خبریں

تمل ناڈو: ہائی کورٹ نے ذات پات کی بنیاد پر قبرستان اور شمشان کی روایت کو ختم کرنے کو کہا

ایک نچلی عدالت نےایک لاش کو ‘ایس سی/ایس ٹی کے لیے مختص زمین’ پر دفن نہیں کیے جانے پراسےباہر  نکالنے کافیصلہ  دیا تھا۔ اس کورد کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ کم از کم کسی انسان کے آخری وقتوں  میں  تو  مساوات  کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: مدراس ہائی کورٹ نے تمل ناڈو حکومت سے ذات پات کی بنیاد پر قبرستان اور شمشان گھاٹ کی  روایت  کو ختم کرنے کے لیے کہا۔ عدالت نے کہا کہ کم از کم مرنے والوں کو ذات پات کی تفریق سے بچانا چاہیے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، جسٹس آر سبرامنیم اور جسٹس کے کماریش بابو کی بنچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک ‘ذات پات  کی بیڑیوں کو توڑنے’ میں ناکام ہے اور یہاں تک کہ سیکولر حکومت بھی فرقہ وارانہ خطوط پر آخری رسومات اور تدفین کے لیے الگ الگ جگہ فراہم کرنے کو مجبور ہے۔’

عدالت  نے ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کو رد کرتےہوئے، جس میں سیلم ضلع کے اتھور کے نواکوریچی گاؤں میں قبرستان کی عدم موجودگی میں مبینہ طور پرگاڑیاں نکالنے کے راستے کے طور پر مخصوص زمین پر دفن ایک  لاش کو نکالنے کی اجازت دی گئی تھی، کہا کہ کم از کم کسی انسان کے آخری  وقتوں میں تو مساوات کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔

لاش کو نکالنے کی حمایت کرنے والے لوگوں نے کہا تھا کہ اس معاملے میں اپیل کرنے والوں نے اپنی ماں کو اس پلاٹ میں دفن کیا تھا جو ‘شیڈیولڈ کاسٹ اور پسماندہ طبقے کےلیےمختص قبرستان نہیں ہے۔

تاہم، ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کنندگان نے دلیل دی کہ کو مذکورہ پلاٹ کے بائیں جانب مردوں کودفن کرنا گاؤں میں ایک عام روایت تھی اور گاڑی کا راستہ صرف پلاٹ کے درمیان سے گزرتا تھا۔ اپنی بات کی تائید میں انہوں نے مذکورہ پلاٹ پر پہلے دفن کیے جانے والے افراد کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی تھیں۔

اس پر تمل ناڈو حکومت نے عدالت کو بتایا کہ تدفین یا آخری رسومات پر کوئی پابندی نہیں تھی، سوائے اس کے کہ تمل ناڈو گرام پنچایت (دفن کرنے کے اہتمام اورشمشان) ضابطہ، 1999 کے تحت انہیں قریبی رہائش گاہ یا پینے کے پانی کا ذرائع سے سے 90 میٹر کے اندر نہیں ہونا چاہیے۔

اس وقت  عدالت نے کہا کہ اس طرح کی تدفین پر پابندی کے  لیے کوئی اصول نہیں تھے اور موجودہ معاملے میں یہ  ٹرائل کورٹ کے فیصلے کورد کرتے ہوئے لاش کو قبر سےباہرنکالنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ مزید کہا گیا کہ گاؤں کا رواج – جیسا کہ اپیل کنندگان نے ذکر کیا ہے – پلاٹ کے بائیں جانب میت کو دفن کرنے کا رواج پہلے سے ہی رائج ہے۔

اس کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ سب کے لیے مشترکہ تدفین اور شمشان گھاٹ بنا کر  ایک ‘اچھی شروعات’ کرے۔

ہائی کورٹ نے کہا، ‘لیکن 21ویں صدی میں بھی ہم ذات پات سے لڑ رہے ہیں اور مرنے والوں کی تدفین کے معاملے میں بھی ذات کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو بدلنا ہوگا اور تبدیلی بہتر کے لیے ہونی چاہیے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ موجودہ حکومت تمام برادریوں کے لیے مشترکہ قبرستان اور شمشان گھاٹ بنا کر کم از کم ایک شروعات کے لیے آگے آئے گی۔