اذان کا انتظار کرتارہتا تھا۔
سب سے اچھا دن 19نومبر 2019کا دن تھا۔ جب فجرکی نماز کے بعد ان کو پانی کی ایک بالٹی دےکر بتایا گیا کہ وہ نہا دھو کر تیار رہیں، کیونکہ ان کو رہائی ملنے والی ہے۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا، کیونکہ اس طرح کے وعدے کئی بار کیے گئے تھے۔ خیر اس بار ان کے جسم کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد ان کو گاڑی میں سوار کیا گیا اور آنکھوں سے جب پٹی اتاری گئی تو معلوم ہوا کہ پہاڑوں کے درمیان یہ ایک وسیع میدا ن ہے۔
یہ زابل کا علاقہ تھا۔ گارڈپاس کے پہاڑوں پر براجمان تھے، اور ان میں سے کئی عسکریوں کے پاس کیمرہ تھے، جو اس پورے واقعہ کی فلم بنا رہے تھے۔
چند ساعتوں کے بعد فضا میں گڑگڑاہٹ گونج اٹھی۔دو بلیک ہاک امریکی ہیلی کاپٹر ہمارے سروں کے اوپر پرواز کرکے لینڈنگ کے لیے گراؤنڈ دیکھ رہے تھے۔ گر د وغبار کا ایک طوفان سا آگیا، جس میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
چند لمحوں کے بعد جب گرو و غبار چھٹ گیا تو دیکھا کہ دونوں ہیلی کاپٹر چند سو گز کی دوری پر کھڑے ہیں۔ اس میں سے امریکی اسپیشل فورس کا ایک اہلکار نمودار ہوا، طالبان گارڈ نے مجھے اس کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھے گلے لگاکر اذیتوں کے لیے معافیاں مانگ رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ان سے رابطہ رکھوں۔ یہ وعدہ میں اب بخوبی نبھا رہا ہوں۔
امریکی اہلکار نے بھی مجھے گلے لگا کر کہا وہ مجھے گھر لیجانے کے لیے آئے ہیں۔ میرا وزن 30پونڈ کم ہوچکا تھا۔ مجھے زابل سے قندھار اور پھر بگرام لےجایاگیا، جہاں سے ایک دیو ہیکل طیارہ سے جرمنی میں امریکی فوجی مستقر پہنچایا گیا۔
ٹموتھی یا جبرائیل کا کہنا ہے کہ ان کا اصل امتحان اب آسٹریلیا میں ہونا تھا۔ معلوم ہوا کہ والدہ کا اس دوران انتقال ہو چکا تھا۔
میرے خاندان والے Hillsong Evangelistic Churchسے تعلق رکھتے ہیں۔
وہ میر ے قبول اسلام سے سخت ناراض تھے اور نتیجہ اخذ کررہے تھے کہ میں اذیت رسانی کی وجہ سے پاگل ہوچکا ہوں۔ دوستوں نے والد کو بتایا کہ ان کا فرزند اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو گیا ہے، جس میں مغویہ کی اغوا کار کے ساتھ ہمدردی ہوجاتی ہے۔ مجھے نفسیاتی ماہرین کے پاس لے جایا گیا۔ جانچ کے بعد انہوں نے اس کی نفی کردی۔
یہ داستان سننے کے بعد میں نے ان سے پوچھا جب آپ نے اتنی اذیتیں سہی اور پوری دینا میں اس وقت اسلامو فوبیا کے گرداب میں ہے تو انہوں نے اسلام کو کیوں چنا، تو ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو اسلام کی غلط تصویر دکھا ئی جا رہی ہے۔
میرے ملک آسٹریلیا میں مسلمانوں کو خودکش بمبار یا خواتین کا استحصال کرنے یا ان کو اذیتیں دینے اور چار شادیاں کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔جو کہ ایک غلط تاویل ہے۔
آسٹریلین پروفیسر اس وقت ایک معروف بین الاقوامی اشاعتی ادارہ کے لیے ایک کتاب لکھ رہے ہیں، جس کے مکمل ہونے کے بعد وہ افغانستان منتقل ہوکر وہاں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ملاقات کے دوران وہ بار بار بتا رہے تھے کہ وہ روحانی طور پر آسٹریلین کے بجائے اپنے آپ کو پشتو افغان مسلمان سمجھتے ہیں۔ قید کے دوران انہوں نے کئی نظمیں بھی لکھی ہیں جو شاید وہ اپنی کتاب میں درج کریں گے۔
مجھے یاد آرہا تھا کہ چند سال قبل دہلی میں ایک جید ہندو اسکالر سے ملاقات ہوئی تھی، جنہوں نے اسلا م اور دہشت گردی کے موضوع پر ہندی میں ایک کتابچہ لکھا تھا، مگر بعد میں اسلام کے مداح بن گئے تھے۔
جب میں ان سے وجہ جاننی چاہی، تو ان کا کہنا تھا کہ ایک بھارتی نژاد ہندوؤں کی ایک امریکی تنظیم نے ان کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بعد ان کو آفر دی کہ وہ اس موضوع کو مزید پھیلا کر 200یا 300صفحات کی ایک کتاب لکھیں اور اس کے لیے پیشگی کئی لاکھ روپے ان کو دیے گئے۔ چونکہ ایک ضخیم کتاب لکھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت تھی، اس لیے انہوں نے براہ راست قران کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔
تو معلوم ہو اکہ جب آیات وغیر ہ کا حوالہ دےکر انہوں نے کتابچہ تحریر کیا تھا، ان کے معنی اور مطالب تو کچھ اور ہی ہیں۔ وہ تو بجائے دہشت گردی کے امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کا شکوہ تھا کہ اس کے ذمہ دار مسلمان خود ہیں، جو خود قران پڑھتے اور سمجھتے ہیں نہ کسی اور کو پڑھنے دیتے ہیں۔
ایک جید دلت اسکالر پروفیسر کانچی الیہہ نے بھی ایک بار مجھے بتایا کہ مسلمان قران کو ایک پیغام یا کتاب کے بجائے مقدس تعویز کے بطور طاقوں و جز دانوں میں سجاتے ہیں اور اس کے معانی سمجھانے کا کام نہیں کرتے ہیں۔ اگر یہ کسی غیر مسلم کے ہاتھ میں لگ جائےتو جز بجز ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس کی بے حرمتی نہ ہوجائے۔
مجھے یاد ہے کہ ممبئی کے معروف ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے کیمپس میں میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کی جید اسکالر نے کہا کہ افتحار بھائی اسلام اور مسلمان دو الگ الگ چیزیں ہیں، کاش یہ دونوں اکھٹی ہوجاتیں۔پروفیسر ٹموتھی ویکس یا جبرائیل عمر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وقت کس طرح پرواز کر گیا، پتہ ہی چل نہ سکا۔ان کا کھانا بھی خاصا ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ کیونکہ گفتگو کے دوران انہوں نے ہاتھ روک کر رکھا تھا۔
اقبال نے شاید انہی کے لیے کہا تھا؛
ہے اسيري اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرئہ نيساں ہے زندان صدف سے ارجمند
‘شہپر زاغ و زغن در بند قيد و صيد نيست
ايں سعادت قسمت شہباز و شاہيں کردہ اند
دعا ہے کہ افغانستان کی قسمت اب اس نومسلم شہباز و زشاہین کی کاوشوں سے پلٹ جائے۔
Categories: فکر و نظر