خصوصی رپورٹ: ایک دعوے کے مطابق، حکومت نے ان بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے میں آج تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور نہ ہی کسی غیر سرکاری تنظیم نے ان بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی کوشش کی۔
جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر سے 17 کلو میٹر دور ضلع بڈگام کے نصراللہ پورہ اور ملحقہ دیہات میں کئی اینٹ بھٹے قائم ہیں، جن میں کام کرنے والے تقریباً سو فیصد مزدور غیر مقامی ہیں۔
ریاست بہار کے ضلع گیا کے رہنے والے 32 سالہ منگل چوہان گزشتہ دو سال سے یہاں ایک اینٹ بھٹے میں مٹی گوندھ کر خام اینٹیں تیار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
سال 2021 میں وہ پہلی بار کشمیر آئے تو ان کے ہمراہ صرف ان کی بیوی تھیں، لیکن اس سال اپنی 10 سالہ بچی شیوانی کو بھی اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔
شیوانی اپنے گاؤں کے اسکول میں پڑھتی تھیں۔کس جماعت میں؟یہ باپ بیٹی میں سے کوئی نہیں بتا پایا۔ لیکن وہ ذہین نظر آتی ہیں اور صرف خود کا نہیں بلکہ اپنے خاندان کے سبھی اراکین کا نام ہندی میں لکھنا جانتی ہیں۔
اب یہاں آجانے کی وجہ سے شیوانی نہ صرف پڑھائی سے محروم ہو گئی ہیں بلکہ بچہ مزدور بھی بن گئی ہیں، جس کا اعتراف خود ان کے والد بھی کرتے ہیں۔
منگل چوہان کہتے ہیں؛شیوانی کے علاوہ میرے دو بیٹے ہیں جو گاؤں میں ہیں۔ بیٹوں میں سے بڑا والا اسکول جاتا ہے۔ شیوانی بھی اسکول جاتی تھی، لیکن ہم اسے اپنے ساتھ لے آئے جس کی وجہ سے اس کی پڑھائی چھوٹ گئی۔
وہ مزید کہتے ہیں؛بیٹی بڑی ہو رہی ہے۔ گاؤں میں رکھتے تو ہمیں فکر لگی رہتی۔ سچ بتاؤں تو یہ یہاں رہ کر میرے کام میں تھوڑی بہت مدد بھی کرتی ہے۔
یہ پوچھنے پر کہ آپ نے شیوانی کا یہاں کے مقامی سرکاری اسکول میں داخلہ کیوں نہیں کرایا؟ تو منگل چوہان کا جواب تھا؛ ہم تو غریب لوگ ہیں۔ ہمیں کہاں پتہ کہ ہم اپنے بچوں کو یہاں بھی اسکول بھیج سکتے ہیں۔ ہمیں لگا تھا کہ یہاں کوئی دوسری ہی پڑھائی ہو گی۔
وہ آگے کہتےہیں؛ہمارے پاس کوئی آیا بھی نہیں۔ اگر اسکول یا سرکار میں سے کوئی میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ اپنی بچی کو اسکول بھیجو اور ہم اس کو مفت پڑھائیں گے تو میں تیار ہوں۔ میں اس کو پڑھانے کے لیے خود زیادہ محنت و مشقت کرنے کے لیے تیار ہوں۔
صرف ایک شیوانی نہیں
شیوانی اکیلی نہیں جن کا حصولِ تعلیم کا سفر کشمیر آنے کی وجہ سے رک گیا ہے اور جن سےکھیل کود کی عمر میں اینٹیں تہ لگانے کا کام لیا جا رہا ہے بلکہ یہاں قائم 350 کے قریب اینٹ بھٹوں میں ہزاروں ایسے بچے ہیں جن کے یہاں قدم رکھتے ہی پڑھائی چھوٹ گئی ہے یا جنہوں نے کبھی اسکول کامنھ بھی نہیں دیکھا ہے۔
در اصل ہر سال مارچ یا اپریل میں کشمیر کے اینٹ بھٹوں میں چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، بہار، اترپردیش اور مدھیہ پردیش جیسی پسماندہ ریاستوں سے ہزاروں انتہائی غریب خاندان یہاں مزدوری کرنے آتے ہیں۔
ان میں سے اکثر خاندانوں کا تعلق نچلی ذاتوں سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ کچھ ماہ مزدوری کرنے کے بعد نومبر میں سردی شروع ہوتے ہی واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اپنا کام جلدی مکمل کرنے کے لیےیہ نہ صرف عورتوں بلکہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر رکھتے ہیں۔
کشمیر کے اینٹ بھٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں یا مزدور خاندانوں کے یہاں کے ڈپارٹمنٹ آف لیبر کے پاس کوئی اعداد و شمار ہیں نہ کوئی اسکیم۔ یہی حال عورتوں اور بچوں کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے ڈپارٹمنٹ آف سوشل ویلفیئر کا بھی ہے۔
کشمیر برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے صدر ظہور احمد ملک کے مطابق یہاں ہر ایک اینٹ بھٹے میں کم از کم 200 غیر مقامی مزدور کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں؛چوں کہ اینٹ بھٹوں کی تعداد 350 کے قریب ہے لہٰذا ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 70 ہزار سے کم نہیں ہو گی۔ بچوں کی تعداد میں بتا نہیں سکتا کیوں کہ کئی اینٹ بھٹوں میں صرف مرد مزدور ہی کام کرتے ہیں۔
جس گاؤں میں منگل چوہان اور ان کی بیٹی شیوانی کام کرتی ہیں، وہاں ان کے اینٹ بھٹے سے کچھ ہی دوری پر ایک سرکاری مڈل اسکول واقع ہے جس میں مقامی استانی سمینہ اختر سمیت کئی استاد تعینات ہیں۔
سمینہ اختر کہتی ہیں؛ ہم نے پچھلے سال اینٹ بھٹوں میں جا کر ان بچوں کے والدین سے بات کی۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ نکل آیا کہ تین بچوں کا ہمارے اسکول میں داخلہ کرایا گیا تھا لیکن انہوں نے دس دن بعد ہی اسکول آنا چھوڑ دیا۔
وہ مزید کہتی ہیں؛ جو تین بچے آئے تھے وہ مقامی بچوں کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو پائے۔ حالاں کہ مقامی بچوں کے والدین کو غیر مقامی بچوں کے داخلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور جن بچوں نے داخلہ لیا تھا وہ ہوم ورک بھی اچھے سے کرنے لگے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ،میں یہاں کی مقامی رہائشی ہوں۔ یہ علاقہ اینٹ بھٹوں سے گھرا ہوا ہے لیکن کبھی کسی والد نے خودا سکول آ کر یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے۔ یہ کشمیری سماج سے الگ تھلگ رہ کر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں؛ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اینٹ بھٹوں میں چھوٹے چھوٹے بچے اپنے والدین کی اینٹیں بنانے کے کام میں مدد کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی والدین اپنے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے۔
ان کے مطابق، جہاں تک زبان کی رکاوٹ کا سوال ہے ہم اسکول میں بچوں کے ساتھ اردو یا ہندوستانی زبان میں اسی لیے بات کرتے ہیں تاکہ اگر کوئی غیر مقامی طالبعلم کلاس میں ہے تو اسے سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
نصراللہ پورہ سے محض چھ کلو میٹر کی دوری پر واقع شولی پورہ نامی علاقہ بھی اینٹ بھٹوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں ہمیں ایک اینٹ بھٹے میں شیوانی کی ہی عمر کی گوری کماری اپنے ’پاپا‘ کے موبائل فون پر گیم کھیلتی نظر آئیں۔
شیوانی کی طرح گوری کماری بھی اپنے گاؤں کے اسکول میں پڑھتی تھیں لیکن اس سال ان کے امی ابو انہیں اپنے ساتھ لے آئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بھی تعلیم چھوٹ گئی ہے۔
گوری کماری کے والد گشوندر ریاست بہار کے ضلع شیوہار کے رہنے والے ہیں۔ 40 سالہ گشوندر کے گوری سمیت پانچ بچے ہیں جن میں تین لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا؛گوری کو تھوڑا پڑھنا لکھنا آتا ہے۔ وہ اپنے گاؤں کے مڈل اسکول جاتی تھی۔ یہاں آ کر اس کی پڑھائی چھوٹ گئی۔
وہ آگے کہتے ہیں؛گاؤں میں ہمارا کوئی نہیں ہے۔ کوئی رہتا تو بچوں کو وہیں چھوڑ کر پڑھاتے۔ میرے والد بھی بیمار رہتے تھے اور دو ہفتے پہلے انتقال کر گئے۔
گوری کو مقامی سرکاری اسکول میں داخل نہ کرانے کے متعلق پوچھے جانے پر گشوندر کا کہنا تھاکہ، میں مزدور آدمی ہوں۔ دو وقت کے کھانے کے لیے مشکل سے ہی کما پا رہا ہوں۔ بچوں کو کیسے پڑھاؤں گا؟ پیسے لگیں گے تو وہ کہاں سے لاؤں گا؟
وہ بتاتے ہیں ؛ سرکار سے آج تک ہمارے پاس کوئی نہیں آیا کہ آپ اپنے بچوں کو اسکول بھیجو اور ہم ان کا پورا خرچ اٹھائیں گے۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے بچے پڑھ کر کوئی اچھا کام کریں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ کیسے کیا کروں۔
وہ مزید کہتے ہیں؛ اگر سرکار یا کوئی غیر سرکاری تنظیم میرے بچوں کی پڑھائی پر آنے والا مکمل خرچ اٹھانے کا مجھ سے وعدہ کرے گی تو میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار ہوں۔
موونگ اسکولوں کا قیام ناگزیر
برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے صدر ظہور احمد ملک کہتے ہیں کہ کشمیر میں سرکاری اسکول ہر ایک اینٹ بھٹے کے نزدیک واقع ہیں لیکن بدقسمتی سے ان ’غریب مزدوروں‘ میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی چاہت ہی نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں؛ان کی سوچ ایسی بن گئی ہے کہ ہم اور ہمارے بچے مزدوری کرنے کے لیے اس دنیا میں ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگاہی مہموں کے ذریعے ان کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔
ظہور احمد کہتے ہیں کہ، وہ خود چاہتے ہیں کہ ان ’غریب مزدوروں‘ کے بچے پڑھیں اور اپنی زندگیاں بہتر بنائیں۔
ان کے مطابق، چوں کہ یہ لوگ یہاں صرف تین یا چار ماہ گزارتے ہیں لہٰذا ان کا مقامی سرکاری یا نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہے۔ ان کے لیے موبائل یا موونگ اسکول کا ہونا ضروری ہے۔
وہ بتاتے ہیں ؛ان بچوں کے لیے موبائل یا موونگ اسکولوں کا قیام تعلیم کے حق کے قانون کو صحیح معنوں میں نافذ کرنے کے سمت میں ایک بڑا قدم ہو گا۔ مرکزی حکومت اس پر پالیسی بنا سکتی ہے۔ ان بچوں کو روایتی پڑھائی سے زیادہ تفریحی سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی دلچسپی بنی رہے۔
ظہور احمد کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں غیر مقامی مزدوروں کا کشمیر کے اینٹ بھٹوں میں کام کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کو باقی ریاستوں کے مقابلے میں یہاں اچھا معاوضہ مل جاتا ہے۔
ان کی مانیں تو؛ ان کو عزت ملتی ہے اور وہ خود کو محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ کشمیر میں ان کے خلاف جرائم صفر کے برابر ہیں۔
برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر شبیر احمد صوفی کہتے ہیں کہ اینٹ بھٹوں کے مالکان کو ان بچوں کی پڑھائی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں؛ ہم تو اس سمت میں اٹھائے جانے والے کسی بھی قدم کا نہ صرف خیر مقدم کریں گے بلکہ اپنا بھرپور تعاون بھی فراہم کریں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں؛ سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے ان بچوں کو تعلیم فراہم کرنے میں آج تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ نہ کسی غیر سرکاری تنظیم نے آج تک ان بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی کوئی کوشش کی۔
شبیر احمد کے مطابق ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ان مزدوروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کا تصور ہی نہیں ہے حالاں کہ یہ انہیں اچھا کھانا کھلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی
جموں و کشمیر کے لیبر کمشنر عبدالرشید وار نے اعتراف کیا کہ ان کے محکمے کے پاس کشمیر میں کام کرنے والے غیر مقامی مزدوروں کے اعداد و شمار نہیں ہیں۔
ان کے مطابق؛ اس کی بڑی وجہ ہے کہ یہ لوگ انفرادی طور پر یہاں آتے ہیں اور کچھ ماہ کام کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔
غیر مقامی مزدوروں کو رجسٹر نہ کرانے کی وجہ پوچھے جانے پر عبدالرشید وار کا کہنا تھاکہ، ایک مزدور اپنے آپ کو دو جگہ رجسٹر نہیں کرا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جس ریاست سے یہ مزدور تعلق رکھتے ہیں انہوں نے وہاں اپنے آپ کو رجسٹر کرایا ہو۔ لیکن وہ یہاں اپنے آپ کو رجسٹر کرانے کے اہل ہیں۔
انہوں نے اینٹ بھٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حوالے سے کہا؛یہ بات درست ہے کہ اینٹ بھٹوں میں کام کرنے والے اکثر مزدور اپنے افراد خانہ کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔ ان کے بچے ان کے ساتھ ہوتے ہیں جو بلا شک و تردد پڑھائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔
کشمیری ریسرچ اسکالر اور رائٹس ایکٹیوسٹ انجینئر عرفان بانکا کہتے ہیں کہ اینٹ بھٹوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم تک رسائی کو ممکن نہ بنانا اور ان سے مزدوری کرانا تعلیم کے حق سمیت کئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
وہ کہتے ہیں؛رائٹ ٹو ایجوکیشن کے قانون کے تحت ریاست (حکام) پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ چھ سے 14 سال کی عمر تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنائیں۔
ان کے مطابق؛ لیکن زمینی سطح پر صورتحال مختلف ہے۔ ہم نے چند سال قبل بچہ مزدوری پر ایک آگاہی مہم چلائی۔ اس سلسلے میں ہم نے پانچ چھ اینٹ بھٹوں کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے بچے کام کر رہے ہیں۔
وہ آگے کہتے ہیں؛ اینٹ بھٹوں میں بچوں کو سات یا آٹھ سال کی عمر میں ہی کوئی اور نہیں بلکہ خود ان کے والدین کام پر لگا لیتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر متعلقہ محکمے کو ایک ایتھنوگرافک اسٹڈی کرانے کی تجویز پیش کی تھی جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
والدین بچوں کو پڑھانا نہیں چاہتے
وادی کشمیر میں قائم تقریباً 350 میں سے 250 اینٹ کے بھٹے ضلع بڈگام میں پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چوں کہ 70 فیصد سے زیادہ اینٹ بھٹے ایک ہی ضلع میں ہیں تو یہاں کے مقامی ایجوکیشن آفس کا ایک بڑا کردار بنتا ہے۔
چیف ایجوکیشن آفیسر بڈگام مشتاق احمد قادری کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے نے ایک خصوصی اندراج مہم ’تلاش‘ کے تحت اینٹ بھٹوں میں رہنے والے کچھ بچوں کا اسکولوں میں داخلہ کرایا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ،کتنے بچوں کا داخلہ کرایا گیا ہے اس کے اعداد و شمار میرے پاس نہیں ہیں۔
مشتاق احمد قادری کے مطابق، غربت اور مقامی زبانوں سے ناواقفیت ان کو اسکولوں سے دور کرتی ہے۔
ان کے مطابق؛ ایک بڑا مسئلہ ان بچوں کے والدین کی سیزنل مزدوری ہے۔ یہ لوگ گرمیوں کے کچھ ماہ یہاں کام کرنے کے بعد واپس اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں؛ حکومت اگر چاہے گی تو ان بچوں کے لیے عارضی اور موونگ سکول قائم کر سکتی ہے۔ گجر اور بکروال خانہ بدوش، جو بین ریاست نقل مکانی کرتے ہیں، کے لیے اس طرح کے اسکول پچھلے کافی عرصے سے کام کر رہے ہیں۔
اس سوال کہ ’کیا محکمہ تعلیم کے پاس ان بچوں کو اسکولوں میں لانے کی کوئی سکیم نہیں ہے؟ کے جواب میں مشتاق احمد کا کہنا تھاکہ ؛ اینٹ کے بھٹوں میں کام کرنے والے والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں کے دروازے کھلے ہیں۔ ہم کسی بھی طالبعلم کا داخلہ روک نہیں سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں؛ہم ان کو کتابیں، مڈ ڈے میل اور وردی مفت فراہم کریں گے۔ کوئی داخلہ یا ماہانہ فیس نہیں لیں گے۔ ہمارے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا وقتاً فوقتاً طبی معائنہ ہوتا ہے۔ ہمارے اسکولوں میں ہر ایک سہولیت دستیاب ہے لیکن بدقسمتی سے غریبی عقل کو بھی غریب بنا دیتی ہے۔
چیف ایجوکیشن آفیسر کے مطابق، وہ ان بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کی زیادہ کوششیں نہیں کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ، ہمارے تدریسی سال کے دن بہت کم ہوتے ہیں۔ ہم ایک شورش زدہ علاقے میں رہتے ہیں۔ ہم پر قومی ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ بچوں کو 15 اگست اور 26 جنوری جیسے قومی پروگراموں کے لیے تیار کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان کو اسکول لانے کی کوششوں میں ہی لگے رہیں۔
واضح ہو کہ غیر محفوظ یا ولنریبل بچوں کی بہتر نگہداشت اور تعلیم کے لیے وجود میں لائی گئی سرکاری سکیم ’انٹیگریٹڈ چائلڈ پروٹیکشن اسکیم (آئی سی پی ایس)‘ کے تحت بھی اینٹ بھٹوں میں پرورش پانے والے بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر میں تعینات اس اسکیم کی مشن ڈائریکٹر ہروندر کور کہتی ہیں؛ میرے پاس بہت کام ہیں جس وجہ سے ان بچوں کی طرف کبھی ذہن ہی نہیں گیا۔
وہ کہتی ہیں؛ ہم چاہیں گے کہ کوئی ہمیں یہ بتائیں کہ ان بچوں کی اصل تعداد کیا ہے۔ ہم ان بچوں سے متعلق پہلے کرائے گئے کسی سروے کو دیکھنا چاہیں گے کیوں کہ ہمارے پاس فیلڈ عملہ نہیں ہے جو یہ کام کرے۔
وہ مزید کہتی ہیں؛ ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ حکومت کو ان بچوں کی اعداد و شمار بتا کر کوئی منصوبہ تجویز کریں گے۔ اگر ان بچوں کے والدین اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہیں گے تو ہم ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔
جسمانی اور ذہنی صحت
معالجین اور ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں الگ تھلگ رہنے، کھیل کود اور پڑھائی سے محروم رکھے جانے نیز ننھے سے جسم پر مزدوری کا بوجھ پڑنے سے بچوں کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر حمیرا شفیع کہتی ہیں؛ پانچ سے دس سال وہ عمر ہے جس میں ایک بچے کی زندگی کی سمت طے ہوتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں؛ اس کو اگر باقی بچوں کے برعکس ایک ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے جہاں وہ خود کو احساس محرومی کا شکار پاتا ہے تو نہ صرف اس بچے کا ذہنی رویہ بلکہ جسمانی نشو و نما بھی بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں؛ تعلیم بچوں کی بہتر نشو و نما کی ایک اہم شرط ہے۔ بچہ اچھی وردی پہن کر اسکول جانے کا شوق رکھتا ہے۔ اس کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے جس میں وہ کھویا رہتا ہے۔ بچوں کو یہ دنیا جیتنے سے محروم کیا جائے تو اس کے برے اثرات مرتب ہونا لازمی بات ہے۔
تاہم پروفیسر ڈاکٹر حمیرا شفیع کے مطابق، ان کے شعبے نے آج تک اینٹ بھٹوں میں زندگی گزارنے والے بچوں کے نفسیات پر پڑنے والے اثرات پر کوئی اسٹڈی نہیں کی ہے۔
(ظہور حسین ایک فری لانس صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزاد صحافیوں کے لیے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی ہے۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