مغربی بنگال میں پہلے بائیں بازو کے تشدد کا غلبہ تھا، اسی کو ترنمول نے اپنایا۔ ترنمول نے بائیں بازو کے تشدد کا سامنا کیاتھا، لیکن اب اس کی جگہ اس نے ترنمول کےتشدد کو قائم کردیا ہے۔ پارٹی بھلے بدل گئی ہو، لیکن تشدد وہی ہے۔
مغربی بنگال کے بیر بھوم ضلع میں رام پور ہاٹ کے قریب بوگتوئی گاؤں میں 21 مارچ کی رات کو ہوئے اس قتل معاملے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔تقریباً 10 گھروں پر بم سے حملہ اور ان میں آگ زنی میں خواتین اور بچوں سمیت 8 افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ بعد میں اس بات پر بحث کی جائے گی کہ کیا انہیں جلا دیا گیاتھا یا گھروں میں لگائی گئی آگ میں جل کر وہ مر گئے۔ اس فرق سے قتل کی نوعیت میں بھی فرق پڑے گا،اور ظلم کی سطح میں بھی۔
ہم نے سب سے پہلے ہلاک ہونے والوں کے نام دیکھے۔ ٹلی خاتون، شیلی بی بی، نورنہار بی بی، للی خاتون، روپالی بی بی، جہاں آرا بی بی، مینا بی بی، ساجد الرحمن۔ راحت کی سانس لی۔ پھر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔
لیکن اس اولین ردعمل کی وجہ ہے۔ ہر اس قتل کو جو ہندوؤں کا ہو، اور خاص طور پر مغربی بنگال میں، جس انداز میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے، اس سے مسلمانوں اور سیکولر لوگوں کو کافی تسلی ملتی ہے۔ چونکہ ہلاک ہونے والے تمام مسلمان ہیں، اس لیے اب ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو اس قتل معاملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔
لیکن کیا یہ تسلی انسانی ہے؟ ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس قتل کو بنگال کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یقین دلایا کہ تشدد میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا، چاہے ان کا سیاسی رنگ کچھ بھی ہو۔ اس آخری حصے میں بنگال کا المیہ چھپا ہوا ہے۔
ہلاک ہونے والے اور ہلاک کرنے والے دونوں ہی حکمراں ترنمول کانگریس سے یا اس کے حامیوں سے وابستہ بتائے جاتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ سوموار کی شام کوترنمول کانگریس سے وابستہ باہوبلی بھادو شیخ کے قتل کے کچھ دیر بعد، موٹر سائیکل پر سوار کچھ سو غنڈے گاؤں میں داخل ہوئے اور انہوں نے بمباری کی، آگ زنی کی ، جس میں یہ 8 لوگ مارے گئے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ترنمول پارٹی کے ارکان کے درمیان رنجش کا نتیجہ ہے۔ بھادو شیخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا غنڈہ تھا۔ ظاہر ہے اس نے اپنے دشمن بنائے ہوں گے۔ اس کے تشدد کا بدلہ اس کے قتل سے لیا گیا۔ پھر اس قتل کا جواب اس قتل سے دیا گیا۔
کیا اسے سیاسی تشدد کہا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دو گروپوں کے درمیان لڑائی کا نتیجہ ہے؟
ایک ماہر سیاسیات نے ٹیلی گراف اخبار کو بتایا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سیاسی نہیں ہے کیونکہ یہ ترنمول کے اندر سیاسی جدوجہد کا ہی ایک نتیجہ ہے۔ ترنمول کے اندر کئی دھڑے ہیں۔ ان کے درمیان تصادم کو غیر سیاسی نہیں کہا جا سکتا۔
ممتا بنرجی نے کہا کہ بنگال میں ایسی چیزیں نہیں ہوتیں اور چونکہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے، اس لیے ایسی سازش کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے ریاست میں انتشار کی نئی مثال قرار دیتے ہوئے صدر راج کا مطالبہ کیا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے ریاست میں امن و امان کے تباہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔
