ادبستان

گیتانجلی شری کے ناول ’ریت سمادھی‘ کے انگریزی ترجمے کو انٹرنیشنل بکر پرائز سے نوازا گیا

گیتانجلی شری کے ہندی ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو  یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔  اس کا ترجمہ ڈیزی راک ویل نے کیا ہے۔کسی بھی ہندوستانی زبان میں بکر حاصل  کرنے والا یہ پہلا ناول ہے۔

گیتانجلی شری ڈیزی راک ویل کے ہمراہ (فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@TheBookerPrizes)

گیتانجلی شری ڈیزی راک ویل کے ہمراہ (فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@TheBookerPrizes)

نئی دہلی: ہندی ادیبہ گیتانجلی شری کے ناول ‘ٹومب آف سینڈ’ (ریت سمادھی )کو انٹرنیشنل  بکر پرائز سے نوازا گیا ہے۔ اس باوقار ایوارڈ کو حاصل کرنے والا یہ ناول کسی بھی ہندوستانی زبان کا پہلا ناول ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ ایوارڈ  ہر سال انگریزی میں ترجمہ کی گئی  اور انگلینڈ/آئرلینڈ میں شائع کسی ایک بین الاقوامی زبان کی کتاب کو دیا جاتا ہے۔ اس  ایوارڈ کی شروعات 2005 میں ہوئی تھی۔

چونسٹھ سالہ گیتانجلی شری نے جمعرات کو لندن میں منعقد تقریب میں اپنی تھینک یو اسپیچ  کے دوران کہا کہ،  وہ اس لمحے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے کبھی اس پرائز کا خواب نہیں دیکھا تھااور کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ میں یہ کر سکتی ہوں۔ یہ بہت  بڑا انعام ہے۔

راج کمل پرکاشن سے چھپی ‘ریت سمادھی’ ہندی کی پہلی ایسی کتاب ہے جس نے نہ صرف انٹرنیشنل بکر پرائز کی لانگ لسٹ اور شارٹ لسٹ میں جگہ بنائی بلکہ جمعرات کی رات اس ایوارڈ کو اپنے نام بھی کرلیا۔

‘ٹومب آف سینڈ’ تیرہ لانگ لسٹ کیے گئے ناولوں میں سے ایک تھا، جن کا 11 زبانوں سےانگریزی میں  ترجمہ کیا گیا تھا۔

گیتانجلی شری  نے50000 برٹش پاؤنڈ کی انعامی رقم  ڈیزی راک ویل کے ساتھ شیئر کی۔ راک ویل نے گیتانجلی شری کے ناول کا انگریزی ترجمہ کیا ہے، جس کا اصل عنوان ‘ریت سمادھی’ ہے۔

جس وقت گیتانجلی شری کو اس  ایوارڈ سے نوازا گیا، اس وقت ڈیزی راک ویل بھی ان کے ہمراہ اسٹیج پر تھیں۔ وہ ایک مصور ہیں، اور اب ایک رائٹر اور مترجم کے طور پر ان کی پہچان  بکر پرائز سے وابستہ ہوچکی  ہے۔

اس دوران ڈیزی راک ویل نے  ہندی زبان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔

راک ویل امریکہ میں رہتی ہیں، انہوں نے ہندی اور اردو کے کئی  ادبی شہ پاروں  کا ترجمہ کیا ہے۔

‘ریت سمادھی’ شمالی ہندوستان کے پس منظر میں ایک 80 سالہ بزرگ خاتون  کی کہانی بیان کرتی ہے۔ بکر پرائز جیوری نے اس کو ایک ‘بہترین ناول’ قرار دیا۔

گیتانجلی شری نے اپنے خطاب میں کہا، ‘میں نے کبھی بکر پرائز جیتنے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ میں یہ کر سکتی ہوں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا، ریت سمادھی / ٹومب آف سینڈ اس دنیا کا ایک نوحہ، جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قوت ہے، جو خدشات کے درمیان امید کی کرن جگاتی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ،اس ایوارڈ کی وجہ سے اب یہ کتاب زیادہ لوگوں تک پہنچے گی۔

