خبریں

ایم پی: ہندو خاتون سے شادی کرنے پر مسلم نوجوان کے گھر اور دکانوں پر چلا تھا بلڈوزر، عدالت نے دیا تحفظ

معاملہ ڈنڈوری کا ہے، جہاں خاتون کے اہل خانہ کی جانب سے ایک مسلم نوجوان پر اغوا کا الزام لگائے جانے کے بعد انتظامیہ نے ان کے گھر اور دکان توڑ دیے تھے۔ خاتون نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، جس کے بعد عدالت نے اغوا کے  کیس میں کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔

مدھیہ پردیش کے ڈنڈوری میں آصف خان کا منہدم گھر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

مدھیہ پردیش کے ڈنڈوری میں آصف خان کا منہدم گھر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے ڈنڈوری ضلع میں ایک مقامی ہندو خاتون کو مبینہ طور پر بھگا لے جانے کے الزام میں انتظامیہ کی جانب سےایک مسلم نوجوان کے گھر اور تین دکانوں کو منہدم کیے جانے کے بعد ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ خاتون کے اہل خانہ کی جانب سے درج کرائے گئے اغوا کے معاملے میں  کارروائی نہ کی جائے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہائی کورٹ کی جبل پور بنچ کی جسٹس نندتا دوبے نے پولیس کو یہ ہدایت 22 سالہ ہندو خاتون ساکشی ساہو کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دی۔

دراصل خاتون نے اس درخواست میں بتایا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے آصف خان (22) سے شادی کی تھی۔

درخواست گزار (شاکشی) کی طرف سے دی گئی دلیلوں کے مطابق، یہ دونوں رواں  سال 7 اپریل سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔

بتادیں کہ اس واقعہ کے بارے میں معلوم ہونے پر 4 اپریل کو ساکشی ساہو کے بھائی نے آئی پی سی کی دفعہ 366 (اغوا، کسی عورت کو اغوا یا بہلا پھسلا کر شادی کے لیے مجبور کرنا) سمیت کے مختلف دفعات میں  ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

اس کے تین دن بعد ڈنڈوری ضلع انتظامیہ نے خان کے تین دکانوں کو یہ کہتے ہوئے گرا دیا کہ وہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھیں۔ اس میں ایک آن لائن سروس سینٹر، چکن شاپ اور چائے کا اسٹال بھی تھا۔

اسی دن دو مقامی لیڈروں بی جے پی کے سابق وزیر مملکت اوم پرکاش دھروے اور پارٹی کے ضلع صدر نریندر سنگھ راجپوت نے نیشنل ہائی وے 45 کو بلاک کر کے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ خان کے گھر کو بھی منہدم کیا جائے۔

اس کے بعد ضلع کلکٹر رتناکر جھا اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) بلبیر رمن نے مظاہرین سے ملاقات کی۔

اگلے دن پولیس کی بھاری موجودگی کے درمیان خان کے والد حلیم خان کے نام پر رجسٹرڈ ان کا مکان ایک بار پھر اس دعوے پر گرا دیا گیا کہ یہ غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

اس کے بعد خاندان (والد حلیم خان، ان کی بیوی اور دونوں غیر شادی شدہ بیٹے) کو ڈنڈوری چھوڑنا پڑا تھا۔

اس کارروائی پر ایس ڈی ایم رمن نے کہا تھا، گاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔ لوگ چاہتے تھے کہ مکان گرا دیا جائے۔

خان کا گھر ایک ایسے وقت میں توڑا گیا جب مقامی انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی املاک کو توڑنے اور انسداد تجاوزات مہم چلانے کی زیادہ سے زیادہ خبریں  سامنے آ رہی  ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں رام نومی (10 اپریل) کے آس پاس فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد گجرات کے آنند ضلع، دہلی کے جہانگیر پوری اور مدھیہ پردیش کے کھرگون میں مسلمانوں کے گھروں کو توڑنے  کی اطلاعات ہیں۔

ان واقعات میں دکان اور مکان کے مالکان کے بارے میں قیاس کیا گیا کہ وہ حالیہ فرقہ وارانہ تصادم میں ملوث تھے اور انہوں نے اپنی جائیدادیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی تھیں۔

حلیم خان کے گھر پر کارروائی  کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ایک  ویڈیو میں ساکشی نے کہا کہ انہوں نے آصف خان سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔

ڈنڈوری سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو مخاطب کرتے ہوئے خاتون نے ویڈیو میں کہا کہ اس نے آصف خان سے اپنی مرضی سے شادی کی، اس کے گھر والوں نے اس شادی کی مخالفت کی اور غلط طور پر ایف آئی آر درج کرائی۔

خاتون نے ویڈیو میں کہا تھا، میں اسے چاہتی ہوں اور وہ مجھے چاہتا ہے۔

خان کے خاندان کی جائیدادوں کو تباہ کرنے پر اس کے خاندان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خاتون نے ایس پی اور وزیر اعلیٰ سے درخواست کی کہ اگر دو گھنٹے کے اندر کارروائی نہ کی گئی تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ خود کشی کر لے گی۔

معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس دوبے نے کہا کہ عرضی کے مطابق جوڑے کو غلط طریقے سے اسپیشل میرج ایکٹ (ایس ایم اے) کے بجائے  مندر میں شادی کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

جوڑے نے کہا تھا کہ وہ بعد میں اپنی شادی ایس ایم اے کے تحت رجسٹر کریں گے۔

(اس رپورٹ  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)