معاملہ مدھیہ پردیش کے کھرگون ضلع کا ہے۔ بی جے پی لیڈر رنجیت سنگھ دانڈیر پہلے بجرنگ دل میں تھے۔ الزام ہے کہ انہوں نے ‘تنظیم زرخیز’ نامی ادارہ بنا کر 2000کی دہائی میں کسانوں کی کئی ایکڑ زمین یہ ڈر دکھا کر سستے داموں خریدلی کہ اس پر مذبح خانہ بننے والا ہے۔ سودا ہونے کے بعد تنظیم کا نام بدل کر پی سی مہاجن فاؤنڈیشن کر دیا گیا۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے کھرگون میں ایک ایسا واقعہ سامنے آیا ہے، جس میں ایک ہندو گروپ نے کسانوں کو ‘مسلمانوں کا خوف’ دکھا کر اُردو نام والی تنظیم کے نام سے سستے داموں میں ان کی دو سو ایکڑ زمین خرید لی۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی میں کھرگون شہر کے مضافات میں زمین بیچنے والے زیادہ تر چھوٹے کسان تھے۔ انہوں نے پولیس سے رابطہ کیا ہے، کیونکہ اب اس علاقے میں رہائشی کالونی بن رہی ہے۔
زمین دینے والوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔
حکمراں بی جے پی کے رہنما رنجیت سنگھ دانڈیر مذکورہ گروپ کے صدر ہیں۔ زمین کے سودے کے وقت اس گروپ کا نام ‘تنظیم زرخیز’ ہوا کرتا تھا، جو کہ 2007 میں سودا ہونے کے بعد ‘پروفیسر پی سی مہاجن فاؤنڈیشن’ ہو گیا۔ اس کے عہدیدار کسی بھی دھوکہ دہی کی بات سے انکار کرتے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر روی مہاجن نے کہا، ہم صرف زمین کا اچھا استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا، رہائشی پلاٹوں کے علاوہ، آوارہ گائے کے لیے ایک گئو شالہ بھی بنائی جا رہی ہے۔
حالانکہ، بی جے پی نے خود کو اس سے الگ کر لیا ہے۔ ریاستی بی جے پی سکریٹری رجنیش اگروال نے کہا کہ ہماری پارٹی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ معاملہ بیچنے والے اور خریدار کے درمیان ہے اور ان کے اپنے معاشی مفاد ہیں۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں دھوکہ دیا گیا، کیونکہ انہیں لگا جو ایجنٹ ان سے رابطہ کر رہے ہیں، وہ مسلمان ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، راج پورہ میں رہنے والے نند کشور کا کہنا ہے کہ اس کی زمین اسکان مندر کے قریب تھی، اس نے ساری زمین صرف 40 ہزار روپے میں بیچ دی۔
وہ کہتے ہیں،ہمارے پاس ذاکر نامی شخص آیا۔ وہ کہنے لگا کہ تمہارے آس پاس کی زمین خریدلی ہے اور کہا کہ یہاں مسلمانوں کا سلاٹرہاؤس بنے گا، اپنی زمین بیچ دو، نہیں توگھیرے جاؤ گے۔ انہوں نے پوری قیمت نہیں دی، 40000 روپے تھے۔ باقی پیسے نہیں دیے، اب میرے پاس زمین نہیں ہے، سب لے لی۔
وہیں، رام نارائن کہتے ہیں،دلال ببلو خان 2004-05 میں آتا تھا۔ میرے بڑے بھائی کو موٹرسائیکل خرید کر دی۔ پھر ہماری زمین اونے پونے دام میں لے لی۔ جو رجسٹری تھی وہ انگریزی میں تھی، یہی بھرم پھیلایا کہ مسلمان آجائیں گے۔ خوفزدہ ہو کر ہم نے زمین بیچ دی، ہمارے پاس مسلمان آ رہے تھے تو ہم نے یہی سوچا کہ وہ یہاں بسیں گے۔اپنے کو کیا پتہ کہ زمین تاجرنےخریدی یا کس نے خریدی۔
دوسرے لوگوں کا کہنا ہےکہ انہیں بتایا گیا کہ یہاں حج کمیٹی اور قبرستان کی تعمیر ہوگی۔
دیپک کشواہا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی نو ایکڑ زمین بیچی تھی، کیونکہ وہ وہاں مسلمانوں کے ایک ادارے کے قیام پر تنازعہ سے بچنا چاہتے تھے۔
بزنس مین سنجے سنگھوی نے بھی اپنی زمین بیچ دی۔ وہ کہتے ہیں، وہاں رشتہ داروں نے اپنی زمین بیچ دی، اس لیے دباؤ میں آکر ہمیں بھی بیچنی پڑی۔
سنگھوی نے بتایا کہ وہاں تنظیم زرخیز نام دیکھ کر ہمارے رشتہ داروں کو لگا کہ حج کمیٹی بنے گی، مسلمانوں کی بستی آباد ہوگی۔ گھبرا کر انہوں نے زمین بیچ دی۔ سب سے آخر میں ہم نے اپنی زمین ان کے اور ببلو دلال کے کہنے پر بیچی۔
تنظیم زرخیز نام کا ادارہ 2002 میں ہندوؤں کے ایک گروپ نے بنایا تھا، جس نے ذاکر شیخ نامی ایک مسلمان شخص کو مینجر مقرر کیا تھا۔
شیخ نے این ڈی ٹی وی کو بتایا،میں نے سوچا تھاکہ تنظیم کا مقصد سماجی خدمت کا کام کرنا ہے، لیکن میں نے کبھی کسی کو اپنی زمین بیچنے کے لیے مجبور یا گمراہ نہیں کیا۔
کچھ زمین اسی گروپ کی جانب سے بنائی گئی ایک اور تنظیم نے خریدی تھی۔ 200 ایکڑ میں سے 150 ایکڑ زمین 11 افراد یا تنظیموں سے خریدی گئی۔ باقی زمین چھوٹے کسانوں کی تھی۔
ٹرسٹ کےسربراہ بی جے پی لیڈر رنجیت دانڈیر نے بتایا، میرا نام اس میں اس لیے گھسیٹا جا رہا ہے کہ میں ایک جانا پہچانا نام ہوں۔
انہوں نے کچھ ایسےمعاملوں کا حوالہ دیا جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں اور کہا کہ ‘میں سات بار جیل جا چکا ہوں، مجھ پر قتل کا الزام ہے، کیونکہ میں نے ساری زندگی ہندو سماج کے لیے کام کیا ہے۔’
تنظیم کے نام اور زمین کے استعمال کے بارے میں انہوں نے کہا، ہم کھرگون میں ایک گئو شالہ چاہتے تھے۔ میں نے سوچا تھاکہ ہم یہاں گئو شالہ بنا کر سماج اور گائے کے لیے کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر ہم اس کا نام تنظیم زرخیز رکھیں تو کیا اعتراض ہے۔
دانڈیر بجرنگ دل کے ریاستی شریک کنوینر رہے ہیں، اور ایک کوآپریٹو بینک کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ٹرسٹ کا نام اس کے ڈائریکٹر روی مہاجن کے والد کے نام پر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،تنظیم زرخیز کا مطلب بنجر زمین کو زرخیز بنانا ہے۔ چونکہ ہمیں لگا کہ لوگ اس کا مطلب نہیں سمجھیں گے، اس لیے ہم نے نام بدل دیا۔
مہاجن نے کہا، ‘سارے کام قانون کے مطابق ہوئے ہیں،یہاں غریبوں کو گھر ملے ہیں، زمین میں پانی ادارہ لایا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ،یہاں 700 فٹ تک پانی نہیں تھا، یہاں ہم نے پانی پیدا کیا۔ میں انا ہزارے، بابا آمٹے سے متاثر ہوں۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ یہاں گرین لینڈ بنایا جائے۔ یہ سماج کو پیغام دینا تھا۔ میں نے آپ کو 148 ایکڑ کی فہرست دی ہے، جو غیر کاشتکار ہیں، تاجر ہیں، افسران ہیں… انہیں ڈرانے کے لیے… یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے۔
تاہم معاملہ ایڈیشنل کلکٹر کی عدالت میں پہنچ گیا ہے۔ عدالتی مقدمہ لڑنے والے سدھیر کلکرنی خود 30 سال سے سنگھ کے کارکن ہیں۔
وہ کہتے ہیں، 2005 میں اس وقت بی جے پی ایم ایل اے بابولال مہاجن نے آواز اٹھائی تھی کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ 2017 میں میں نے درخواست دی تھی کہ کروڑوں کی اسٹامپ ڈیوٹی چوری ہوئی ہے۔ تحصیلدار نے غلط نامزدگی کی تھی، اب ہم دفعہ 80 کے تحت نوٹس دیں گے کہ یہ تمام جائیداد ضبط ہو۔
Categories: خبریں