انٹرویو: چار سال پرانےایک ٹوئٹ کے لیے دہلی پولیس کے ذریعے حراست میں لیے جانے کے بعد آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نےتقریباً تین ہفتے جیل میں گزارے۔ اس دوران یوپی پولیس نے ان کے خلاف کئی مقدمات درج کیے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے انہیں یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی کہ ان کی مسلسل حراست کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان کے ساتھ علی شان جعفری کی بات چیت۔
نئی دہلی: 39 سالہ فیکٹ چیک چیکر محمد زبیر اب کسی بھی طور پرغیر معروف نام نہیں ہیں۔ ان کے چار سال پرانے ایک ٹوئٹ پران کی گرفتاری، یوپی پولیس کی طرف سے ان کے خلاف دائر مقدمات اور سپریم کورٹ سے ملی ضمانت کے بعد زبیر قومی اور بین الاقوامی سرخیوں میں بنے رہے۔ان کی ضمانت کے بعد ان سے بات چیت کے کچھ حصے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
آزادی مبارک ہو۔ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
میں واپس آکر خوش ہوں۔ اپنےدوستوں اور خیر خواہوں کی بے پناہ حمایت کے لیےان کاشکرگزارہوں۔یہ جان کر بھی مسرت ہوئی کہ میری گرفتاری کو بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی اور آزادی پر حملہ تصور کیا۔میرے گھر والے خوفزدہ تھے، لیکن پرتیک اور ان کی والدہ ساتھ کھڑے تھے اور انہیں روزانہ فون کرتے تھے۔ وہ مسلسل ان کے ساتھ کیس سے متعلق اپڈیٹ شیئر کرتے تھے اور چوبیس گھنٹےیوپی–دہلی میں پانچ مختلف مقامات پر مقامی وکلاء کا بندوبست کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
آلٹ نیوز میں اپنے کام کومنظم طریقے سےجاری رکھنے کے علاوہ انہوں نے کیس کی تیاری میں وکلاء کی مدد بھی کی۔ پرتیک کو بھی نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ پرسکون رہے۔ دھمکیوں کے باوجود ہمارے ڈونرس نے ساتھ نہیں چھوڑا۔ درحقیقت پچھلے دو مہینوں میں ہمیں بغیر کسی اپیل کے زیادہ مالی امداد ملی ہے۔
اس پیش رفت کا سب سے دردناک حصہ کیا تھا؟
میرے والدین، بیوی اور بچے خوفزدہ تھے۔ میرا بیٹا فخر سے سب کو بتاتا ہے کہ میں اس کا باپ ہوں۔ کئی دنوں تک اسے اسکول نہیں بھیج سکے۔ اور اس سے کہنا پڑا کہ کسی کو نہ بتائے کہ میں اس کا باپ ہوں۔ میرے خیال میں یہ بہت افسوسناک تھا۔
آپ کے ماضی کے بارے میں آن لائن بہت ساری قیاس آرائیاں ہیں، تو شروع سے شروع کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنے بچپن کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
میں بنگلورو سے تقریباً 70 کیلومیٹر دور تمل ناڈو کے تھلی نامی ایک دور افتادہ گاؤں سے ہوں۔ میرے والد ایک کسان تھے اور ان کا ہوسر میں پھلوں اور سبزیوں کا ایک چھوٹا سا کاروبار تھا۔ جب میں نے پہلی جماعت میں کامیابی حاصل کی تو میری والدہ نے مجھے اور میری چھوٹی بہن کو ہوسر کے ایک اچھے اسکول میں بھیجنے پر اصرار کیا۔
تو بنگلورو کیسے اور کب آئے؟
تین سال تک میں اور میری بہن اپنی ابتدائی تعلیم کے لیے روزانہ سرکاری بس سے ہوسر تک 60 کیلومیٹر کا سفرکرتے تھے۔ پھر، میری ماں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بنگلورو شفٹ ہونا چاہیے۔ میرے والد کے خاندان کی طرف سے انہیں کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس وقت شہر منتقل ہونے کا فیصلہ اتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر وہ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اگر ہم بنگلورو نہ جاتے تو آج شاید زندگی بالکل مختلف ہوتی۔
اپنی اسکول لائف کے بارے میں بتائیے۔
