آپ بیتی: موربی پل حادثے کے بعد وزیر اعظم مودی کے اسپتال کے دورے سے پہلے ہی اس کے کایا پلٹ کی تصویریں سامنے آ ئی تھیں۔یہ سب نیا نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کے گوالیار کے جیاروگیہ اسپتال کے ایسے ہی کچھ دوروں کا گواہ ہونے کی وجہ سےمیں جانتا ہوں کہ لیڈروں کے اس طرح کے دورے سے اخبارات کی سرخیوں کے علاوہ اورکچھ نہیں بدلتا۔
نو –دس (9-10)مئی 2022 کی درمیانی شب زندگی کے سب سے خوفناک لمحوں کی گواہ تھی۔ چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس صدمے سے نکلنے کی کوششیں جاری ہیں۔ والد کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا، اس رات والدہ بھی ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئیں۔
ان یادوں کو مٹانے کی بھرپور کوشش کے بعد بھی کوئی نہ کوئی واقعہ ماضی میں کھینچ ہی لے جاتاہے۔ یکم نومبر کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا ،جس کا شاید براہ راست مجھ سے تعلق نہ ہو، لیکن میری ان یادوں سے تعلق ضرور ہے جنہیں میں بھلانا چاہتا ہوں۔
گزشتہ 30 اکتوبر کو گجرات کے موربی ضلع میں منی مندر کے قریب ماچھو ندی پر بنائے گئے کیبل پل کے گرنے کے حادثے میں تقریباً 150 لوگوں کی جانیں گئیں۔ واقعے کے دوسرے دن یعنی یکم نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے موربی سول اسپتال کا دورہ کیا اور حادثے میں زخمی لوگوں سے ملاقات کی۔
دورے سے ایک روز قبل اسپتال کی کچھ تصویریں منظرعام پر آئیں، جن میں دیکھا گیا کہ کیسے وزیراعظم کے دورے سے عین قبل اسپتال کی کایا پلٹ کی گئی۔ چند ہی گھنٹوں میں صاف صفائی اور دیواروں پر رنگ و روغن کے ساتھ خوبصورت پینٹنگز لٹکا دی گئیں۔ مریضوں کے بستر نئی چادروں سے چمکنے لگے۔ چند گھنٹے پہلے تک اسپتال کی چھت سے پلاسٹر جھڑ رہا تھا، وزیراعظم کی آمد کی اطلاع ملتے ہی سب کچھ مثالی حالت میں نظر آنے لگا۔
یہ سب کچھ نیا نہیں ہے، کم از کم میرے لیے تو بالکل بھی نہیں، میں پہلے بھی ایک دو ایسے واقعات کا گواہ رہا ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یکم نومبر کو گجرات کے موربی سول اسپتال میں وزیر اعظم مودی کا دورہ تھا اور گزشتہ 8 مئی کو مدھیہ پردیش کے گوالیار میں واقع سب سے بڑے سرکاری اسپتال جیاروگیہ (جے اے ایچ)میں صوبے کے وزیروشواس سارنگ آئے تھے۔
باقی سب کچھ ایک جیسا ہی تھا کہ کس طرح بڑے لیڈروں کے دوروں سے پہلے خستہ حال ہسپتال کو چند گھنٹوں میں ہی کس طرح منظم کر دیا جاتا ہے۔
موربی اسپتال کی تصویروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی آمد سے قبل اس کی حالت خراب تھی، لیکن ان کے جانے کے بعدکے حالات کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ہاں،گوالیار کے جے اے ایچ میں مدھیہ پردیش کے میڈیکل ایجوکیشن منسٹر سارنگ کے کے دورے کے بعد کی صورتحال کا میں یقینی طور پر براہ راست گواہ ہوں، کیونکہ میری والدہ اس دن اسی اسپتال کے میڈیسن ڈپارٹمنٹ کے آئی سی یو میں داخل تھیں۔
میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس طرح کے دورے نازک مریضوں کی تکلیف میں اضافہ کرتے ہیں۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں ماں کو جے اے ایچ کے کملاراجا کیمپس میں میڈیسن وارڈ میں داخل کرایا گیا۔ یہ تیسری منزل پر تھا، سینکڑوں مریض داخل تھے، لیکن پینے کو پانی تک نہیں تھا۔
والدہ چلنے پھرنے سے قاصر تھیں، وہ صرف اٹھ کر بیٹھ سکتی تھیں، اس لیے بستر کے اردگرد پردہ ڈال کر ضروریات وغیرہ کے لیے انتظام کیا جاتا تھا، پردے میں ہی ان کے کپڑے بدلے جاتے تھے۔ ان جیسے بہت سے مریض تھے اور سینکڑوں کا سہارا صرف ایک پردہ تھا، جسے نرسنگ اسٹاف کی خواتین کھانے اور سونے کے وقت اپنے کیبن کو ڈھانپنے کے لیے بھی استعمال کرتی تھیں۔ نتیجتاً عام مریضوں کو تو جانے ہی دیجیے، پیٹ کے مریض بھی گھنٹوں تک بیت الخلاء نہیں جاپاتے تھے۔
ہر طرف گندگی اس حد تک پھیل رہتی تھی کہ متلی آجاتی تھی۔ کورونا کے دور میں ہاتھ بھی نہیں دھو سکتے تھے، کیونکہ بیت الخلا میں داخل ہونے کے لیے ‘گندگی کا تالاب’ عبور کرنا پڑتا تھا۔
گنجائش سے کئی گنا زیادہ مریضوں کو داخل کیا گیا تھا، جنہیں گیلری یا کہیں بھی خالی جگہ ملنے پر گدا بچھا کر لٹا دیاجاتا تھا۔ کورونا کی تیسری لہر کا امکان تھا، اس طرح خوف و ہراس کے اس دور میں بھی سماجی دوری طاق پر رکھ دی گئی تھی۔ جب میں نے ان سب کے خلاف آواز اٹھانے کے بارے میں سوچا تو ایک جونیئر ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ کچھ نہیں بدلے گا، الٹے آپ کے مریض کا صحیح علاج نہیں ہوگا۔
ماں کو لیٹے لیٹے ‘بیڈ سور’ کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ سرجری کے شعبہ سے مشاورت ضروری تھی۔ لیکن، ہسپتال کا انتظام ایسا تھا کہ ایک شعبہ میں داخل مریض کو دیکھنے دوسرے شعبہ کے ڈاکٹر بھی نہیں آتے تھے۔ بس ایک کاغذ ہاتھ میں تھما کر سارا دن ایک شعبہ سے دوسرے شعبے تک گھماتے تھے۔ شکایت کرنے یا شکایت کا حوالہ دینے پر آنکھیں دکھاتےتھے۔
قائدین کے دورے سے پہلے اور بعد کی صورتحال میں فرق کو سمجھنے کے لیے یہ سب بیان کرنا ضروری ہے۔
پھر ایک صبح جب میں ہسپتال میں داخل ہوا تو پہلی منزل صفائی سے جگمگا رہی تھی، بدبو کی جگہ فریشنر کی بو نے لے لی تھی۔ سینئر ڈاکٹر جو اکثر نظر نہیں آتے تھے چہل قدمی کر رہے تھے۔ سارا نظام چاق وچوبند تھا۔ چونک کر میں نے گارڈ سے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ نیتا جی کا دورہ ہے۔
لیکن، دوسری تیسری منزل پر کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ وارڈ بوائے سے پوچھا کہ بھائی نیچے تو سب کچھی درست ہے لیکن اوپر جوں کا توں کیوں ہے؟
جواب ملا، ‘نیتا جی صرف نیچے کا دورہ کرنے آرہے ہیں۔’ میں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ لیڈر کون تھے۔
کچھ دنوں کے بعد والدہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا، مئی کے پہلے ہفتے میں ان کی حالت پھر بگڑ گئی۔ جے اے ایچ کی بدنظمی سے ڈر کرایک نجی اسپتال پہنچے۔ معاملہ ان کے بس کا نہیں رہا تو 6 مئی کی شام کو جے اے ایچ ہی جانا پڑا۔ والدہ کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر تھا اور وہ پہچاننا بھول گئی تھیں اس لیے انہیں نیورو ڈپارٹمنٹ میں داخل کرایا گیا۔
معائنہ کے بعد انہوں نے کہا، ‘یہ میڈیسن کا معاملہ ہے۔ صبح ریفرکردیں گے۔
صبح ایک پرچہ تھما کر میڈیسن کو بھیجا۔ ان کا کہنا تھا کہ جانچ کے لیے آئیں گے، پھر فیصلہ کریں گے۔ شام تک کوئی نہیں آیا۔ نیورو ڈپارٹمنٹ نے ریفر کرنے کے طریقہ کار کا حوالہ دےدیا۔ چاہے ‘طریقہ کار کی پیروی’ میں مریض کی جان ہی کیوں نہ جائے! چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے لیکن مناسب علاج شروع نہیں ہوا تھا۔
ہاں،ایک آپشن دیا گیاکہ نیورو ڈپارٹمنٹ سے ڈسچارج کروائیں، دوبارہ پرچہ بنوائیں اور آئی سی یو میں لے جائیں۔
اس بدانتظامی سے جوجھتےہوئے جب مقامی میڈیا کی مدد لی، تو 10-15 منٹ میں ہی ماں کو نیورو ڈپارٹمنٹ سے میڈیسن ڈپارٹمنٹ کے آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ وہی آئی سی یو، جہاں اگلے روز وزیر موصوف دورہ کرنے والے تھے۔
اس قدم سے بوکھلا کر ایک دو جونیئر ڈاکٹروں نے بحث شروع کر دی۔ میرا جواب تھا، ‘جب کسی مریض کو 15 منٹ میں ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے ڈپارٹمنٹ میں ریفر کیا جا سکتا ہے تو اس میں 24 گھنٹے سے زیادہ کیوں لگا؟’
بہرحال دو دن بعد والدہ کا انتقال ہوگیا، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر میں صحافی نہ ہوتا تو وہ دو دن پہلے ہی دم توڑ دیتیں۔ میں ان لاتعداد مریضوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو ‘طریقہ کار کی پابندی’ کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے! نہ جانے کتنے اس نظام کا شکار ہو کر وقت سے پہلے مر چکے ہوں گے۔ کیا وزیروں/لیڈروں کے دوروں سے ایسا نظام بدل جاتا ہے؟
آئی سی یو یعنی شدید بدنظمی!
آئی سی یویعنی ‘انتہائی نگہداشت یونٹ’، نام الگ ، لیکن منظر وہی جو دو ماہ قبل اس اسپتال کے کملاراجا کمپلیکس کے میڈیسن ڈپارٹمنٹ میں تھا۔ گنجائش سے زیادہ مریض گیلری میں بچھے بستروں پر پڑے تھے۔ سارے کے سارےنازک حالت میں، ان کی سانسیں کسی بھی لمحے رک سکتی تھیں۔ ماں کو جس کمرے میں داخل کیا گیا تھا، بہ مشکل 100 مربع فٹ کے اس چھوٹے سے کمرے میں چار بستر تھے اور اے سی خراب تھا۔
ٹیڑھی نگاہ کرکے ڈیوٹی ڈاکٹر نے پہلا سوال کیا، ‘تم وہی ہونہ جس نے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کو فون لگوایا تھا۔ سرکاری ہسپتالوں میں ہی آپ سب کی نیتا گری چلتی ہے!
لیکن نیتا گری کا اصل منظر تووہ تھا جب اگلے دن تمام ڈاکٹر وزیر موصوف کے سامنے سر خم کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ مریضوں، بالخصوص نازک مریضوں کے علاج کی کوئی فکر نہیں تھی۔
آٹھ مئی کی صبح جب ہسپتال پہنچا تو دروازے پر روک دیا۔ گیٹ پاس دکھانے کوکہا تو اندر والدہ کے ساتھ موجود بھائی سے منگوایا، لیکن دونوں میں سے ایک کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ تاہم ضرورت دو لوگوں کی تھی کیونکہ بے ہوش ماں کا ڈائپر بدلنا تھا۔ اس حوالے سے جب دونوں اندر پہنچے تو انہیں بستر پر آڑ کرنے کے لیے پردہ نہیں ملا۔ تقریباً 40 مریض داخل تھے، پردہ صرف ایک تھا۔ پردے کا انتظار کرتے، اس سے پہلے ہی عملے نے کچھ سنے بغیرمجھے باہر کر دیا۔
اس دوران دیکھا کہ جو گیلری کل تک مریضوں سے بھری ہوئی تھی، کچھ حدتک خالی نظر آرہی تھی۔ یہ صبح 9 بجے کے قریب کی بات ہے، وزیر 1 بجے کے قریب پہنچے، تب تک ماں اسی ڈائپر میں غلاظت میں پڑی رہیں۔ صفائی کرنے والوں سے ڈائپر بدلنے میں مدد مانگی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وزیر موصوف آ رہے ہیں، بہت کام ہے۔ صاف صفائی کرنی ہے۔
لیکن، مریض کی صفائی کا کیا! یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کی مدد کی شرح مقرر(ریٹ) ہے جو کہ 200-300 روپے ہے۔
نہ صرف ماں کو تکلیف تھی بلکہ اٹینڈر کے طور پر بھائی بھی صبح سے بھوکا پیاسا، بغیر باتھ روم گئے، وزیر موصوف کے دورے کے اختتام تک وہیں بیٹھا رہا (ماں کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا)۔
بے سدھ ، ہلنے ڈلنے سے قاصر،آکسیجن سپورٹ اور یہاں تک کہ ایسے مریض بھی جن کے کسی وجہ سے ہاتھ پیر بستر سے باندھ دیے گئے تھے، ان کے بھی بستروں کی ضروری طور پرچادریں تبدیل کی گئیں، ہر طرف جنگی سطح پر صاف صفائی اور نظم و نسق کو چاق وچوبنددکھانے کی ششیں جاری تھیں۔
وزیر موصوف کی آمد سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے تمام اٹینڈر سے آئی سی یو خالی کرنے کو کہا گیا۔
آئی سی یو وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف مریض کی ‘انتہائی نگہداشت’ کرتے ہیں، لیکن مریض کا بی پی شوگر تک اٹینڈر خود ہی اپنی مشین سے چیک کر رہے تھے۔ لیکن وزیر کی آمد پر شاید یہ دکھانا ضروری تھا کہ ڈاکٹر اور نرسنگ ا سٹاف مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں یا اسے چھپانا ضروری تھا تاکہ اٹینڈنٹ ہسپتال کی بدنظمی کی حقیقت نہ بتادیں! (ایک اٹینڈنٹ نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تھی)
سب باہر چلے گئے لیکن بھائی نے نہ جانے کی ضدکی کیونکہ وہ ہسپتال کے کام کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس کے سامنے ایک شرط رکھی گئی کہ وہ کمرے میں موجود چاروں مریضوں کی حالت پر نظر رکھے گا۔ اچھا ہوا کہ وہ وہاں موجود تھا کیونکہ اس دوران ان میں سے ایک کی حالت بھی بگڑ گئی تھی لیکن مریض کے اٹینڈنٹ کو باہر نکالنے والے ڈاکٹر نرس اس کمرے کے آس پاس بھی نہیں تھے۔
کوئی صرف سوچ سکتا ہے کہ ایک نازک مریض اگلے ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک بغیر اٹینڈنٹ کے کیسے رہا ہوگا۔
ہسپتال کے مطابق آئی سی یو میں مریضوں کے اٹینڈنٹ بھیڑ بڑھا رہے تھے لیکن وزیر موصوف کے ساتھ آنے والے لوگ بھیڑ کی گنتی میں نہیں تھے۔
یہ حال ایک ریاست کے میڈیکل ایجوکیشن کے وزیر کے ہسپتال دورےکا ہے، تصور کیجیے کہ ملک کے وزیر اعظم کے ہسپتال کے دورے پر اور بھی نہ جانے کیا کیاہوا ہو گا!
اس دن میڈیکل ایجوکیشن کے وزیر نے اپنے دورہ پر میڈیسن کے ہیڈ کی سرزنش کی اور غفلت برتنے والے ملازمین کو ڈانٹا۔ ان خبروں نے میڈیا کی شہ سرخیوں میں وزیر کا اچھا امیج بنایا، لیکن کیا ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے واقعی نظام میں بہتری آئی؟
اسی دوپہر ماں کے بغل کے بستر پرایک مریض نے دم توڑ دیا۔ وہ آکسیجن سپورٹ پر تھے۔ انہیں ٹوائلٹ جانا تھا، وہاں کوئی اٹینڈنٹ نہیں تھا، اس لیے وہ خود آکسیجن نکال کر باتھ روم چلے گئے۔ جیسے ہی وہ بستر پر واپس آئے، ان کی طبیعت بگڑ گئی، ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا اور کہا، ‘ آکسیجن کیوں ہٹائی، مر گیا یہ تو!’
سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوا، ذہن میں ایک سوال تھا کہ وزیرموصوف کے دورے کے دوران جو طبی عملے لواحقین کو نکال کر خود مریضوں کی دیکھ بھال کا دعویٰ یا ڈرامہ کر رہے تھے، اب وہ کہاں تھےکہ مریض آکسیجن نکال کر اٹھ کرچل دیا۔
کچھ دیر بعد ایک اور منظر تھا۔ ایک مریض کے لواحقین بدنظمی سے تنگ آکر اسے نجی اسپتال لے گئے، انہوں نے مریض کو داخل نہیں کیا۔ جب وہ فوراً واپس لوٹے تو ڈاکٹر نے علاج سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ اسے یہاں سے کیوں لے گئے؟ مریض کے بیٹے نے روتے ہوئے کہا کہ، میرے باپ کی جگہ اگر آپ کے باپ ہوتے تب آپ کو پتہ لگتا، اس پر ڈاکٹر نے اسے برا بھلا کہہ کر باہر نکال دینے کا فرمان سنادیا۔
اس کے بعد وزیرموصوف کے جاتے ہی صاف صفائی سمیت تمام انتظامات اپنی اصل حالت میں واپس آگئے۔ اس اتوار کی رات تقریباً 40 سنگین مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا، جن میں سے نصف آکسیجن اور وینٹی لیٹرز پر تھے۔ سب کے علاج کے لیے صرف 22-24 سال کا جونیئر ڈاکٹر موجود تھا۔ بیچ بیچ میں وہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
منظر ایسا تھا کہ جب ایک مریض کی نبض چیک کی جاتی تو دوسرے دو مریضوں کے لواحقین پیچھے سے کہتے، ڈاکٹر صاحب، جلدی چلو۔ میں بھی ان میں میں شامل تھا اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ وزیر موصوف کے دورے سے آخر بدلا کیا؟
انہوں نے ڈاکٹر کی سرزنش کی اور میڈیا کی سرخیاں حاصل کرلیں، چند روز کی چھٹی کے بعد ڈاکٹر دوبارہ شعبہ کے سربراہ کے طور پر کام کرنے لگے۔ لیڈر آئے روز ہسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں لیکن نظام نہیں بدلتا۔ پھر ان دوروں کا مقصد کیا ہے؟
وزیر اعظم مودی کے حالیہ دورے کے حوالے سے وائرل ہونے والی اسپتال کی تصویروں کو دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ آخر نیتا اسپتالوں کے دورے پیشگی اطلاع دے کر کیوں کرتے ہیں؟ کبھی بتائے بغیر تشریف لے جائیں تواس نظام کی حالت زار دیکھیں۔
تاہم، اگلے دن میں نے اپنی ماں کو کہیں اور لے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ شہر سے باہر جانے کی پوزیشن میں نہیں تھی، اس لیے شہر کے ایک مشہور پرائیویٹ اسپتال پہنچا تو انہوں نے کہا، ‘جے اے ایچ کے ڈاکٹر یہاں بھی سرجری کرتے ہیں۔ مریض بھی تو وہیں بھرتی ہے تو علاج وہیں کروائیے۔
تصویر واضح ہو رہی تھی۔ اکیلا جونیئر ڈاکٹر آئی سی یو میں 40 سنگین مریضوں کو سنبھال رہا تھا، شاید اس وقت سینئر ڈاکٹر پرائیویٹ ہسپتال میں کوئی سرجری کر رہا تھا!
اس بات کا علم نہ صرف وزیر موصوف کو بلکہ پوری حکومت کو ہونا چاہیے۔ لیکن، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہی تو قائدین کے دوروں کے وقت ہاتھوں میں گلدستے اور ہار پکڑے موجود ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے وزیر کے دورے کے بعد بھی انتظام ایسا تھا کہ والدہ کو ایک بار کوئی سینئر ڈاکٹر آکر دیکھ لے، اس کے لیے اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کو میڈیا اور بااثر لوگوں سے فون کروانا پڑا۔
خیر، مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ سارنگ اور مودی جیسے لیڈروں کے ہسپتال کے دورے جاری رہیں گے۔ ایک دن کے لیے سب کچھ منظم ہو جائے گا اور باقی دن مریض بھگوان کے بھروسے سرکاری اسپتال جائے گا۔
Categories: فکر و نظر