بدھ کی شام بی ایچ یو کے گرلز ہاسٹل میں منعقد افطار پارٹی میں وائس چانسلر اور کچھ اساتذہ نے شرکت کی تھی، جسے ‘ایک نئی روایت کا آغاز’ بتاتے ہوئے طالبعلموں کے ایک گروپ نے دیر رات کو مظاہرہ کیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے قابل مذمت اور ماحول کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اہتمام برسوں سے ہو رہے ہیں۔
نئی دہلی: بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے ویمنس کالج کیمپس میں بدھ کی شام افطار پارٹی کے اہتمام کو لے کر طالبعلموں نے ہنگامہ کیا۔ وہیں، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ افطار کا اہتمام کئی سالوں سے کیا جا رہا ہے۔
اس دوران طالبعلموں نے وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر نعرے بازی کی اور وائس چانسلر کا پتلا بھی نذر آتش کیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، آر ایس ایس کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے طالبعلموں نے مظاہرہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وائس چانسلر افطار کا اہتمام کرنے کی ایک نئی روایت شروع کر رہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ بی ایچ یو کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے بدھ کو کیمپس میں افطار کے اہتمام کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
इस मौके पर कुलपति जी छात्राओं से रूबरू हुए और उन से खुलकर बात की। उन्होंने छात्राओं ने भी पूछा कि उन्हें किस किस तरह की दिक्कतें आती हैं। छात्राओं ने भी कुलपति जी ने अपने विचार साझा किये और अपनी आवश्यकताओं से उन्हें अवगत कराया। @VCofficeBHU @SudhirJainIITGN
— BHU Official (@bhupro) April 27, 2022
ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ،رمضان کے مقدس مہینے میں آج بنارس ہندو یونیورسٹی کے ویمنس کالج میں افطار کا اہتمام کیا گیا، جس میں وائس چانسلر پروفیسر سدھیر کمار جین نے بھی شرکت کی۔ وائس چانسلر کے ہمراہ ویمنس کالج کے روزے دار اساتذہ اور طالبات نے افطار کیا۔
معلوم ہو کہ ویمنس کالج میں بدھ کی شام منعقد افطار پارٹی میں وائس چانسلرسدھیر جین کے ساتھ پروفیسر وی کے شکلا، ڈاکٹر افضل حسین، پروفیسر نیلم، قائم مقام پرنسپل پروفیسر ریتا سنگھ، ڈین پروفیسر کے کے سنگھ، چیف پراکٹر پروفیسر بی سی کاپری، ڈاکٹر دیویہ کشواہا سمیت یونیورسٹی کے طالبعلموں نے شرکت کی۔
افطار کے اہتمام کی اطلاع ملنے پر بدھ کی رات کو ہی طالبعلموں نےاحتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایک طالبعلم نے بتایا کہ یونیورسٹی کیمپس میں اس طرح کی تقریب کی کوئی روایت نہیں رہی ہےاور وائس چانسلر ایسا کرکے ایک نئی روایت کو جنم دے رہے ہیں۔
نوبھارت ٹائمز کے مطابق، رات میں مظاہرہ کررہے ایک طالبعلم نے کہا، سابق وی سی جی سی ترپاٹھی نے اپنے دور میں نوراتری کے دوران پھلوں کے کھانے کی روایت شروع کی تھی۔ لیکن اسے ختم کر کے افطار کی نئی روایت شروع کی جا رہی ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔ اگر وائس چانسلر افطار کرنا چاہتے ہیں تو وہ اے ایم یو یا جامعہ جا سکتے ہیں، یہاں ان کی ضرورت نہیں ہے۔
یونیورسٹی کے شعبہ علم نجوم کے ایک طالبعلم اور اے بی وی پی کے ادھوکشج پانڈے نے کہا کہ اس احتجاجی مظاہرے کو ان کی تنظیم کی حمایت حاصل تھی۔
انہوں نے بتایا، اے بی وی پی اس احتجاجی مظاہرے کا حصہ تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ افطار میں شامل ہونا غلط تھا۔ کیا ہوگا کہ مستقبل میں اگر کوئی ہاسٹل میں نوراتری کا اہتمام کرنے لگے ، کیا وی سی اس میں شامل ہوں گے؟ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔
وہیں، یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کیمپس میں کئی سالوں سے افطار کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہمیشہ اس میں شرکت کرتے ہیں۔
جمعرات کی شام اس سلسلے میں جاری ایک بیان میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ہنگامہ آرائی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ، پنڈت مدن موہن مالویہ کےاقدار و نظریات کے مطابق قائم اس یونیورسٹی میں کسی بھی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ،روزہ افطار کا اہتمام ویمنس کالج میں کیا گیا تھا، جس میں وائس چانسلر کو مدعو کیا گیا تھا۔ کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں سے اس کا اہتمام نہیں ہو سکا تھا۔ اس سال تقریب میں وائس چانسلر سمیت مختلف لوگوں نے شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرہ پر انتظامیہ نے کہا کہ ،اس کو لے کریونیورسٹی کے تعلیمی اور ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش قابل مذمت ہے۔
وہیں، یونیورسٹی کے طالبعلموں کے ذریعے چلائے جانے والے فیس بک پیج ‘بی ایچ یو بز’ پر اس کے بعد گزشتہ چند سالوں کی افطار کی تصویریں شیئر کی گئیں۔
دریں اثنا یونیورسٹی کے ایک ملازم نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ احتجاج میں چند طالبعلموں نے حصہ لیا۔ انہوں نے کہایہ طالبعلم پبلسٹی کے مواقع تلاش کر رہے ہیں اور موقع پرست ہیں۔ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ وہ کچھ ڈپلومہ کورس کر رہے ہیں اور ان کا واحد مقصد یونیورسٹی کے پرامن ماحول کو خراب کرنا ہے۔
اس واقعے کے بعد جمعرات کو یونیورسٹی کیمپس کی دیواروں پر برہمن ذات اور کشمیر کے حوالے سے متنازعہ نعرے لکھے جانے پر طالبعلموں نے جم کر ہنگامہ کیا۔
یہ نعرے ‘بھگت سنگھ چھاترا مورچہ’ کے نام سے لکھے گئے تھے۔ طالبعلموں کے غصہ کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے متنازعہ نعرے مٹا دیے۔ موقع پر پہنچے چیف پراکٹر کاپڑی نے کہا کہ ، یہ یونیورسٹی کا ماحول خراب کرنے کے لیے لکھا گیا ہے،لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
نعروں کے نیچے لکھے گئے تنظیم کے بارے میں کاپڑی نے کہا، نعروں کے نیچے جس بھگت سنگھ طلبہ تنظیم کا نام لکھا گیا ہے، یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کے لوگوں کی شناخت کر لی ہے ۔ جلد از جلد تحقیقات کر کے کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب بھگت سنگھ چھاترا مورچہ نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، بھگت سنگھ چھاترا مورچہ (بی سی ایم) کا اس طرح کے نعروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں