نوکریوں کے سلسلے میں نوجوانوں کا کوئی بھی مظاہرہ صرف ان کی اپنی نوکریوں کے لیے ہے۔ اس لیے نوکری اور نوجوانوں کا مبینہ غصہ سیاسی ایشو ہوتے ہوئے بھی ووٹ کا ایشو نہیں۔ جس لڑائی کو آپ لڑنے چلے ہیں، اس کو آپ بہت پہلے روند چکے ہیں۔ آپ نےدوسروں کی ایسی بہت سی لڑائیاں ختم کی، میدان تک ختم کر دیے۔ اب جب کہ میدان دلدل میں بدل گیا ہے، تب اس میں لڑائی کے لیے اتر ے ہیں۔ آپ پھنستے چلے جائیں گے۔
میرے پیارے مشتعل نوجوانوں،
میڈیا تو ابھی سے آپ کو اگنی ویر کہنے لگا۔ جس پالیسی کے خلاف آپ سڑکوں پر نکلے ہیں، اسی پالیسی کے نام سے آپ کی پہچان ہونے لگی ہے۔ آپ تو ابھی سے اگنی ویرہو گئے جبکہ آپ چار سال کے لیے اگنی ویر نہیں ہونا چاہتے ہیں۔
آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم اگنی ویر نام کی ٹی شرٹ نہیں پہنیں گے، میڈیا نے آپ کو اگنی ویر نام کی ٹی شرٹ پہنادی۔ مبارک ہو، آپ ابھی سے اگنی ویر بنا دیے گئے ہیں۔
آپ عوام کی حمایت بھی کھو چکے ہیں۔ سماج کے جن طبقوں کے ساتھ مل کر آپ نے پچھلے آٹھ سالوں میں فرقہ واریت پھیلائی ہے، دوسروں میں اور خودمیں بھی، اس کی وجہ سے آپ کی تحریک کو لے کر کوئی گمبھیر نہیں ہے۔ سب کو لگتا ہے کہ ابھی دو چار اینٹی مسلم ڈبیٹ آئے گا، آپ کے اندر خوشی کی لہریں دوڑنے لگیں گی۔
یقین نہ آئے تو آپ اپنے ان رشتہ داروں اور ریٹائرڈانکلوں کے وہاٹس ایپ گروپ جاکر دیکھ لیں کہ کس طرح سب حکومت کی حمایت میں ہیں۔ جس طرح آپ مذہب کی بنیاد پر پالیسی اور سیاست کے ہر فیصلے کی حمایت کرتے رہے ہیں، اسی طرح ریٹائرڈ انکل اور رشتہ دار کیوں نہیں کر سکتے، بلکہ کر رہے ہیں۔
آپ عوام نہیں رہے۔ آپ کے اندر ایک مذہب سے نفرت اور ایک مذہب پر فخر کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے سیاست کا کیڑا اتنا گھس گیاہے۔ روزگار تو پہلے بھی نہیں ملا، لیکن مذہب کی سیاست نے آپ کو کتنی ذہنی راحت دی۔ وہ راحت کوئی نوکری نہیں دے سکتی۔ وہ سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ وہ تو ابھی اور بڑھے گی۔ توفکر نہ کریں، آپ کی ذہنی راحت کی سپلائی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
آپ میں سے کسی کو یہ کہتے سنا کہ اپوزیشن آپ کا معاملہ نہیں اٹھا رہی۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں پہلے دن سے بول رہی ہیں۔ دراصل آپ نے اپوزیشن کو کمزور کیا۔ میڈیا نے اپوزیشن کو کوریج سے باہر کردیا، آپ نے اس میڈیا کااستقبال کیا۔
جمہوریت کے اس بنیادی ادارے کو تباہ کرنے میں آپ کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس لیے آپ کا غصہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے آپ کی ایمانداری پر بھروسہ نہیں ہے۔ اب آپ پارٹ ٹائم کے لیے اپوزیشن بنے ہیں تو اپوزیشن کو کوس رہے ہیں۔
آپ غصے میں بی جے پی کے دفاتر پر حملہ کر رہے ہیں۔ اس سے کیا مل جائے گا؟ غصہ ہمیشہ بے مطلب ہوتا ہے۔ کیسے؟
آپ نے اس وقت احتجاج کیا جب دوسری سرکاری نوکریاں ختم کی جا رہی تھیں؟ تب اسے پالیسی اور سیاست کا سنگین سوال بنایا؟ ایسے کئی مواقع آئے لیکن آپ ‘اینٹی مسلم آنند رس’ میں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اگر تبھی دو چار پوسٹ ہی لکھتے، دو چار لوگوں کے بیچ ہی بولتے تو یہ بات پھیلتی کہ نوجوان نوکریوں کے لیے فکرمند ہیں۔آپ نے وہ بھی نہیں کیا۔
آپ کہیں گے کہ آپ تو تیاری میں تھے، سیاست کے لیے وقت نہیں تھا۔ اینٹی مسلم ڈبیٹ کے لیے ٹائم تھا، مگر پالیسیوں پر رائے دینے کے لیے نہیں تھا؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ بے تحاشہ بے روزگاری کے باوجود نوجوانوں نے ہمیشہ بی جے پی کو موقع دیا؟ اس پارٹی کو آپ دل و جان سے چاہتے ہیں، اس میں کچھ غلط نہیں۔ لیکن آپ پالیسیوں کے حوالے سے اس سے سنجیدہ بات چیت نہیں کر سکتے، یہ آپ کی غلطی ہے، بی جے پی کی نہیں۔ اس لیے آپ کو بی جے پی کے دفاتر پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ بی جے پی مخالف ہو گئے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ ایک نوجوان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر ہم حکومت بنا سکتے ہیں تو گرا بھی سکتے ہیں۔ اب یہ دور چلا گیا اور اب وہ عوام بھی نہیں رہی۔ آپ ہی عوام نہیں رہے۔
اگر یقین نہ ہو تو آپ میرے پرائم ٹائم کا وہ حصہ دیکھیے گا، جب وزیر اعظم ہماچل میں روڈ شو کر رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ پھول برسائے جا رہے ہیں۔ ان کے چہرے کی چمک بتا رہی ہے کہ انہیں ووٹ کی کوئی فکر نہیں ہے۔
کسانوں کی تحریک کے دوران بھی زبردست مظاہرہ ہوا، لیکن وزیر اعظم نے کبھی ووٹ کی پرواہ نہیں کی۔ وہ درست ثابت ہوئے۔ احتجاج کے بعد ہوئے یوپی انتخابات میں بی جے پی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ کیا تب بھی فوج میں بھرتی بند کا ایشو نہیں تھا؟ تھا ہی اور تب بھی آپ نے ووٹ دیا۔
جب آپ بھرتی بند ہونے پر آپ بی جے پی کو ووٹ دے سکتے ہیں تو آپ چار سال کی نوکری پر کیوں نہیں دیں گے؟ بالکل دیں گے۔ اب سب آپ کو جان گئے ہیں۔
تو جو بھی ان مظاہروں کو لے کر وقت ضائع کر رہا ہے کہ یہ نوجوان بی جے پی سے ناراض ہیں اور اب بی جے پی ہار جائے گی، وہ بہت ہی بھولا ہے۔ نوجوانوں کی مخالفت پالیسی سے ہے۔ مذہب کی سیاست سے نہیں۔
آپ چار سال بعد فوج سے نکال دیے جائیں گے لیکن دھرم سے تو مرنے کے بعد بھی نہیں نکالے جائیں گے۔ یہ جوان فوجی تو بعد میں بنیں گےمگر دھرم کی حفاظت کے فوجی پہلے بن چکے ہیں اور وہ وفاداری نہیں بدل سکتے۔ اپوزیشن اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے اور اس گرمی میں وقت ضائع نہ کرے۔
اگر مودی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک آدمی کو بھی روزگار نہیں دیں گے اور الیکشن میں چلے جائیں تو وہ جیت جائیں گے۔ 2019 میں روزگار کا مسئلہ کتنا بڑا تھا، مودی نے پکوڑے تلنے کی بات کہہ دی، اپوزیشن کو بھروسہ ہوگیا کہ نوجوان اسے اپنی توہین کے طور پر لے گا لیکن مودی درست ثابت ہوئے۔ نوجوانوں نے جم کر انہیں ووٹ دیا۔
نوجوان ہمیشہ مودی سے ہاریں گے۔ کیونکہ وہ اپنا دل ہار چکے ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔ دل کے سودے نوکری جیسی معمولی چیزوں کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ اب یہ رشتہ تو ہے۔ تبھی تو جب تشدد ہو رہا تھا، راجناتھ سنگھ ایک خاص قسم کی گاڑی چلا رہے تھے۔ یہ اشارہ ہے کہ حکومت جانتی تھی کہ احتجاج ہوگا، لیکن کوئی بات نہیں۔ نوجوانوں کا ووٹ تھا اور ووٹ رہے گا۔
اگنی پتھ اسکیم واپس نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس کی لانچ میں فوج کے تینوں ونگز کے سربراہ آئے تھے۔ وزیر دفاع تو تھے ہی۔ اسے واپس لینے کا مطلب تینوں افواج کے سربراہان کی بات کو داؤ پر لگا دینا ۔ ان کی بات خالی جائے گی، یہ فوج اور سربراہوں کے وقار کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ مودی نے آرمی چیفس کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے تو کہتے رہیے۔ اس بات کو دو بار پڑھ لیں گے تو مظاہرہ نہ کرنےمیں آسان ہو گی۔
آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ تشدد نہ کریں۔ حالانکہ آپ مسلمان نہیں ہیں، اس لیے مجھے کسی نےآپ کے تشدد کے لیے گالی نہیں دی، مجھے امن کی اپیل کے لیے چیلنج نہیں کیا۔
گزشتہ جمعہ کو جب کچھ جگہوں پر پتھرچلے تو لوگ مجھے گالی دینے لگے کہ ‘یہ لوگ-وہ لوگ’ پتھر چلا رہے ہیں، آپ خاموش ہیں۔ بہت سے صحافی دباؤ میں پتھر چلانے والوں کو فسادی لکھنے لگے۔ ویسے پولیس پر پتھر چلانے والا فسادی ہی ہے لیکن یہی توبات ہے، پتھر آپ بھی چلا رہے ہیں لیکن کوئی فسادی نہیں بولتا، کسی نےآپ کو پتھرباز نہیں کہا۔
وہ شرپسند کہےگئے اور آپ ابھی تک ‘آندولن کاری’ کہے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ سے میری مرادکسی جاوید وغیرہ ٹائپ کے لوگ جن کے گھر گرا دینے سے آپ کی رگوں میں خوشی کی لہر دوڑی تھی۔ پھر بھی میں نے اپنی طرف سے تشدد نہ کرنے کی اپیل کی ہے اور آپ کے تشدد کو بھی غلط بتایا ہے۔
آپ کی قسمت اچھی ہے کہ پتھرچلانے پر آپ اپنے سمجھے جار ہے ہیں۔ یوگی جی نے ویسی کارروائی کی وارننگ نہیں دی ہے جیسی ‘ان لوگوں’ کے لیے دی تھی۔ بلڈوزر نہیں چل رہا ہے جبکہ آپ لوگوں نے یوپی روڈ ویز کی بسیں توڑ دی ہیں۔ آرا اسٹیشن کو مسمار کر دیا ہے۔
اتنا لمبا خط پڑھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہو گی۔ پھر بھی لمبا لکھا تاکہ آپ پڑھیں اور سمجھیں۔ آپ اپنے اندر کی فرقہ واریت سے ہی لڑ کر دکھا دیجیے، مان جاؤں گا۔
آپ لڑنے لائق نہیں بچے ہیں۔ فرقہ وارانہ سوچ نے آپ کے اندر کی شہری زبان کو ختم کر دیا ہے۔ تبھی تو آپ تشدد کی راہ پر آگئے۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ صرف بلڈوزر کی چھوٹ مل جائے گی بس۔ وہ بھی اس لیے کہ آپ تواپنے ہیں۔ جب تک آپ کے اندر فرقہ پرستی ہے، حکومت یا بی جے پی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ احتجاج فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کا ہے، تمام نوجوانوں کا نہیں۔ باقیوں کو دس لاکھ کی بھرتی کا لالی پاپ دے دیا گیا ہے۔ وہ اب اپنا دیکھنے کی تیاری میں لگے ہیں۔ اسی طرح نوجوان الگ الگ نوکریوں میں بٹا ہوا ہے۔
میں نے نوکری سیریز کے تناظرمیں کئی بار اسے بولا ہے۔ نوکری کے سلسلے میں نوجوانوں کا کوئی بھی مظاہرہ صرف ان کی اپنی نوکری کے لیے ہے۔ اس لیے نوکری اور نوجوانوں کا مبینہ غصہ سیاسی مسئلہ ہوتے ہوئے بھی ووٹ کا مسئلہ نہیں ہے۔
ابھی بھی نوجوان اپنی اپنی نوکریوں کے سلسلے میں ہی مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ماحول بن گیا ہے تو اسی میں ان کے امتحان کا معاملہ اٹھا دوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے امتحان کے لیے بڑی سے بڑی تحریک ہونے کے بعد بھی روزگار پر کوئی جامع بحث نہیں ہوئی۔
اس خط کا مطلب ہے کہ جس لڑائی کو آپ لڑنے چلے ہیں، اس لڑائی کو آپ بہت پہلے روند چکے ہیں۔ آپ نے دوسروں کی ایسی بہت سی لڑائیاں ختم کی، میدان بھی ختم کر دیے، اب جب میدان دلدل میں بدل گیا ہے، تو اس میں آپ لڑائی کے لیے اترے ہیں۔ آپ پھنستے چلے جائیں گے۔
میری بات بری لگی ہو تو بری لگنی ہی چاہیے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اس ملک کے فرقہ پرست نوجوانوں سے گالی مل جائے،مگر تالی نہیں چاہیے۔ایسا کہنے والا پورے ملک میں اکیلا بندہ ہوں۔
جئے ہند
رویش کمار
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر