خبریں

کھرگون تشدد: پی ایم آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے مکان کو منہدم کرنے کے بعد حکومت متاثرہ خاندان کی باز آباد کاری کرے گی

مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں رام نومی کے موقع پر ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے کئی مکانات اور دکانوں کو منہدم کر دیا تھا۔ اس میں حسینہ فخرو کے گھر کو بھی بلڈوزر سے توڑ دیا گیا تھا، جبکہ ان کے پاس موجود دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مکان پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت منظور کیا گیا تھا۔

فوٹو: کاشف کاکوی

فوٹو: کاشف کاکوی

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی کے دن تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ کی جانب سے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے حسینہ فخرو کے گھر کو منہدم کرنے کے چند دن بعدہی حکومت نے متاثرہ خاندان سے رابطہ کیا اور انہیں راشن فراہم کرایا اور ان کی بازآبادکاری  کے اختیارات کو کھنگالنے کی کوشش کی۔

بتادیں کہ کھرگون کے خس خس باڑی علاقے میں 60 سالہ حسینہ کا گھر ان 12 گھروں میں سے ایک تھا جنہیں رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ جھڑپوں کے اگلے ہی دن ملزمان کا غیر قانونی تعمیرات بتاکر منہدم کر دیا  گیاتھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، سنیچر (16 اپریل) کی سہ پہر ضلع انتظامیہ اور میونسپل حکام حسینہ اور ان کے اہل خانہ سے ملنے آئے۔ جنہوں نے قریب ہی واقع ایک ویران مسجد میں پناہ لے رکھی ہے۔ انہیں راشن فراہم کرنے کے بعد اہلکاروں نے اہل خانہ کے انگوٹھوں کے نشان لیے اور بتایا کہ انہیں رہائش کے لیے ملٹی پلیکس بھیجا جائے گا۔

حسینہ کے بیٹے امجد خان نے کہا،انہوں نے (افسران) پہلے ہمیں کہا کہ وہ ہمیں ملٹی پلیکس میں شفٹ کر دیں گے، لیکن وہ عمارت ایک فرقہ وارانہ علاقے میں ہے، اس لیے ہم نے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر ٹیم نے ہم سے پوچھا کہ ہمارا پرانا گھر کہاں تھا؟ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم تین دہائیوں سے خس خس باڑی میں رہ رہے تھے، لیکن وہ پھربھی مقامی لوگوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں ہمارے گھر کو تلاش کر رہے ہیں۔

کھرگون  ضلع کلکٹر انوگرہ پی نے اخبار کو بتایا،حکومت اس خاندان کی بازآبادکاری کرے گی۔

بہرحال، کارروائی کے دوران ضلع انتظامیہ کا کہنا تھا کہ حسینہ فخرو کا خاندان جس زمین پر رہائش پذیر تھا وہ زمین محکمہ ریونیو کی تھی، لیکن امجد خان نے 2017-18 سے بھرے جارہے پراپرٹی ٹیکس اور بجلی کے بلوں کی رسید دکھائی جس کی بنیاد پر ان کے والد فخرو پٹھان نے پی ایم آواس یوجنا کے تحت فائدہ اٹھانے کے لیے درخواست دی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا خاندان خس خس باڑی میں زمین کے اس ٹکڑے پر تین دہائیوں سے کچے مکان میں رہ رہا تھا۔

ستمبر 2020 میں فخرو پٹھان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد یہ گھر حسینہ کے نام ہوگیا۔ اسکیم کے تحت  28 اکتوبر 2020 کو حسینہ کے بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے کی پہلی قسط آئی۔

امجد خان کے مطابق اس دوران انہوں نے زمین پر ایک عارضی جھونپڑی بنا کر رہنا شروع کر دیا اور کچے گھر کے بجائے اپنا پکا مکان بنانا شروع کیا۔

انہوں نے بتایا،ہمیں 31 مارچ 2021 کو ایک لاکھ روپے کی دوسری قسط ملی۔ ہم نے اپنی بچت کے ایک لاکھ روپے بھی تعمیرات میں لگائے۔ ہمیں 50000 روپے کی آخری قسط 4 اپریل 2022 کو ملی۔

پی ایم آواس یوجنا کے تحت تعمیرات  مکمل ہونے کے فوراً بعد حسینہ فخرو کو 17 ستمبر 2021 کو کھرگون تحصیلدار کی طرف سے ایک نوٹس موصول ہوا، جس میں کہا گیا کہ یہ پلاٹ سرکاری زمین پر ہے۔

انہیں 29 ستمبر تک وضاحت پیش کرنے کو کہا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے اور انہیں زمین سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔

امجد نے کہا، ہم 29 ستمبر کو تحصیلدار کے دفتر گئے، انہوں نے ہمیں پورا دن بٹھایا، اور ایک اور تاریخ دے دی۔ ہم دہاڑی والے مزدور ہیں اور سارا دن سرکاری دفاتر میں نہیں بیٹھ سکتے، لیکن اس کے باوجود ہم وہاں جاتے رہے۔

تحصیلدار کے دفتر میں اپنی والدہ کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے امجد نے کہا، خاتون (حسینہ) بیوہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور پلاٹ نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اس کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔ہم انصاف کی اپیل کرتے ہیں۔

اسی دوران امجد خان کو کارپوریشن کے عہدیداروں کا فون آیا کہ وہ آئیں اور وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ لے جائیں، جس میں وزیر اعلیٰ نے ان کے خاندان کو پی ایم آواس یوجنا کے تحت مکان بنانے پر مبارکباد دی ہے۔