بڑے شہر میں آنے اور مشنری اسکول میں داخلہ ہونے کے باوجود مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شروع میں تو میں پڑھائی میں بہت خراب تھا۔ مجھے کرکٹ پسند تھا اور میں دن بھر اپنے نئے دوستوں کے ساتھ موج مستی میں لگا رہتا تھا۔ ایک دو مضامین کے علاوہ میں باقی مضامین میں یا تو فیل ہوتا تھا یا پاسنگ مارکس حاصل کرتا تھا۔ میں چھٹی جماعت میں فیل ہوا اور اچانک میری بہن اور میں ایک ہی کلاس میں آگئے۔ میری بہن ہمیشہ میرے لاپرواہ رویے پر نظر رکھتی تھی۔ اگر میں اس وقت کسی لڑکی سے بات کرتا تھاتو وہ یا تو اسے ڈرا کر بھگا دیتی تھیں، یا مجھے شرمندہ کر دیتی تھیں اور والد سے شکایت کردیتی تھیں۔ پھر بھی چھپ چھپا کر بات ہوجاتی تھی ادھر–ادھر۔
پھر زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ کیا تھا؟ آپ کو پڑھائی میں اچانک دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟
پاپا پڑھائی میں میری لاپرواہی سے بہت پریشان تھے اور پھر ایک دن، جیسا کہ عام طور پر عام متوسط طبقے کے گھروں میں ہوتا ہے، ہمارے درمیان بڑے ہوتے بیٹے اور باپ والی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے مجھ سےکہا کہ کیسے انہوں نے ہمارے مستقبل کے لیے کیا کچھ کیا ہے اور اگر میں ناکام ہوا تو سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ وہ مجھ سے اتنا ناراض تھے کہ انہوں نے کہا تھا کہ میں دسویں جماعت بھی پاس نہیں کر سکوں گا – یہی بات میری دسویں جماعت کے استاد بھی کہتے تھے۔ مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی اور میں نے محنت کرنے کے بارے میں سوچا کیونکہ تعلیم حاصل کرنا ہی ہمارے خاندان کی واحد امید تھی۔ میں نے بھی طے کرلیا اور ٹھیک ٹھاک نمبروں کے ساتھ اسکولی تعلیم مکمل کی۔ پھر میں نے ایم ایس رمیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں داخلہ لیا جو کہ ایک اچھا انجینئرنگ کالج تھا۔
(ہنستے ہوئے) اچانک اس تبدیلی کے بعد پاپا میرے چھوٹے بھائی بہنوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر زبیر جیسا کوئی یہ سب کر سکتا ہے تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ میں اچانک ہی اس خاندان کا رول ماڈل بن گیا جس نے خاندان میں سب سے پہلےکوئی پروفیشنل ڈگری حاصل کی تھی۔ مجھ سے پہلے، نہ ماں، نہ پاپا کسی کی طرف کے خاندان میں کسی نے بھی اس سطح پر کوئی رسمی تعلیم مکمل نہیں کی تھی۔ یہ تب بہت بڑی بات تھی۔ اس کے بعد میرے دو بہن بھائی ڈاکٹر اور دو انجینئر بنے۔
انجینئرنگ کرنے کی کیا وجہ تھی؟
اس وقت میں صرف یہ سوچتا تھا کہ زندگی کو بہتر کیسے بنایا جائے۔ اس کے لیےیا تو ڈاکٹر بننا ہوتا تھا یا انجینئر۔ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میں ڈاکٹر نہیں بن سکتا تھا- پہلی بات کیوں کہ میں حیاتیات میں اچھا نہیں تھا اور دوسرا- مجھے جلد از جلد کمانا شروع کرنا تھا کیونکہ ہمارے مستقبل کے لیے خاندان نے تقریباً سب کچھ فروخت کر دیا تھا۔ ہمارے پاس زیادہ کچھ نہیں تھا اور گھر کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے میری ذمہ داری تھی کہ میں خاندان کی کفالت کروں۔
تو بنگلور وکا ایک انجینئر، جسے شاید ایک دہائی پہلے تک سیاست میں کوئی دلچسپی تک نہیں تھی، اس پیشے میں کیسے آ گیا؟
