خبریں

اترپردیش: درگا وسرجن کے دوران فرقہ وارانہ تشدد، علماء نے یکطرفہ کارروائی کا الزام لگایا

اتر پردیش کے سلطان پور ضلع کے بلدی رائے تھانہ حلقہ میں10 اکتوبر کو درگا مورتی وسرجن کے دوران ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں 32 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں علماء کے ایک وفد نے ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کی ہے اور کہا ہے کہ اس رات جن لوگوں کی گرفتاریاں  ہوئیں  اور آج تک جو نامزد ہوئے ہیں وہ سبھی مسلم کمیونٹی سے ہیں۔

سلطان پور کے بلدی رائے تھانہ حلقہ میں نکالے گئے جلوس کے وائرل ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔

سلطان پور کے بلدی رائے تھانہ حلقہ میں نکالے گئے جلوس کے وائرل ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔

اتر پردیش کے سلطان پور ضلع کے بلدی رائے علاقے کے ابراہیم پور میں سوموار (10 اکتوبر) کو درگا وسرجن یاترا کے دوران ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں 32 ملزمین کو گرفتار کرکے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔

بلدی رائے تھانہ حلقہ میں سوموار کی شام درگا مورتی وسرجن جلوس کے دوران ڈی جے کو لے کر دو برادریوں کے لوگ آپس میں جھگڑ پڑے تھے۔

سوموار کو بلدی رائے پولیس سرکل آفیسر (سی او) راجا رام چودھری نے بتایا تھا کہ  ابراہیم پورہ  میں درگا مورتی وسرجن شوبھا یاترا جب ایک مسجد کے قریب پہنچی تھی، تب اذان کا وقت ہونے پر ایک برادری کے لوگوں نے ڈی جے کی آواز کو کم کرنے کو کہا، جس پردونوں برادریوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور پتھراؤ شروع ہو گیا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ اس واقعہ میں ایک کانسٹبل سمیت تقریباً نصف درجن لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

اس معاملے میں ضلع مجسٹریٹ نے بدھ (12 اکتوبر) کو پانچ لوگوں کے خلاف نوٹس جاری کیا ہے۔ انہیں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے اور نقصان کی بھرپائی کے لیے  نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

بلدی رائے کے پولیس سرکل آفیسر (سی او) راجا رام چودھری نے بتایا کہ معاملے میں 32 ملزمین کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔

پہلی بار علمائے کرام اس معاملے کے سلسلے میں سامنے آئے ہیں۔ علماء کے ایک وفد نے بدھ کو ضلع مجسٹریٹ رویش گپتا سے ملاقات کی۔ انہوں نے (وفد) ضلع مجسٹریٹ سے کہا کہ یہ کارروائی یکطرفہ طور پر کی جا رہی ہے، جو درست نہیں ہے۔

مولانا قاسم نے جمعرات کو ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کے بعد  کہا کہ یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

مولانا نے کہا کہ جب معاملہ دونوں طرف سے کیاگیا تو ملزمین دونوں طرف سے ہیں، لیکن اس رات گرفتار ہونے والے اورآج تک  جو نامزدہوئے ہیں وہ سب ایک ہی برادری (مسلمان) سے تعلق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری برادری اس قدر خوف و ہراس میں ہے کہ اگر اس کاایک فرد بھی باہر نکلتا ہے  تو اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے اور وہ اپنی  ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بھی تھانے نہیں پہنچ پا رہا ہے۔

مولانا نے ضلع مجسٹریٹ سے کہا، ‘دونوں طرف سے لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ لوگوں  میں یہ احساس  ہے کہ یکطرفہ کارروائی ہو رہی ہے، یہ احساس ختم ہونا چاہیے۔

گپتا نے تمام علمائے کرام کو یقین دلایا کہ کارروائی معمول کے مطابق کی جائے گی، جو بھی قصوروار پایا گیا اسے بخشا نہیں جائے گا۔

بدھ کو ضلع مجسٹریٹ نے پانچ لوگوں کے خلاف نوٹس جاری کیا ہے۔ پانچوں کو غیر قانونی تجاوزات ہٹانے اور نقصانات کے ازالے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

جن پانچ لوگوں کو نوٹس جاری کیا گیا ہے ان میں ہیمنا پور کےاختر، عظیم الدین، شری رام یادو، شمس الدین اور ایک مدرسہ کے منیجر کا نام شامل ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے سبھی کو تین روز میں جواب داخل کرتے ہوئے  تجاوزات ہٹانے اور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، اختر کو اپنے گھر سے تجاوزات ہٹانے اور 1.75 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ جمعیت القاری مدرسہ کے منیجر کو 2.29 لاکھ روپے، عظیم الدین کو 2.16 لاکھ روپے، شمس الدین کو 2.79 لاکھ روپے اور شری رام یادو کو 1.12 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔

دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق، 10 اکتوبر کو درگا مورتی وسرجن جلوس میں شامل لوگ ابراہیم پورہ کی جامع مسجد کے سامنے مبینہ طور پراونچی آواز میں موسیقی بجا رہے تھے اور لاٹھیوں اور ہتھیاروں کے ساتھ ڈانس کررہے تھے۔

دینک بھاسکر کے مطابق، جلوس تقریباً پانچ گھنٹے تک وہاں رہا۔ لوگوں نے اونچی آواز میں میوزک پر اعتراض کیاتھا،  جو زبانی لڑائی کے بعدمارپیٹ  میں بدل گیا۔

الزام ہے کہ جلوس میں شامل لوگوں نے علاقے کی مقامی مسجد،  مکانات اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔ لڑائی کے دوران کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے مقامی باشندہ  اسلم (بدلا ہو نام )نے کہا، جب درگا مورتی وسرجن جلوس جامع مسجد کے قریب پہنچا، تب مغرب کا وقت تھا۔ جھگڑے کے بعد مسجد پر پتھراؤ کیا گیا اور اس میں  آگ لگا کر توڑ پھوڑ کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا، علاقے میں آٹھ سے دس دکانوں پر بھی حملہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ یہ علاقہ بلدی رائے تھانے سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

اس دوران جلوس سے خطاب کرتے ہوئے ایک پولس افسر نے سٹیج پر جا کر کہا، درگا ماتا کی دھارمک یاترا میں جس کسی  بیٹے نے ہمت کی ہے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان کو مٹی میں ملا دوں گا۔ ان کے گھر بلڈوزر سے گریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ، آپ کمزور نہیں ہیں اور نہ ہی انتظامیہ۔ انتظامیہ جلوس میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ براہ کرم پہلے مورتی وسرجن ختم کریں، اس کے بعد کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔

اس پولیس افسر کی شناخت بلدی رائے پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر امریندر بہادر کے طور پر ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں نے ان کے اس بیان کا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔

معاملے میں بلدی رائے پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جن میں فسادات، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، قتل کی کوشش اور پبلک پراپرٹی ایکٹ 1984 کی کچھ دفعات شامل ہیں۔

دی وائر نے اس ایف آئی آر کی کاپی دیکھی ہے، جو 52 لوگوں کے خلاف درج کی گئی ہے۔ اس میں صرف ایک نامعلوم شخص اور باقی سب مسلمان ہیں۔

ایف آئی آر راکیش کمار اوجھا نامی شخص کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔

دی وائر کو ملی ایف آئی آر  کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ جلوس کو روک دیا گیا  تھااور مسلمانوں نے لاٹھیوں اور غیر قانونی ہتھیاروں اور پتھروں کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کیا، جو وسرجن کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

ایف آئی آر میں بلدی رائے پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر امریندر بہادر کا بھی نام ہے، جو ویڈیو میں نظر آرہے ہیں۔ وہ انچارج افسر ہیں ، جنہوں  نے ہی یہ شکایت درج کی ہے۔

اس سلسلے میں دی وائر نے بلدی رائے پولیس اسٹیشن کے سرکل آفیسر راجا رام چودھری سے رابطہ کیا، جنہوں نے کہا، ہم ابھی تحقیقات کی تفصیلات کا انکشاف نہیں کر سکتے۔

جلوس سے خطاب کرتے ہوئے امریندر بہادر کے ذریعے دیے گئے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، بس اتنا کہہ دینے سے  کیا کوئی بلڈوزر کارروائی کی جائے گی؟ سیاستدان ایسا اسٹیج پر یہ کہتے ہیں، یہ کیسا سوال ہے؟

یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ  دیا۔ انہوں نے امریندر بہادر کے بیان کو ماننے سے انکار کر دیا،  جو کیمرے میں ریکارڈ بھی ہوا ہے۔

مقامی لوگوں  کا دعویٰ —  گھروں پر حملہ کیا گیا، مارپیٹ  اور چوری کی گئی

مقامی لوگوں  نے الزام لگایا کہ ہنگامہ آرائی کے بعد ان کے گھروں پر حملہ کیا گیا اور ان میں سے کچھ نے دعویٰ کیا کہ  جلوس میں شامل لوگوں نے ان پر حملہ کیا۔

رئیسہ (بدلا ہونام نے کہا، جب پتھراؤ ہوا تو میں اور میری بیٹی گھر میں تھے۔ ہم دوسرے گاؤں بھاگ گئے۔ جب میں دو گھنٹے بعد واپس آئی  تو دیکھا کہ میرا گھر آگ سے جل گیا ہے۔ میں نے پولیس افسران کو اپنا گھر دکھایا۔ میرے زیورات اور گھر میں رکھا سلنڈر غائب تھا۔

سیفہ (بدلا ہوانام)نے بتایا کہ وہ ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور سب کچھ لے گئے۔ ہمارے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ہم پر لاٹھیوں سے حملہ کیا گیا۔ پولیس ہندو برادری کے ساتھ تھی، جو جلوس کا حصہ تھے۔ وہ ہمیں مار کر فرار ہو گئے۔ میری بیٹی کو بھی چوٹ لگی ہے۔

دریں اثنا،لوگوں  نے ضلع مجسٹریٹ رویش گپتا کو ایک میمورنڈم سونپ کر ان سے صورتحال کا نوٹس لینے کی اپیل کی  ہے۔ لوگوں  کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو میں مذکورہ پولیس افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ۔ اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)