اس دوران اسکیم کے تحت تیسری اور آخری قسط 4 اپریل 2022 کو حسینہ کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی، جس کے تین دن بعد انہیں 7 اپریل کو نوٹس بھی ملا کہ ان کا مکان تجاوزات والی زمین پر بنایا گیا ہے، لہٰذا اسے خالی کر دیں۔ اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ تین دن میں اپنا جواب جمع کرائیں ورنہ مکان توڑ دیا جائے گا۔

امجد نے کہا کہ ہم نے اپنا جواب 9 اپریل کو تیار کر لیا تھا لیکن چونکہ سنیچر کا دن تھا اس لیے ہم اسے تحصیلدار کے دفتر میں پیش نہیں کر سکے۔ 10 اپریل کو شہر میں (فرقہ وارانہ تصادم کی وجہ سے) کرفیو لگا دیا گیا اور ہم باہر نہیں نکل سکے۔ اگلے دن افسران کی ایک ٹیم آئی اور بلڈوزر نے ہمارے گھر کو گرا دیا۔

پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں حسینہ کہتی ہیں، میری شادی شدہ بیٹی کے پاس ایک گھر ہے، لیکن یہ ہم سب کے لیے بہت چھوٹا ہے۔ تب ہماری برادری کے لوگ ہماری مدد کے لیے آگے آئے۔ اکرم بھائی نے ہمیں اس باڑے میں رہنے کے لیے جگہ دی۔

اکرم خان کا کہنا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ضرورت مند امجد ہو یا اکشے، میں نے انسانیت کے ناطے  اپنے گھر کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، جب تک انہیں کہیں اور رہنے کے لیے چھت نہ مل جائے۔

اکرم خان کے گئو شالہ میں، پولیس کے ساتھ ضلع مجسٹریٹ کی ایک ٹیم نے حسینہ کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور تصاویر اور ویڈیوز بنائے۔

حسینہ کہتی ہیں،انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم دھرم شالہ میں شفٹ ہونا چاہیں گے جہاں ہمیں کھانا ملے گا، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم کہیں نہیں جانا چاہتے اور اپنی حفاظت اور جان کی فکر میں ہیں۔ ہمارے سروں پر چھت ہماری کمیونٹی نے دی ہے اور ہم یہاں رہ رہے ہیں۔

تشدد کے بعد توڑ پھوڑ کی چنندہ مہم کے خلاف مسلم کمیونٹی ہائی کورٹ سے رجوع کرے گی

دریں اثناء، کھرگون اور کچھ دیگر مقامات پر 10 اپریل کو رام نومی تشدد میں ملوث ملزمان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے مدھیہ پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت کی توڑ پھوڑ مہم کے خلاف مسلمانوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک مولوی نے کہا کہ توڑ پھوڑ کی مہم نے بہت سے لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے سوال کیا کہ فسادات میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے اہل خانہ کو سزا کیوں دی جارہی ہے۔ ریاستی حکومت نے رام نومی کے جلوسوں کے دوران پتھراؤ اور دوسری طرح  کے تشدد میں ملوث لوگوں کی مبینہ طور پر ‘غیر قانونی’ املاک کو توڑ پھوڑ کرنے کی مہم شروع کی ہے۔

ریاست میں کئی مسلم مذہبی رہنماؤں نے پہلے ہی الزام لگایا ہے کہ تشدد کے بعد حکام کی جانب سے کمیونٹی کے افراد کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کچھ معاملات میں بغیر کسی کارروائی کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔

بھوپال شہر کے قاضی سید مشتاق علی ندوی نے سنیچر کے روز پی ٹی آئی کو بتایا،میں نے اپنی برادری کے وکلاء سے کہا ہے کہ وہ ریاست میں چل رہے چنندہ توڑ پھوڑ کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔ ہم یقینی طور پر اس یکطرفہ مہم کے خلاف ہائی کورٹ کا رخ کرنے جا رہے ہیں۔

اس سوال پر کہ کھرگون میں اب تک مسلمانوں کے کتنے مکان گرائے گئے، انہوں نے کہا کہ کرفیو ہٹنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ مولوی نے کہا، سماج قانون سے چلتا ہے۔ جرم کرنے والوں کوسزا ملنی چاہیے نہ کہ اس کے خاندان کو۔ اگر خاندان کا ایک فرد  کوئی غلطی کر تا ہے  تو گھر کیوں گرائے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس مہم کی وجہ سےکئی خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔

اس سے قبل جمعرات کو ندوی نے کہا تھا، ہم نے بھوپال میں سی سی ٹی وی کیمرے (مساجد میں) لگانے شروع کر دیے ہیں۔ میں نے پورے مدھیہ پردیش میں علماء سے ایسا ہی کرنے کی درخواست کی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے پتھراؤ کرنے والوں پر نکیل کسیں گے۔ ندوی نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چل جائے گا کہ اس طرح کے واقعات کے دوران پتھر کہاں سے پھینکے گئے تھے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کھرگون میں مبینہ طور پر تشدد میں ملوث لوگوں کی غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنا سراسر غلط ہے۔

بتادیں کہ اس ہفتے کی  شروعات میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے خبردار کیا تھا کہ ان کی حکومت فسادات میں ملوث کسی کو بھی شخص کو نہیں بخشے گی۔ انہوں نے کھرگون تشدد میں مبینہ طور پر شامل افراد سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مکانات کو مسمار کرنے کی کارروائی کو بھی جائز قرار دیا۔

غور طلب  ہے کہ اتوار 10 اپریل کو کھرگون میں رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کے بعد آتش زنی اور تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جس کے بعد شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا۔۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)