میں حالات کا بنایا ہوا انسان ہوں۔ میں 2012 کے آس پاس سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوا تھا۔ میں ایسے بہت سے پیج کو فالو کرتا تھا جو غیر سیاسی مواد پوسٹ کرتے تھے۔ میری اپنی ٹائم لائن پر صرف کرکٹ چھایا رہتا تھا۔ لیکن 2012-13 کے درمیان کچھ بدل گیا۔ اچانک تمام پیج اس وقت کی کانگریس حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے سیاسی پوسٹ کرنے لگے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگلے دو سالوں میں فوکس حکومت کی ناکامی سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو گیا، اور بہت سے قریبی دوست آن لائن مسلم مخالف باتیں پوسٹ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر میرا دم گھٹ رہا تھا۔ اکیلا پن محسوس ہوتا تھا،اس بات کو لے کرمیں ٹھگا ہوا سا محسوس کرتا تھا کہ میں جن لوگوں کے ساتھ میں اتنے لمبے عرصےسے تھا انہوں نے مجھے الگ کر دیا۔ اس وقت میرے غیر سیاسی کرکٹ والےپوسٹ میری سمجھ اور دنیا سے باہر کی بات لگنے لگے تھے۔ مجھے اپنے مقامی ایم ایل اے یا چیف منسٹر تک کا نانہیں معلوم تھا۔ میں سیاست کے بارے میں ایسا ہی تھا، لیکن کچھ سالوں میں میری دلچسپی بڑھتی ہی گئی ۔
پرتیک سے آپ کی ملاقات کیسے ہوئی؟
میں نے ان کے فیس بک پیج سے ایک پوسٹ شیئر کی تھی۔ انہوں نے مجھے میسیج کیاکہ میں نے اس کا مناسب کریڈٹ نہیں دیا ہے۔ میں نے اسے درست کیا اور دوبارہ پوسٹ کیا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ اونا کے واقعے کے وقت، ہم نے اس کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے اپنے پیج کا استعمال کیا تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مین اسٹریم میڈیا نے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ اسی بات سے ہمیں احساس ہوا کہ ہمیں اپنی ویب سائٹ شروع کرنی چاہیے۔ ابتدائی طور پر، ہم صرف ایک ایسی ویب سائٹ لانا چاہتے تھے جو مرکزی دھارے میں چلنے والے بیانیے کے برعکس اپنے نقطہ نظر کو پیش کرے، لیکن پھر پرتیک نے فیکٹ چیک ویب سائٹ کے بارے میں سوچا اور اس طرح آلٹ نیوزکی شروعات ہوئی ۔ 2018 تک اس سےمیری وابستگی کل وقتی نہیں تھی۔ شروع میں میرے لیے اپنے گھر والوں کو اس کے لیے قائل کرنا مشکل تھا۔
آپ کے مطابق، بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور عدم برداشت نے آپ کو وہ کرنے کی ترغیب دی جو آپ آج کر رہے ہیں۔ کیسے؟
جب میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا تو میں جمعہ کو کرتا پہن کر دفتر جایا کرتا تھا۔ ایسے ہی کسی جمعہ کو میرے منیجر نے مجھے بلایا۔ وہ ناراض تھے کہ میں نے اس دن کرتا نہیں پہنا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘آج تو جمعہ ہے، تم نے کرتا کیوں نہیں پہنا؟ اس میں تم بہت اچھے لگتےہو۔’پھر اچانک انہی تمام دوستوں کوکسی سیاسی گفتگو کے دوران بدلتے ہوئے، غصے میں بھرے ہوئےدیکھنا میرے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ نہ میرے پاس اس وقت کوئی معلومات تھی اور نہ ہمت کہ میں انہیں کاؤنٹر کرسکوں۔ ہم تین چار مسلمان کنارےکر دیے گئے تھے اور ہمارے پاس وہاٹس ایپ پر آرہے پروپیگنڈہ کا کوئی جواب نہیں تھا۔
پھر میں نے اس کے بارے میں پڑھنا اور تحقیق کرنا شروع کیا۔ اپنے کام کے دوران مجھے سمجھ میں آیا کہ پروپیگنڈہ کے خلاف حقائق کو پیش کرنا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری ہےانہیں ایک بڑی آبادی کے درمیان پہنچانا۔ میرا فیس بک پیج – ان آفیشیل سوسو سوامی – ان بیوقوفیوں کو لے کر میرے فریسٹریشن کو نکالنے کا ایک ذریعہ بن گیا۔ ایک موقع پرمجھے اپنی ملازمت کے حصے کے طور پر مختلف ممالک کے سفر میں اتنا مزہ نہیں آتا تھا ، جتنا اس فیس بک پیج کے سٹائر(طنز) میں آتا تھا۔
اور اسی سٹائر نے آپ کو گزشتہ دنوں مشکلوں میں ڈال دیا!
دیکھیے،یہ بات توبالکل واضح ہے کہ مجھے میرے کسی پرانے ٹوئٹ یافیس بک کے پیروڈی پیج کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ہر پرانی پوسٹ کسی نہ کسی لیڈر کے گھٹیا بیان کے جواب میں کی جانے والی تنقید تھی۔
پھر آپ کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
جیسے ہی بی جے پی کے ترجمانوں کے بیانات پر مشتمل میرے ٹوئٹ وائرل ہوئے اوران کو لے کر سفارتی تنقید کا دور شروع ہوا، مجھے معلوم تھا کہ اب وہ میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔
ایک سینئر صحافی نے اپنے ایک کالم میں کہا ہے کہ آپ نے بی جے پی لیڈر نوپور شرما کی اظہار رائے کی آزادی کے حق کو برقرار نہیں رکھا۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟
میں ان کی بات سے متفق نہیں ہوں۔ میرے ہی ٹوئٹ کے نیچے سینکڑوں لوگوں نے میرے پیغمبر، میرے مذہب کو بدترین طریقے سے گالی دی۔ میں نے ان سب کو جواب نہیں دیا۔ لیکن حکمراں جماعت کے رہنما جو اس طرح کے گھٹیا پن کو ایک عام سی بات میں تبدیل کر رہے ہیں، ان پر بات ہونی چاہیے۔ یہ بحث نہیں ہے، جہاں آپ لوگوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، گالیاں دینے کے لیے بلا رہے ہیں۔
میں نے تو ان مولانا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیز تقریر(ہیٹ اسپیچ) کر رہے تھے۔ معیشت کی بات ہو یا فضائی آلودگی کی ، انہی ‘محترم مذہبی رہنماؤں’ کومدعو کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی متنازعہ بات کہیں اور پروپیگنڈہ کے لیے خام مال تیار ہو!ظاہر ہے گودی میڈیا کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ درحقیقت انتخابات سے قبل خوف و دہشت پھیلانے کے لیے ان کے ویڈیو وائرل کروائے جاتے ہیں۔ یہ چت بھی میری پٹ بھی میری والی حالت ہے۔ یہ مباحثے کسی مذہبی تنقید یا لبرل اقدار کو پھیلانے کے لیے منعقد نہیں کیے جاتے۔
میڈیا کا ایک حصہ آپ کی گرفتاری پر خوش تھا۔ اس نفرت کی وجہ کیا ہے؟
ان کے پاس مجھ سے نفرت کرنے کی ہر ممکن وجہ ہے۔ مین اسٹریم میڈیا نفرت کو ہوا دیتا ہے اور اس طرح کے ‘انصاف’ کا جشن مناتا ہے۔ انہوں نے آئی ٹی سیل کے رول کوآگ لگانے والوں میں محدود کر دیا ہے۔ پہلے جب بھی کسی فرضی خبر کی تنقید کی جاتی تھی تو وہ معافی مانگ لیتے تھے، لیکن اب وہ پوری بے شرمی اور کسی احتساب یا سزا کے خوف کے بغیر ایسا کرتے ہیں۔ میرا کام ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ وہ معاشرے کو تقسیم کرنے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے عوامی سطح پر جوابدہ ہونے سے ڈرتے ہیں۔
کام کے حصے کے طور پر آپ نے نفرت اور تشدد کے سینکڑوں ویڈیوز دیکھے ہیں، کیا کوئی ایسی ویڈیو ہے جس نے آپ کو سب سے زیادہ پریشان کیا ہو؟
ہری دوار کی ‘دھرم سنسد’ میں تشدد کی اپیل اور سیتا پور میں پولیس کی موجودگی میں ریپ کی کھلی دھمکیوں نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا۔
گزشتہ دنوں جیل میں قیام کے دوران آپ کے کانوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک ‘سازشی تھیوری‘ چل رہی تھی۔ کیا آپ واقعی اپنے کان چھپا رہے تھے؟
پولیس نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر مجھے اپنا چہرہ چھپانے کو کہا تھا۔ (ہنستے ہوئے) یہ میرے لیے پہلی بار تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ٹی وی پر پولیس کے ذریعے یہاں– وہاں لے جانے کے ویڈیو کا استعمال مجھے ایک خونخوار مجرم یا دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کے لیے کیا جائے گا۔