تشدد تشدد ہے۔ قتل قتل ہے۔ پھر بھی یہ کیسے کیا جاتا ہے، اس سے قتل اور قتل میں فرق معلوم ہوتا ہے۔ کھلے عام سو لوگوں کا موٹر سائیکل پر ایک گاؤں میں گھس کر حملہ کرنا، گھروں کو آگ لگانا اور لوگوں کو جلا کر مار دینا ، یہ گولی ماردینے سے زیادہ خوفناک ہے۔
کچھ ہی فاصلے پر واقع تھانے سے پولیس کو آنے میں گھنٹہ بھر لگ جانا، یہ بھی قتل کو دوسرا رنگ دیتا ہے۔اسٹیٹ نے اس قتل کو ہونے دیا۔ آخر وہاں پولیس ہی تو اسٹیٹ ہے۔
بنگال میں پولیس اور پارٹی کی تفریق بہت پہلے مٹ گئی تھی۔ بائیں محاذ کے وقت ہی۔ تھانے پارٹی کی مرضی سے چلتے تھے۔ ایسے پولیس افسران کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں، جنہوں نے پارٹی سے آزاد ہوکر اپنے فرائض سرانجام دیے۔
گجرات 2002 میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہاں ایسے افسران موجود تھے جنہوں نے آئینی فرض کو پورا کیا۔ حالانکہ اس کی قیمت اسے چکانی پڑی۔ بنگال کی پولیس جو پہلے سی پی ایم کی تھی اب ترنمول کی ہے۔
اس کیس میں مقتول اور قاتل کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے۔ لیکن بنگال میں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ تین دہائیوں کی بائیں محاذ کی حکومت کے خاتمے اور ترنمول کی بے مثال جیت کے بعد سی پی ایم کے دفاتر پر حملے شروع ہو گئے۔ ان پر قبضہ، ان کی توڑ پھوڑ، ان کو جلایا جانا، یہ دیکھ کر ہم میں سے کچھ لوگوں نےسوچا کہ اس تشدد کے خلاف بیان جاری کریں۔
ہم نے ان لوگوں سے رابطہ کیا جو اس سے پہلے سی پی ایم کے تشدد کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ جواب مایوس کن تھا۔ ایک بڑی مصنفہ نے اس بیان کی تجویز کو سن کر فون بند کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ہم واقعی تشدد کے خلاف نہیں ہیں، ہم اپنے تشدد کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہ بھی یاد آیا کہ ترنمول کے تشدد کے غلبہ سے پہلے بہت سے لوگ سی پی ایم کے تشدد کی مخالفت کرنے میں ہچکچاتے تھے۔
پورے ہندوستان میں تشدد کا راج ہے۔ سیاسی تشدد بھی۔ لیکن بنگال کے سیاسی مزاج میں ہی تشدد ہے۔ اس بار بھی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ترنمول پارٹی کی جانب سے مخالفین پر حملے کیے گئے۔
اس سے پہلے مغربی بنگال میں بائیں بازو کے تشدد کا غلبہ تھا۔ بلدیاتی انتخابات میں دوسری جماعتوں کے امیدوار کھڑے نہ کردینا معمول تھا۔ اسی کلچر کو ترنمول نے بھی اپنایا۔ ترنمول کو بائیں بازو کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس کی جگہ اس نے ترنمول تشدد کو قائم کردیا۔
بنگال میں شاید ہی کوئی پارٹی سے آزاد ہو۔ہر شخص یا تو بائیں بازومیں ہوتا ہے، یا ترنمول یا اب بی جے پی میں۔ ترنمول نے سی پی ایم کے انداز میں اس کو توڑ دیا۔ اب اس کے تشدد کی حریف بن کر بھارتیہ جنتا پارٹی آئی ہے۔ تشدد جاری ہے۔
سماج کا پارٹی-سماج میں تبدیل ہونا اس تشدد کی جڑ ہے۔ کئی نسلیں اس تشدد کو سیاست سمجھ کر پروان چڑھی ہیں۔ ممتا بنرجی کا خیال ہے کہ وہ اس پر قابو پالیں گی، لیکن جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے، تشدد ڈی سینٹرلائز ہوجاتاہے اور خود مختاریت بھی۔ اگر پارٹی تشدد چاہتی ہے تو اسے مقامی خود مختاری بھی دینی ہوگی۔ تب ہی وہ اپنی فوج حاصل کر سکے گی۔
وقت بہت پہلےہی آ گیا تھا کہ مغربی بنگال کی تمام سیاسی پارٹیاں مل کر تشدد کی اس سیاست کو ترک کر دیں۔ اس نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کہنا آسان ہے، ہونا مشکل ۔ لیکن بنگال کا معاشرہ اگر یہ نہ دیکھ سکے کہ وہ کس طرح کریہہ ہو رہا ہے تو اس کی نجات ممکن نہیں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر