خبریں

مودی سرکار میں این آئی اے نے یو اے پی اے سے متعلق 80 فیصد معاملے درج کیے: رپورٹ

پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کی ایک اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ 2009 سے 2022 کے درمیان این آئی اے نے یو اے پی اے کے کل 357معاملے درج کیے ہیں۔ ان میں 238 معاملوں کی جانچ میں پایا گیا کہ 36 فیصد میں دہشت گردی کے کچھ واقعات  رونما ہوئے تھے، لیکن 64 فیصد معاملوں میں ایسا کوئی خاص واقعہ رونما نہیں ہواتھا۔

(فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا)

(فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا)

نئی دہلی: نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعے سنبھالے گئے معاملوں کی ایک اسٹڈی  سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2009 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اے کے تحت درج کیے گئے کل 357 معاملوں  میں سے 80 فیصدی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی موجودہ بی جے پی حکومت کے دوران درج کیے گئے ہیں، جبکہ باقی معاملے منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران درج کیے گئے تھے۔

یہ اسٹڈی  پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے کیا تھا۔

نیشنل ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، یو پی اے کی حکومت (2009-مئی 2014) میں این آئی اے کے ذریعے سالانہ درج کیے گئےیو اے پی اے کے معاملوں  کی اوسط تعداد 13 ہے۔ اس کے برعکس، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے دور حکومت میں ہر سال درج ہونے والے معاملوں  کی اوسط تعداد 34 ہے۔

ان 357 معاملوں میں سے صرف 41 (12 فیصدی) این آئی اے نے خود درج کیے تھے، جبکہ باقی 316 (88 فیصد) معاملے مختلف ریاستی پولیس سے این آئی اے کو منتقل کیے گئے تھے۔

غورطلب  ہے کہ مرکزی حکومت کے پاس یہ طے کرنے کا مکمل اختیار ہے کہ کیا کوئی  تحقیقات این آئی اے کو سونپی جانی چاہیے، خواہ ریاستی حکومت اس سے متفق نہ ہو۔

پی یو سی ایل کی اسٹڈی  میں یو اے پی اے کی دفعہ 18 (سازش کرنے کی سزا) کے استعمال اور غلط استعمال کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس میں سازش کی وضاحت بہت وسیع پیمانے پر کی گئی ہے، جس میں کسی کو بھی پھنسایا جا سکتا ہے۔

اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ کل 357 معاملوں میں سےدفعہ 18 کے تحت الزامات سے متعلق  238 معاملوں  کی تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ 86 معاملوں (36 فیصد) میں دہشت گردی کے کچھ واقعات  رونما ہوئے، لیکن 152 معاملوں (64 فیصد) میں ایسا کوئی خاص  واقعہ نہیں ہوا  تھا جس میں ہتھیار کا استعمال کیا گیا ہو یا جسمانی چوٹ کی اطلاع ملی ہو۔

یو اے پی اے کی دفعہ 18 کے تحت 64 فیصد معاملات میں پولیس کا صرف یہ الزام تھا کہ وہ شخص کسی ممنوعہ دہشت گرد تنظیم کا رکن تھا یا اس کے قبضے سے مبینہ ہتھیار یا منشیات یا دھماکہ خیز مواد یاپیسے ملے، جو کسی شخص کی گرفتاری کے لیے یا برسوں تک اسے جیل میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔

پی یو سی ایل کے مطالعہ میں طاقت کے اس بڑے پیمانے پر غلط استعمال کی مثالیں بھی پیش کی گئیں، جن میں سے ایک بھیما کورےگاؤں-ایلگار پریشد کیس ہے کہ کس طرح وزارت داخلہ نے راتوں رات اس کیس کو 2020 کے اوائل میں مہاراشٹر پولیس سے این آئی اے کو منتقل کر دیا تھا۔ کیونکہ وہاں بی جے پی حکومت گر گئی تھی اور ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت بنی تھی۔

مطالعہ میں کہا گیا ہے،ریاستی پولیس سے این آئی اے کو منتقل کیے گئے ان معاملوں کی قانونی حیثیت مشکوک ہے کیونکہ ان میں ایسےمعاملوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو دور دور تک قومی سلامتی سے نہیں جڑے تھےیا خودمختاری کے لیے خطرہ  نہیں تھے یا تشدد سے متعلق نہیں تھے۔

مطالعہ میں مرکزی حکومت کے اس طرح کی کارروائیوں کو وفاقی اصولوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیاہے۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی پولیس کے ذریعےیو اے پی اے کے سب سے زیادہ معاملے منی پور، جموں و کشمیر، آسام، جھارکھنڈ اور اتر پردیش میں سامنے آئے۔

Categories: خبریں

Tagged as: , , , ,