تاہم، جب مجھے لگا کہ یہ سکیورٹی وجوہات سے نہیں بلکہ میری شبیہ کو خراب کرنے کے لیے ہو رہا ہے تو میں نے اپنا چہرہ نہیں چھپایا ۔ اگر آپ بعد کے ویڈیو دیکھیں گے تو میں نے کہیں ماسک نہیں پہنا ہے اور نہ ہی اپنا چہرہ چھپایا ہے۔ بعض جگہوں پر تو میں نے میڈیا کو دیکھ کرہاتھ بھی بلند کیا تھا۔
آپ کی پچھلی زندگی کے بارے میں ایک اور سازشی تھیوری یہ بھی تھی کہ شاید آپ اجمل قصاب ہیں جو ہندوستانی قانونی ایجنسیوں کو چکمہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب رہے…
میں بس ایک عام شہری ہوں جو اپنے خاندان کو بہتر مستقبل دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ان لوگوں سے کسی ڈھنگ کی بات کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی! یوں تو یہ ہنسی کی بات ہے، لیکن کسی کے خلاف اس قدر زوردار پروپیگنڈہ مہم کسی بھی منطقی سوچ رکھنے والے انسان کو غدار بنا کر پیش کر سکتی ہے۔ اور اگر آپ مسلمان ہیں تو ایسا کرنا اور بھی آسان ہے۔
پولیس نے تفتیش کے دوران کس قسم کے سوالات کیے؟
کئی سوال تو بے تکے اور ہنگامہ خیز تھے۔ ہاتھرس میں جن دو افسران نے مجھ سے پوچھ گچھ کی تھی، وہ واقعی میں دائیں بازو کی پروپیگنڈہ ویب سائٹ کے مضامین پر مبنی سوال پوچھ رہے تھے۔ ایک افسر نے مجھ سے جارج سوروس (امریکی تاجر) سے فنڈنگ حاصل کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا، جس پر میں نے انہیں اس جانکاری کا ماخذ بتاتے ہوئےان سے کہا کہ ان کی یہ بات فلاں شخص کے ٹوئٹ سے لی گئی ہے، اس پر وہ سکپکاگئے اور پھر زور سےہنس پڑے۔
سیتا پور پولیس تو ایسے برتاؤ کر رہی تھی گویا وہ اس ‘پیار پھیلانے والے’ کے وکیل ہیں! انہوں نے مجھ سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ اس شخص پر کیا گزری ہے جو وہ ایسی تقریر کرتا ہے۔ تم نے اس کی معافی کیوں نہیں پوسٹ کی؟ لیکن کیا وہ واقعی میں معافی تھی؟
جیل میں عید کیسی گزری؟
میں نے نماز ادا کی اور دعا مانگی، جو میرے گھر والوں نے کرنے کو کہا تھا، حالانکہ میں صحیح طریقے سے نہیں کر پایا کیونکہ مجھے مسلسل اس شہر سے اس شہر لے جایا جا رہا تھا۔ میں خود کو الگ تھلگ نہیں کرنا چاہتا تھا، میں اس موقع کو جیل کی دیواروں کے اندر کی دنیا کے بارے میں مزید جاننے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
میں نے زیادہ سے زیادہ قیدیوں اور پولیس والوں سے بات چیت کی۔ مجھے لگتا ہے کہ جیل میں مختلف لوگوں سے بات کرنے سے میرے تجربے میں اضافہ ہوا۔ ایک موقع پر مجھے وہاں بہت کمزوری محسوس ہوئی، لیکن پھر میرے بہت سے دوست بن گئے، شاید اس لیے کہ میں ان کی کہانیاں سننا چاہتا تھا۔
آپ نے اپنی ضمانت کو استثنیٰ قرار دیا ہے، کیوں؟
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے پاس پیسہ، رسائی، وسائل، سول سوسائٹی، صحافی برادری کی حمایت اور سب سے اہم ایک مضبوط لیگل ٹیم تھی۔ میں جیل میں بہت سے ایسے نوجوان قیدیوں سے ملا جو صرف سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے کئی سالوں سے وہاں ہیں۔ میں نے نوجوان کشمیریوں سے ملاقات کی جن کے خاندان طویل قانونی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ان کی کہانی سن کر میری آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
تہاڑ میں ایک بااثر شخص نے مجھ سے کہا، ‘میں خوش بھی ہوں اور غمزدہ بھی کہ تم یہاں ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ اور صحافی یہاں آئیں اور قیدیوں کی حالت دیکھیں، تاکہ جب وہ باہر جائیں تو دنیا کو ہماری کہانیاں بتا سکیں۔
