الیکشن کےقصے: الیکشن کا موسم قریب آتے ہی بزرگ کئی ایسے پرانے قصے سناتے ہیں، جو جمہوریت کے اس تہوار پرتیر ونشتر کی طرح لگتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک باربھارتیندو ہریش چندر جب بستی پہنچے، توبولے–بستی کو بستی کہوں تو کاکو کہوں اجاڑ! ہرریا قصبے میں بالو شاہی کھائی تو یہ پوچھنے سےباز نہیں آئے کہ اس میں کتنا بالو ہے،وہ کتنی شاہی ہے۔
قسمیں، وعدے، پیار، وفا سب باتیں ہیں،باتوں کا کیا! 1967 میں آئی فلم ‘اپکار’ کا یہ گیت بھلے ہی پرانا پڑ چکاہو،لیکن جب انتخابات میں سیاستدانوں کے وعدوں اور وعدہ خلافیوں کے چرچے عام ہوتے ہیں تواسے مزے لے کر گایا اور گنگنایا جاتا ہے۔
اتر پردیش میں ہو رہےاسمبلی انتخابات بھی اس سے الگ نہیں ہیں، جن میں ایسے وعدوں اور وعدہ خلافیوں سے عاجزسیانے لوگ اس گیت کی مثال دے کر انہیں قطعی گمبھیرتا سے نہ لینے اور سر جھٹک کر بھلا دینے کی ‘نیک صلاح’ دے رہے ہیں۔البتہ، یہ کہنا مشکل ہے کہ ووٹر ان کی صلاح پر کتنا عمل کریں گے، کیونکہ کئی فلمی گیت انہیں دوسری طرح کے مشورے بھی دے رہے ہیں۔
مثلاً،1987 میں آئی والی فلم ‘پرتیگھات’ کے مشہور زمانہ’ہمرے بلما بےایمان’ والے گیت کےابتدائی بول-‘آج اچانک ہم پہ جو ہیں مہربان…ان سے پوچھو، یہ آج تک تھےکہاں…کیسے آئی ان کو ہماری یادجی… ارے رحم دل کیوں کر ہوئےجلاد جی؟’
لیکن فلموں کی تو چھوڑیے، اتر پردیش کے گاؤں اور قصبوں میں جو انتخابی قصے روایتی طور پر چلےآرہے ہیں، اور ذرا ساچھیڑا دیے جانے پر بڑے بزرگ جنہیں دلچسپ انداز میں سنانے لگ جاتے ہیں، ان میں وعدوں اور وعدہ خلافیوں پر ہی نہیں، ان پر چڑھنے والے الیکشن کے نشے پر اتنے گہرے طنز ہیں کہ ان کے آئینے میں لیڈروں کی تصویر پولیس والوں کی شبیہ سے بھی بدتر نظر آتی ہے۔
اس کی ایک بڑی مثال ہےعوام کے بیچ لوک گیت کی طرح مقبول ایک شاعر کےیہ شعر، جن میں ایک وعدہ خلاف لیڈربڑی ڈھٹائی سے خودپر چڑھے چناوی نشے کوقبول کر رہا ہے: ‘سڑک پکی کرادوں گا، کام نکی کرادوں گا…اب نشے کی بات کا اعتبار بھی کیا، الیکشن کے نشے میں تھا،کہا ہوگا…
آپ کو تعجب ہوگاکہ الیکشن کےاس نشے کا خماراس بستی کے شہر تک میں کچھ کم نہیں ہوتا، جو کبھی اتنا اجاڑ اجاڑ تھا کہ بھارتیندو ہریش چندر وہاں گئے،تو سوال کر ڈالا تھا کہ بستی کو بستی کہوں توکاکو کہوں اجاڑ!
انہوں نے ہرریا قصبے میں بالو شاہی کھائی تو طنزیہ انداز میں یہ پوچھنے سے بھی باز نہیں آئےکہ اس میں کتنا بالو ہے اور وہ کتنی شاہی ہے؟
وہاں کے بزرگ کئی ایسےپرانے انتخابی قصے سناتے ہیں، جو ہماری’دنیا کی عظیم ترین’ جمہوریت پر ایک جھناٹے دار تبصرےسے کم نہیں لگتے۔ ایسا ہی ایک قصہ سنیے۔
بستی ضلع کے کسی اسمبلی حلقہ میں ایک بہت بڑا تالاب تھا۔ کبھی کسی بادشاہ نے پانی جمع کرنے کی غرض سے بنوایا ہوگا۔ نئی تہذیب میں استعمال میں نہ رہنے کی وجہ سےیہ بتدریج بھرنےلگا اور اس کی گہرائی بہت گھٹ گئی،تو اتفاق ایسا کہ علاقے میں کچھ زیادہ ہی سیلاب بھی آنے لگے۔
پھر اس تالاب کو گہرا کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا، تاکہ سیلاب کامسئلہ حل ہو سکے۔ جب کچھ گاؤں والے یہ مطالبہ لے کر حلقہ کے ایم ایل اے کے پاس گئے تو انہوں نے تالاب کو گہرا کرانے کا وعدہ توکرلیا، لیکن بعد میں بھول گئے۔ ان دنوں ایم ایل اے فنڈ بھی نہیں ہوتاتھا۔
کچھ دنوں بعد جب ریاستی اسمبلی کے انتخاب ہوئے تو ان کی وعدہ خلافی انتخابی مسئلہ بن گئی۔ گاؤں والے پہلے ہی ناراض تھے۔ لہٰذا اس معاملے پر ووٹ بھی خوب برسے اور ان کاحریف جیت گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے دوڑ دھوپ کرکسی اسکیم کے تحت تالاب کو گہرا کرنے کے لیے ایک خطیر رقم منظور کروائی اور کچھ کیے بغیر اس کا بندر بانٹ کر لیا۔
اگلی بار کے الیکشن میں یہ گھوٹالہ ایک بڑا ایشو بن کر ابھرا اور اس گھوٹالے کی جانچ کروا کر قصورواروں کو سزا دلانے کا وعدہ کرنے والا امیدوارجیت گیا۔ انہوں نے انکوائری کا وعدہ نبھایا بھی۔
لیکن،گھپلہ کرنے والا سابق ایم ایل اےبھی اپنےآپ میں ایک ہی تھا۔ وہ رات کے اندھیرے میں نئے ایم ایل اے کے پاس گیااور بولا، میں توسمجھتا تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد تم ٹھیک سے سیاست کرنا سیکھ گئے ہوگے، لیکن تم تو ابھی بھی نرےبدھوہی ہو۔ ارے بھائی، جانچ کرا کر کیاپاؤگے؟ میں پھنسنے سے رہا، کیونکہ میں اتنا احمق نہیں ہوں کہ گھپلہ کروں گااور لکھت پڑھت میں ثبوت چھوڑ جاؤں گاکہ تم الیکشن جیت کرآؤ، جانچ کراؤ اور مجھے سزا دلوا دو، بھائی میرے! میرا کہا مانو، میں نے تالاب کو گہرا کروانے کے لیےمنصوبہ منظور کرایا تھا۔ اب تم کہو کہ تالاب گہرا کرنے سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، اس لیے اسے دوبارہ بھرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اس کے لیے رقم منظور کرا لاؤ اور میری طرح موج اڑاؤ۔
قصہ کوتاہ، و ہی ہوا۔ تالاب نہ گہرا ہوا، نہ اتھلا۔ لیکن دودو بار ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور ان پر سرکاری پیسہ ضائع کیا گیا۔
بیچارے ووٹر کیا کرتے؟ کسی نہ کسی کو توانہیں ووٹ دینا تھا اور جتانا تھا۔ سو، آگے بھی انتخابات ہوتےرہے، پارٹیاں، محاذ اور امیدوار جیتتے ہارتے رہے اور سب کچھ پہلے کی طرح چلتا رہا۔
ایسا ہی ایک اور قصہ۔ ملک اور بیرون ملک کی یونیورسٹیوں سے پڑھ لکھ کروطن واپس لوٹے ایک تعلقدار کے نوجوان بیٹے کے اپنے ملک اور سماج کی خدمت کرنے کے’جنون’نے انہیں تھوڑی شہرت دلادی تو ایک پارٹی نے بغیر مانگے ہی اسمبلی انتخاب کا ٹکٹ دے دیا۔
ابھی اس کے دل پر سیاست کازیادہ میل نہیں چڑھاتھا، اس لیے ٹکٹ ملتے ہی اس نے جیتنے کے بعد تابڑ توڑ کئی تبدیلیوں کے خواب دیکھ ڈالے۔ لیکن، جب وہ انتخابی مہم کے لیے نکلا اور ایک دور افتادہ گاؤں پہنچا تو اس کے ارمانوں پر بجلی گر پڑی۔ ووٹر اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ وہ ان کے لیے کیاکیالایا ہے۔
کئی بزرگ توآگے بڑھ کراس کی جیب وغیرہ بھی ٹٹولنے لگے۔ اس نے کہا کہ لایا تومیں کچھ نہیں ہوں، ووٹ مانگنے آیا ہوں۔ ہاں ، وعدہ کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے ووٹ دیا تو آپ کو دھوکہ نہیں ہوگا۔ میں دل و جان سے آپ کی خدمت کروں گا۔
لیکن، ووٹر مطمئن نہیں ہوئے۔ پوچھنے لگا کہ کچھ لایا ہی نہیں تو ووٹ کیسےپائے گا، جیتے گا کیسے؟ مفت میں تو ہم ووٹ دینے سے رہے۔ آج تک کبھی کسی کو نہیں دیا۔
بات دراصل یہ تھی کہ اس دن تک اس گاؤں میں جو بھی امیدوارگیا، اس نے گاؤں والوں کو ان ووٹ کے بدلے کچھ نہ کچھ نقد-نارائن دیا تھا۔ اس وجہ سے گاؤں والوں نے یہ اصول بنا رکھا تھا کہ جب بھی ووٹ کا موسم آئے ،تو جو امیدوار سب سے پہلے آکران کے ووٹ کی قیمت ادا کر جائے، بوتھ پر جا کر اسے ہی ووٹ دیا جائے۔
ان کو اس میں کچھ غلط بھی نہیں لگتا تھا اور ان کے لیےالیکشن پانچ سالوں میں ایک بار آنے والےتہوار میں بدل گیا تھا۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے بعد نوجوان امیدوار کے بدلاؤ کے ارمانوں کے ہوش کس طرح ٹھکانے آ ئے؟
آخر میں 1962 کے عام انتخاب کا ایک ایسا ہی قصہ، جو قصہ کم واقعہ زیادہ ہے۔
اس کی نظیر بھی کہ کس طرح کئی بار انتخابات کے نتائج کا تعین ووٹر کی ناخواندگی، ناپختگی اور ان کی جہالت سے کیا جاتا ہے۔ اس انتخاب میں، بھارتیہ جن سنگھ کے اس وقت کے نوجوان رہنما، اٹل بہاری واجپائی، بلرام پور لوک سبھا حلقہ سے میدان میں اترےتو کانگریس کی خاتون امیدوار سبھدرا جوشی سے دو ہزار ووٹوں کے معمولی فرق سے ہار گئے تھے۔
اس شکست کے پیچھے ان کی لوک سبھا سیٹ کے گیسڑی اسمبلی حلقہ کے تھارو قبیلے کے ووٹروں کی ناخواندگی نے بڑا رول ادا کیا تھا۔دراصل، اس وقت لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ بیلٹ پیپرز کے ذریعے اور ووٹرز کو الگ الگ دو بیلٹ پیپرز پر مہریں لگانی پڑتی تھی۔ دونوں بیلٹ پیپرز کے رنگ مختلف ہوتے ہی تھے،لیکن ان کے سائز امیدواروں کی تعداد کے مطابق الگ الگ ہوتے تھے۔
اس الیکشن میں بلرام پور لوک سبھا حلقہ سے اٹل بہاری واجپائی اور سبھدرا جوشی ہی دو امیدوار تھے،جس کی وجہ سے ان کا بیلٹ پیپر بہت چھوٹا تھا،جبکہ اسی کےتحت گیسڑی اسمبلی میں امیدواروں کی کثرت کی وجہ سے بیلٹ پیپر کا سائز نسبتاً بڑا تھا۔
اس اسمبلی حلقہ میں تھارو قبیلے کے ووٹروں کی کثرت ہے۔ جب وہ ووٹ ڈالنے آئے تو یہ قبول ہی نہیں کر پائے کہ اٹل بہاری واجپائی جیسےتیز طرار نوجوان لیڈر کا بیلٹ پیپر چھوٹا اور کسی دوسرے لیڈر کا بیلٹ پیپر ان سے بڑا ہو سکتا ہے۔
اس وجہ سے انہوں نے گیسڑی اسمبلی حلقہ کے بڑے بیلٹ پیپر کو اٹل کا بیلٹ پیپر سمجھا اور اس میں جن سنگھ کے دیپک کے نشان پر خوب مہریں لگائیں، جبکہ بلرام پور لوک سبھا حلقہ کے چھوٹے بیلٹ پیپر پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کسی نے بتانا بھی چاہا کہ اٹل کا بیلٹ پیپر چھوٹا والاہے توسمجھے کہ وہ انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں، گیسڑی اسمبلی حلقہ سے جن سنگھ کے امیدوار سردار بلدیو سنگھ نے اپنے کانگریسی حریف پر بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی، جبکہ ان کے حلقے میں واجپائی کو اتنے کم ووٹ ملے کہ انہیں دوسرے اسمبلی حلقوں میں ملی بڑھت بھی کچھ کام نہیں آئی ۔ وہ مجموعی طور پر 2000 ووٹوں سے ہار گئے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر