خبریں

این آئی اے کے ایک معاملے میں دہلی کی عدالت نے کہا – صرف جہادی لٹریچر رکھنا جرم نہیں

یو اے پی اے سے متعلق ایک کیس میں آئی ایس آئی ایس کے نظریات  کوفروغ دینے کے ملزمین کے خلاف الزامات طے کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ کسی خاص مذہبی فلسفے پر مشتمل لٹریچر رکھنا جرم نہیں ہے،  جب تک کہ کسی دہشت گردانہ فعل میں اس کے اطلاق  کو ظاہر کرنے والا مواد موجود نہ ہو۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ ‘صرف ایک مخصوص مذہبی فلسفہ پر مشتمل جہادی لٹریچر کو رکھنا’ جرم نہیں ہوگا، جب تک کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے اس فلسفے کے اطلاق کو ظاہر کرنے کے لیےکوئی مواد موجود نہ ہو۔

رپورٹ کے مطابق،  پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دھرمیش شرما نے 31 اکتوبر کو ایک فیصلے میں کہا ،یہ ماننا کہ صرف ایک مخصوص مذہبی فلسفہ والے  جہادی لٹریچر کورکھنا جرم ہے،  جبکہ اس طرح کے لٹریچر کوقانون کی  کسی بھی شق کے تحت واضح طور پر یا خاص طور پر ممنوع نہیں کیا گیا  ہے، قانون سے باہر ہے، جب تک کہ ایسا مواد پیش نہ کیا جائے جو بتائے کہ اس طرح کے فلسفے کااستعمال کسی دہشت گردانہ  کارروائی کو انجام دینے کے لیے کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ، اس طرح کا اہتمام آئین کے آرٹیکل 19 میں دی گئی آزادیوں اور حقوق کے منافی ہے۔ بھلے ہی  وہ مذکورہ فلسفے اور نظریے سے متاثر ہوں،  تب بھی اس کو مذکورہ تنظیم کا رکن نہیں کہا جا سکتا۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، عدالت نے یہ تبصرے اگست 2021 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعے مبینہ طور پر آئی ایس آئی ایس کے نظریات کو فروغ دینے اور نئے ارکان کی بھرتی کرنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے 11 افراد کے خلاف الزامات طے کرتے ہوئے کیے۔

ملزمین کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 120 بی (مجرمانہ سازش) اور 121 اے (حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنا) اورغیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 17 (دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا)، 18 (سازش) ، 18بی (کسی کو دہشت گردانہ کارروائی کے لیے بھرتی کرنا)، 20 (کسی دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونا) اور 38، 39 اور 40 کے تحت مقدمہ چلایا گیاہے۔

حالاں کہ، عدالت نے کہا کہ جہادی لٹریچر رکھنا یو اے پی اے کی دفعہ 20 کے تحت جرم نہیں مانا جائے گا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی پی سی کی دفعہ 121 اے اور یو اے پی اے کی دفعہ 18، 18 بی، 17 اور 40 کے تحت الزامات طے کرنے کے لیے پہلی نظر میں کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، جج نے کہاکہ ،کوئی ایسا مواد اکٹھا نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ کسی ملزم نے اسلحہ یا گولہ بارود یا دھماکہ خیز مواد خریدا یا حاصل کرنے کی کوشش کی، یا کسی دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنایا، جس سے کہ عام لوگوں کے ذہنوں میں بڑے پیمانے پر بے چینی یا خوف پیدا ہو سکے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا،مختصر یہ کہ اس بات پر یقین کرنے کے لیے کوئی مواد نہیں ہے کہ ملزمین میں سے کوئی بھی حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش کر رہا تھا۔اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے  کسی بھی دہشت گردی کی سرگرمیوں کی تیاری اور/یا منصوبہ بندی کے لیے کوئی اسلحہ، گولہ بارود یا دھماکہ خیز مواد یا دیگر نقصان پہنچانے والے ہتھیار اکٹھے کیے۔

تاہم، جج نے کہا کہ استغاثہ کی اس کہانی کہ ملزمین  کا’خفیہ سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے آئی ایس آئی ایس کے نظریے کی تشہیر کرنے کا مشترکہ ایجنڈہ تھا’ اور یہ کہ انہوں نے ‘ایک منصوبہ بند مجرمانہ سازش کے تحت کمزور مسلم نوجوانوں کوآئی ایس آئی ایس  میں شاملشامل کرنے کے لیے اپنے اثر میں لے کر، اکساکر اور کٹربنانے کے لیے ہم خیال لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ، کو پہلی نظر میں ثابت کرنے کے لیے مواد ہے۔

گیارہ ملزمین میں سے عدالت نے 9 افراد: انور،  رشید، سدانند، مارلا دیپتی، محمد وقار لون، مائزہ صدیقی، شفا حارث، عبید حامد مٹا اور عمار عبدالرحمن کے خلاف الزامات طے کیے ہیں۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمین میں سے ایک ارشاد تھیکے کولتھ مبینہ طور پر مفرورہے اور بیرون ملک چلا گیا ہے۔ عدالت نے ایک اور ملزم مزمل حسن بھٹ کو یہ کہتے ہوئے تمام الزامات سے بری کردیا کہ اس نے کبھی  بھی آئی ایس آئی ایس کا رکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور تنظیم کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

عدالت نے کہا کہ حامد مٹا نے کالعدم تنظیم کا رکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اس لیے ان پر یو اے پی اے کی دفعہ 2(او) اور 13 کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