نئےنصاب کے مطابق، دسویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب میں مذہب، فرقہ واریت اور سیاست نصاب کا حصہ بنے رہیں گے تاہم صفحہ 46، 48، 49 پر بنی تصویروں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان تصویروں میں دو پوسٹر اور ایک سیاسی کارٹون ہے۔ انہی پوسٹروں میں فیض کی نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔
نئی دہلی: سینٹرل کونسل آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے 21 اپریل کو 2022-2023 کے لیے نیا تعلیمی نصاب جاری کیا ہے۔ نئے نصاب میں دسویں جماعت کی این سی ای آر ٹی کی کتاب سے فیض احمد فیض کی دو نظموں کو ہٹا دیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً ایک دہائی سے سی بی ایس ای کے طالبعلم این سی ای آر ٹی کی دسویں جماعت کی نصابی کتاب ‘ڈیموکریٹک پالیٹکس (سوشل سائنس)’ میں ‘مذہب، فرقہ واریت اور سیاسی-فرقہ واریت، سیکولر ریاست’ کے باب میں فیض احمد فیض کی دو نظموں کے ترجمہ شدہ حصے پڑھتے آرہے تھے لیکن اب ان کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔
نئے نصاب کے مطابق، دسویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب میں مذہب، فرقہ واریت اور سیاست نصاب کا حصہ بنے رہیں گے، تاہم صفحہ نمبر 46، 48، 49 پر بنی تصویریں ہٹا دی گئی ہیں۔
دراصل ان تصویروں میں دو پوسٹر اور ایک سیاسی کارٹون بنےہیں۔
فیض کی نظموں کے ساتھ بنا ان میں سے ایک پوسٹراین جی او انہد (ایکٹ ناؤ فار ہارمنی اینڈ ڈیموکریسی) کی طرف سے جاری کیاگیا تھا۔
سماجی کارکن شبنم ہاشمی اور ہرش مندر انہد کے شریک بانیوں میں شامل ہیں۔
یہ دونوں پوسٹر اور کارٹون ہی وہ تصویریں ہیں، جنہیں نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان میں فیض کی نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔
تاہم، ان کو نصاب سے ہٹاجانے کے بارے میں سی بی ایس ای سے پوچھے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
واضح ہو کہ فیض کا یہ شعر ان کی جس نظم لیا گیا ہے وہ فیض نے اس وقت لکھی تھیں جب انہیں لاہور کی جیل سے ایک زنجیر میں جکڑکر دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس ایک تانگے سے لایا جا رہا تھا۔
دوسرا پوسٹر، فیض کی ایک اور نظم کے کچھ حصوں کے ساتھ، ‘والنٹری ہیلتھ ایسویسی ایشن آف انڈیا’ کی طرف سے جاری کیا گیا تھا، جو خود کو 27 ریاستی انجمنوں کی فیڈریشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔
فیض نے یہ نظم 1974 میں ڈھاکہ کے اپنے دورے کے بعد لکھی تھی۔
جس کارٹون کو نصاب سے ہٹا یا گیا ہے وہ مشہور کارٹونسٹ اجیت ننان نے بنایا تھا اور اسے ٹائمز آف انڈیا سے لیا گیا تھا۔
نظموں کے یہ حصے ان کی نظم آج بازار میں پا بہ جولاں چلواور ڈھاکہ سے واپسی پر، سے لیے گئے تھے
اس کارٹون میں مذہبی علامتوں کے ساتھ ایک خالی کرسی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کارٹون کے ساتھ کیپشن میں لکھا گیاہے ‘یہ کرسی نامزد وزیر اعلیٰ کے لیے اپنی سیکولر ساکھ ثابت کرنے کے لیے ، بہت کچھ ہوگا۔’
نصابی کتاب کو 2005 میں قومی نصاب کے فریم ورک میں ترمیم کے بعد کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے آنجہانی پروفیسر ہری واسودیون کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے تیار کیا تھا۔
اس کے علاوہ کتاب سے جمہوریت اور تنوع کے باب کو بھی ہٹا دیا گیا ہے، جس میں طالبعلموں کو ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ذات پات کی طرزپر سماجی تقسیم اور عدم مساوات کے تصورات سےواقف کرایاجاتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی نیپال اور بولیویا پر مرکوز مشہور جدوجہد اور تحریک اور جمہوری سیاست میں اصلاحات کے حوالے سے جمہوریت کو درپیش چیلنجز کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ گیارہویں جماعت کی تاریخ کی نصابی کتاب سے ‘سینٹرل اسلامک لینڈس’ کا ایک باب ہٹا دیا گیا ہے۔ اس باب میں افریقی ایشیائی خطوں میں اسلامی سلطنتوں کے عروج اور معیشت اور معاشرے پر اس کے اثرات کی تفصیلات پیش کی گئی تھی۔ اسی کلاس کے ریاضی کے نصاب سے بھی کچھ حصے نکال دیے گئے ہیں۔
وہیں، دسویں جماعت کے نصاب سے غذائی تحفظ پر مرکوز ایک باب سے زراعت پر عالمگیریت کے اثرات کو ہٹا دیا گیا ہے۔
بارہویں جماعت کے پولیٹکل سائنس کے نصاب سے سرد جنگ کے دور اور ناوابستہ تحریک سے متعلق باب کو ہٹا دیا گیا ہے۔
اس سے قبل، نصاب کو منطقی بنانے کے فیصلے کے تحت سی بی ایس ای نے اعلان کیا تھا کہ 11ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں وفاقیت، شہریت، قوم پرستی اور سیکولرازم کےابواب پر طلبہ کا جائزہ لیتے وقت غور نہیں کیا جائے گا، اس پر خوب تنازعہ بھی ہوا تھا۔
تاہم، ان مضامین کو 2021-2022 کے تعلیمی سیشن میں نصاب میں دوبارہ شامل کیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2020 میں آئی آئی ٹی کانپور میں ایک احتجاجی مظاہرہ کے دوران طالبعلموں کے ذریعے فیض احمد فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں گے’ گائے جانے پرایک فیکلٹی ممبر نے اس کو ہندو مخالف بتایا تھااور اس کے دو مصرعوں پر اعتراض کیا تھا۔
Categories: خبریں