اتر پردیش کے مین پوری سے تعلق رکھنے والی گیتانجلی شری تین ناول اور کئی افسانوی مجموعے لکھ چکی ہیں۔ان کی تخلیقات کا انگریزی، فرانسیسی، جرمن، سربیا اور کورین زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ہندی میں ان کی دیگر تخلیقات میں ‘مائی’، ‘ہمارا شہر اس برس’ اور ‘تروہت’ قابل ذکر ہیں۔

واضح ہو کہ ‘ٹومب آف سینڈ’ انٹرنیشنل بکر پرائز جیتنے والا پہلا ہندی ناول ہے۔ اس سلسلے میں  گیتانجلی شری نے کہا کہ ہندی زبان کے کسی  ناول کے لیے  پہلا بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے کے بعد  انہیں بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔

گیتانجلی شری نے کہا، میرے لیےیہ بالکل غیر متوقع ہے، لیکن اچھا ہے۔ میں نے کبھی بکر کا خواب نہیں دیکھا تھااور نہ ہی سوچا تھاکہ میں یہ ایوارڈ جیت سکتی  ہوں۔میں اس کو پاکر حیران ہوں۔

انہوں نے کہا کہ، میں ریت سمادھی کو منتخب کرنے کے لیے بکر فاؤنڈیشن اور بکر جیوری کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ، جب سے یہ کتاب بکر کی لانگ لسٹ میں آئی تب سے ہندی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ مجھےاچھا لگا کہ میں اس کا ذریعہ  بنی، لیکن اس کےساتھ ہی میں اس بات پر بھی زور دینا چاہتی ہوں کہ میرے اور اس کتاب کے پیچھے ہندی اور دیگر جنوب ایشیائی زبانوں کی ثروت مند ادبی روایت ہے۔ ان زبانوں کے بہترین ادیبوں سے آشنائی حاصل کر کے عالمی ادب مالا مال ہوگا۔


اس ناول کا ایک اقتباس اور تبصرہ یہاں اور یہاں ملاحظہ  کیا جا سکتا ہے


بکر فاؤنڈیشن نے کہا کہ، ‘ٹومب آف سینڈ’ بکر پرائز جیتنے والی کسی بھی ہندوستانی زبان میں لکھی گئی پہلی کتاب ہے، اور ہندی سے ترجمہ کیا گیا پہلا ناول۔ ‘ٹومب آف سینڈ’ شمالی ہندوستان کی کہانی ہے جو ایک 80 سالہ بزرگ خاتون کی زندگی پر مبنی ہے اوریہ کتاب طبع زاد  ہونے کے ساتھ ساتھ  مذہب، ممالک اور جنسی حدود کے تباہ کن اثرات پر بلیغ تبصرہ  بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، جیوری ممبران اس بات سے زیادہ متاثر ہوئے کہ ایک سانحہ کو ایسےلہجے میں پیش کیا گیا ہے، جس میں جدت ہےاور سب کچھ نیا ہے۔

جیوری پینل نے کہا کہ، راک ویل کے ترجمے میں قاری کو باندھےرکھنے کی  قوت  ہے ، اور وہ اس کی متانت اور شوخی سےبے حد  متاثر ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تقسیم کے موضوع پر لکھا گیا یہ انتہائی  منفرد ناول ہے۔

انہوں نے کہا کہ، اس ناول میں سب کچھ ہے۔ عورت ہے، عورت کا تشخص ہے، مرد ہے، تیسری جنس ہے، محبت ہے، تعلق  ہے، وقت ہے، وقت کو باندھنے والی چھڑی ہے، غیر منقسم ہندوستان ہے، تقسیم کے بعد کی تصویر ہے، زندگی کا آخری مرحلہ ہے،اس  مرحلےمیں تردد ہے اور خواہشات کا  وفور ہے، نفسیات ہے، سرحد ہے، کوّے ہیں، مزاح ہے، بہت طویل جملے ہیں، بہت چھوٹے جملے ہیں، زندگی ہے، موت ہےاور انتہائی گہراڈسکورس ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ‘ریت  سمادھی’ کو راج کمل پرکاشن نے سال 2018 میں شائع کیا تھا،  جس کا انگریزی ترجمہ 2021 میں برٹن میں ٹلٹیڈ ایکسس پریس نے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد اسے پینگوئن رینڈم ہاؤس نے بھی شائع کیا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)