بہت سے لوگوں کے لیے سوشل میڈیا پر اس قسم کا غم و غصہ برپانہیں ہو گا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پورے نظام میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے آزادی کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔ صحافیوں کو انڈر ٹرائلز قیدیوں کی حالت پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، بالخصوص وہ لوگ جن کی حمایت میں ہیش ٹیگ چلانے والا کوئی نہیں ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے کرناٹک ہیٹ کرائم اور اسی طرح کی سرگرمیوں کی وجہ سے خبروں میں ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اگر ہم ساحلی علاقے میں ہونے والے چھٹ پٹ واقعات کو ایک طرف رکھیں تو حالیہ دنوں تک کرناٹک ان فرقہ وارانہ تنازعات سے محفوظ تھا۔ لیکن اب چیزیں بہت تیزی سے بدلی ہیں، خاص طور پر پچھلے ایک سال میں۔ یہاں فرقہ وارانہ نفرت کا زہر پھیلتا دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ نوجوان جان گنوا رہے ہیں لیکن اس جنون کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ پورے ہندوستان میں بہت اچھے حالات ر ہے ہیں، لیکن یہاں کے حالات کبھی اتنے برے نہیں تھے۔ ہم ایسے نوجوان ہندوستانیوں کے طور پر پلے بڑھے ہیں جو ایک دوسرے کا عزت و احترام کرتے تھے۔ کم از کم ہر ایک کے لیے گنجائش تھی – جس کا وہ حصہ تھے اور جہاں وہ خواب دیکھتے تھے۔
نوجوان صحافیوں کو کیا پیغام دیں گے؟
اگر میں خاموش بیٹھا تو اس کا اثر اور برا ہوگا۔اسی وجہ سے مجھے گرفتار کیا گیا تھا۔ایک مسلمان کا جوابدہی طلب کرنا کرنا اور بطور صحافی کام کرنا جرم نہیں ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا کام اہم ہے اوران خطرناک واقعات کو ریکارڈ کرنا کوئی جرم نہیں ہے جسے بصورت دیگر فراموش کر دیا جائے گا۔
آپ کوسوشل میڈیا پر موجود رہنا چاہیے اور اپنی کہانی خود لکھنی چاہیے۔ اپنے اردگرد ہونے والے پروپیگنڈے کو بس یوں ہی جانے نہ دیں۔ اگر ہر ضلع میں ایک ایسا شخص ہے جو حقائق کی جانچ پڑتال کرتا ہے، نفرت انگیز تقریر کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، گودی میڈیا میڈیا چینلوں کے پروپیگنڈے کو چیلنج کرتا ہے، تو حالات بالآخر بہتر ہوں گے۔
چند ایک لوگوں کا کام، چاہے وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، ایک اچھے مین اسٹریم میڈیا کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی جگہیں بنائیں اور نئی آوازوں کو وسائل فراہم کریں، خاص طور پر پسماندہ لوگوں کو۔ ہمیں ان کی تربیت کرنی ہوگی، انہیں تکنیکی مہارتیں سکھانی ہیں۔ یہ سوچنا کہ ہم جمہوری میڈیا کے بغیر ایک جمہوری معاشرہ اور نئی آوازوں کے بغیر جمہوری میڈیا کی تعمیر کر سکتے ہیں، محض تخیل ہے۔
کیا کوئی امیدنظر آتی ہے؟
میں نہیں چاہتا کہ بچے ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوئے یا اپنے بارے میں کسی قسم کے عدم اعتماد کے ساتھ بڑے ہوں — لیکن میں جھوٹ نہیں بولوں گا — مجھے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ میرے خیال میں یہ سیاسی ماحول ایسا ہی رہے گا یا شاید اس سے بھی بدتر۔
تاہم، مجھے نہیں لگتا کہ خاموش رہنا کوئی آپشن ہے۔ ہمارے پاس جو بھی وسائل ہیں ان کی مدد سے ہمیں سچ بولتے رہنا ہوگا۔ اب تک میری بنیادی توجہ ہیٹ اسپیچ، ہیٹ کرائم کے بارے میں رپورٹ کرنے اور فرضی خبروں کو بے نقاب کرنے پر تھی لیکن اب میں مرکزی دھارے کے میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فرقہ وارانہ نفرت کو اجاگر کرنے پر زیادہ توجہ دوں گا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر